صبح اس کی آنکھ کھلی تو پورے نو بج چکے تھے اس نے منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کیا اور تیار ہونے لگا۔ پونے دس بجے اس کے دروازے پر دستک ہوئی تو وہ چونک گیا اٹھ کر دروازے کے پاس گیا اور پوچھا ”کون؟“ باہر سے آواز آئی ”کرم دین“ کرم دین فضل کا گہرا دوست تھا۔
کیا ہوا نہیں ملا کہیں کام؟ جیسے ہی فضل دیار گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی نے اس سے پوچھا۔
نہیں‘ فضل دیار نے مختصر جواب دیا۔
فضل دیار بہت ہی نیک اور سادہ لوح نہایت غریب انسان تھا۔ فضل دیار اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک چھوٹے گھر میں رہتا تھا۔ وہ محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ کئی دنوں سے اسے مزدوری نہیں مل رہی تھی۔ وہ کام کی تلاش میں مارا مارا پھررہا تھا مگر اسے کہیں کام نہ مل رہا تھا‘ گھر میں رکھا ہوا راشن بھی ختم ہونے کے درپے تھا۔
آج بھی جب فضل دیارسارے دن کے بعد آیا تو اس کے بچے اس سے لپٹ گئے۔ ابا! آپ میرے لیے گڑیا نہیں لائے؟ ننھی زینب نے پیار بھرا شکوہ کیا اور ابا آپ میرے لیے گاڑی نہیں لائے؟ دانیال نے منہ بسورتے ہوئے کہا فضل اپنے بچوں کی بات سن کر مسکرا دیا۔ اس کی بیوی نے بچوں کو ڈانٹا تو اس نے بچوں کو گلے سے لگایا اور اپنی بیوی کو سمجھاتے ہوئے بولا ”ارے دانیال کی ماں ان معصوموں کو کیوں ڈانٹتی ہو؟ ان کو میری مجبوری کا کیا پتہ؟ پھر اس نے اپنے بچوں کو پیار کرتے ہوئے کہا ”بچو اللہ سے دعا کرو اللہ آپ کے ابو کو کام دلوا دے۔“ جاو شاباش ابو کیلئے دعا مانگو‘ فضل نے اپنے بچوں سے کہا اور بچوں نے دوسرے کمرے کی طرف دوڑ لگادی۔ پھر اس نے اپنی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”دیکھنا دانیال کی ماںاللہ ان بچوں کی دعا کتنی جلدی سنے گا۔“
اب فضل اور اس کی بیوی بھی دعا مانگنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد دونوں بچے واپس آئے تب تک وہ دونوں بھی دعا سے فارغ ہوچکے تھے۔ پھر سب نے مل کر کھانا کھایا دونوں بچے اور اس کی بیوی سوچکے تھے لیکن اس سے نیند کوسوں دور تھی۔ وہ سوچ رہا تھا اور دل ہی دل میں اللہ سے اپنی مزدوری کیلئے دعائیں کررہا تھا۔ اس کو یقین تھا کہ اللہ اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی دعا ضرور قبول کرے گا‘یہی سوچتے سوچتے نہ جانے وہ کب نیند کی وادی میں اتر گیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو فجر کی نماز میں آدھا گھنٹہ تھا۔ وہ بستر سے اٹھا اور غسل خانے چلا گیا۔ وضو وغیرہ سے فارغ ہوا تو اس نے اپنی بیوی کو نماز کیلئے جگایا اور خود بھی مسجد کی طرف چل پڑا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس نے دل کی گہرائیوں سے دعا کی‘ گھر پہنچ کراس نے تلاوت قرآن پاک کی اور پھر اشتراق کی نماز پڑھ کر بستر پر لیٹ گیا دریں اثناءاس کی آنکھ لگ گئی۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو پورے نو بج چکے تھے‘ اس نے منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کیا اور تیار ہونے لگا۔ پونے دس بجے اس کے دروازے پر دستک ہوئی تو وہ چونک گیا اٹھ کر دروازے کے پاس گیا اور پوچھا ”کون؟“ باہر سے آواز آئی ”کرم دین“ کرم دین فضل کا گہرا دوست تھا۔ کرم دین اور فضل دیار کے حالات قریب ایک جیسے ہی تھے۔ اس نے فضل سے کہا فضل دراصل بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑی مل تعمیر ہونے لگی ہے ۔انہیں مزدوروں کی ضرورت ہے جلدی چلو ہم وہاں جا کر مل کی تعمیر میں حصہ لیتے ہیں۔
کرم دین نے فضل سے کہا تو وہ راضی ہوگیا۔ اس نے ساری بات آکر اپنی بیوی کو بتائی اور سائیکل پکڑ کر کرم دین کے ساتھ چل پڑا۔
ابا آپ میری گڑیا نہیں لائے؟ زینب نے کہا اور ابا میری گاڑی؟ دانیال نے اپنے باپ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا‘ اتنی دیر میں ان کی نظر بڑے بڑے کالے رنگ کے شاپروں پر پڑی تو وہ حیران رہ گئے ”یہ دیکھو“ فضل نے اپنے بیوی بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ کہتے ہوئے اس نے دونوں شاپر کھول کر تمام چیزیں ان کے سامنے کردیں۔ وہ یہ چیزیں دیکھ کر دنگ رہ گئے وہ پھٹی پھٹی نظروں سے شاپر میں موجود چیزوں کو دیکھ رہے تھے پھر اس کی بیوی کے پوچھنے پر اس نے بتایا ”جب میں اور میرا دوست اس مل کی تعمیر کیلئے گئے تو وہاں صرف چار مزدور تھے‘ پھر بھی ہم نے اچھا خاصا کام کرلیا اور ہمیں معاوضے کے طور پر چھ سو روپے مل گئے۔ شاپر میں تھوڑا سا راشن‘ زینب کی گڑیا اور عادل کی گاڑی تھی۔ پھر سب سے فضل نے کہا ”دیکھا یہ سب دعاکی برکت سے ہوا ہے ان سب کی آنکھوں میں شکر کے آنسو عیاں تھے۔
عقلمند نوکر
ایک بادشاہ نے اپنے تمام وفادار خدام کو کھانے کی دعوت پر مدعو کیا جب دستر خوان بچھایا گیا اور بادشاہ اپنے تمام تر جاہ جلال سے اس کے سامنے آکر بیٹھا۔
اسی دوران خادم ایک تھالی میں سالن لے کر آیا بادشاہ کے رعب و دبدبے کی وجہ سے اس پر کپکپی طاری ہوگئی جس کی وجہ سے تھوڑا سالن چھلک کر بادشاہ کے کپڑوں پر بھی گرگیا بادشاہ نے اس کی طرف تیز نظر سے دیکھا اور اس کی گردن اڑانے کا حکم دیدیا۔جب خادم نے یہ حکم سنا تو پوری تھال بادشاہ کے سر پر الٹ دی۔ بادشاہ نے زیادہ غضبناک ہوکر کہا۔ گستاخ یہ کیا حرکت کی تم نے....؟
کہنے لگا بادشاہ سلامت! میں نے تو آپ کے اکرام اور آپ کو اس عار سے بچانے کیلئے کیا ہے جو لوگ آپ کی طرف منسوب کرینگے جب وہ میرا جرم جس کی وجہ سے مجھے قتل کیا جارہا ہے سنیں گے اور کہیں گے۔
کہ ایک غلام کی اتنی سی غلطی.... اور اس کی اتنی بڑی سزا.... غلطی بھی کیسی جو بغیر قصد کے ہوئی.... پھر تو وہ آپ کو ظالم وجابر کا لقب دیں گے۔اسی وجہ سے میں نے آپ پر سارا سالن ڈال دیا کہ جب وہ میری غلطی سنیں تو آپ کو میرے قتل کی وجہ سے ملامت نہ کرسکیں۔
یہ سن کر بادشاہ نے اپنا سر جھکالیا اور کہا۔اے بری حرکت کرکے اچھا عذر پیش کرنے والے ہم نے تمہاری بری حرکت اور اس بھاری جرم کو تمہارے اچھے عذر کے بدلہ معاف کیا اور تمہیں اللہ کے واسطے آزاد کیا۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 791
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں