محتاط ہی رہنا چاہیے
میں نے سنا ہے کہ دل کی بات کسی سے کہہ ڈالنے سے ذہنی سکون مل جاتا ہے۔ اسی لیے میں اپنی کزن اور دوستوں سے اپنی ہر بات شیئر کرتی ہوں۔ دوستوں سے کہہ ڈالنے سے تو مسئلہ نہ ہوا مگر کزن سے کہنے پر خاندان میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ لوگ مجھے اب اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے‘ خاص طور پر پھوپھی اور تائی کو تو مجھ سے بہت شکایتیں ہوگئیں۔ وہ دونوں کہتی ہیں کہ ہم تو تمہیں سیدھی سادی لڑکی سمجھتی تھیں تم تو بہت خراب ذہن رکھتی ہو۔ دراصل میں نے ان کے بیٹوں کے بارے میں کچھ باتیں اپنی کزن سے کی تھیں اور واقعی ان دونوں کے بیٹوں نے مجھے پریشان کیا تھا۔ مگر میری کزن نے میرا راز نہ رکھا اور کہہ ڈالا۔ اب میں کہیں بھی آتی جاتی نہیں۔ امی نے بھی ڈانٹا کہ تمہارے دماغ کا فتور ہے لڑکے اچھے ہیں۔ ان میں ایک کو تو میں تمہارے لیے پسند کرتی تھی اب کس منہ سے بات کروں گی۔ کزن ابھی بھی مجھ سے ملنے آتی ہے اور ادھر ادھر کی باتیں کرتی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اس سے یہ مشکلات بیان کروں مگر اب میں خاموش رہتی ہوں۔
(عرشیہ‘ میرپور خاص)
مشورہ:ذہن میں آنے والی ہر بات ہر ایک سے نہیں کہنی چاہیے۔ اس طرح مسائل بڑھ جاتے ہیں اور ذہنی سکون کی جگہ ذہنی تناو دباو اور بے سکونی کی کیفیت سامنے آسکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات کسی پریشانی کے ذہن پر مسلط ہونے سے انسان اس قدر گھبرا جاتا ہے کہ وہ اپنی دلی کیفیت کسی پر ظاہر کرنا چاہتا ہے اور کسی سے کچھ کہہ ڈالنے سے خود کو ہلکا سا محسوس کرتا ہے مگر یہاں ذرا دل اور دماغ اور زبان کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ یہی صبرو برداشت کا امتحان بھی ہے۔ کیونکہ اگر آپ اپنے اندیشوں کا ذکر بھی کسی سے کردیں گے تو وہ آپ کے نام کے ساتھ ان باتوں کو جوآپ نے پریشانی میں کہی ہیں کسی دوسرے ایسے شخص سے کہہ سکتا ہے جو آپ کیلئے مصیبت کھڑی کردے۔ جس طرح آپ نے اپنی کزن سے کچھ باتیں کیں وہ حقائق تھے اور انہیں تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ الٹا سب آپ پر ناراض ہوئے اور خاص طور پر والدہ کو بھی اچھا نہ لگا۔
عام زندگی سے ٹوٹتا ہوا رابطہ
میری بیٹی دس سال کی عمر سے کبھی کبھار عجیب حرکتیں کرتی تھی۔ میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی کہ بچی ہے‘ مگر وہ جیسے جیسے بڑی ہوئی اس کا رویہ اپنی عمر کی لڑکیوں سے مختلف ہوتا گیا۔ وہ بہت زیادہ عبادت کرتی‘ اس قدر کہ کھانے پینے کا ہوش نہ رہتا۔ خود کو بہت مختلف اور عظےم شخصیت سمجھنے لگی‘ اپنی سہیلیوں سے ملنا چھوڑ دیا۔ پھر رشتے داروں کے سامنے آنا ختم کیا اور اب گھر والوں سے بھی تعلقات نہیں ہیں۔ سارا دن کمرے میں بند رہتی ہے۔ باہر نکل کر کہتی ہے کہ کچھ لوگ آئے تھے جو باتیں کر رہے تھے اور جن لوگوں کے نام لیتی ہے وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ خود کلامی کرتی ہے‘ گفتگو بے ربط ہے‘ ہم لوگ اب بہت پریشان ہیں۔ میری بیوی کو یقین ہے کہ بیٹی پر کسی نے جادو کروا دیا ہے۔ (حبیب انور‘ ملتان)
مشورہ: بیٹی کا رویہ بچپن ہی سے غیر معمولی رہا ہے اور اب بہت مختلف بلکہ اپنے اور اہل خانہ کےلئے تکلیف دہ ہو گیا ہے‘ وہ شدید ذہنی مرض شیزوفرینیا کا شکار معلوم ہوتی ہے‘ اس مرض میں بصری اور سمعی اوہام ہوتے ہیں۔ بعض مریض خود کو کوئی بڑی ہستی سمجھتے ہیں۔ ان علامات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جادو وغیرہ کا اثر ہے لیکن در حقیقت یہ شدید ذہنی مرض ہوتا ہے۔ آپ بیٹی کو دماغ کے کسی ڈاکٹر کو دکھا سکتے ہیں تاکہ وہ کسی حد تک تو نارمل زندگی کی طرف آئے کیونکہ فی الوقت اس کا عام زندگی سے رابطہ تقریباً منقطع ہے۔
خوشیوں میں دکھ کی تلاش
میرے والد کی موت ہونا اور پھر اس سلسلے میں طرح طرح کی باتیں سننا میرے لیے کسی رسوائی سے کم نہیں۔ میں جانتا ہوں انہیں جرائم پیشہ لوگوں نے ختم کیا اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ جانتے بوجھتے یا انجانے میں ان لوگوں کا ساتھ دے رہے تھے جو پھر ان کے جانی دشمن ہو گئے۔ بہت سے سوالات میرے ذہن میں ابھرتے ہیں۔ بہت باتیں یادآتی ہیں لیکن کسی سے اظہار خیال نہیں کر سکتا۔ بدنامی کا ڈرہوتا ہے اور اداسی چھا جاتی ہے۔ لوگ ہنستے بولتے ملتے جلتے ہیں۔ میں کوئی ویران ٹھکانہ تلاش کررہا ہوتا ہوں۔ (نصیر الدین‘ پشاور)
مشورہ:والدین کے حوالے سے تلخ حقائق کو قبول کرنا ایک مشکل کام ہے مگر حقائق کو بدلنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے‘ اور جو کچھ ہو چکا وہ تو اب قبول کرنا ہی ہے۔ جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے‘ خواہ ہمارے کتنے ہی اپنے تھے‘ ان کی جدائی کا غم تو سہنا ہی ہے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کی طرف سے بننے والی باتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ خوشیوں کے موقع پر خوش رہنے اور لوگوں سے ملنے کیلئے خود تر غیبی کی مدد سے اپنے ذہن کو آمادہ کریں اور بے خوف ہو کر لوگوں سے ملیں۔ اگر موجودہ حالات سے اچھی مطابقت پیدا کر لیں گے تو گزرے ہوئے ناگوار واقعات اور صدمات آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
اضطراب اور تناﺅ میں لاشعوری عمل
میں بچپن سے دانتوں سے ناخن کاٹتا ہوں‘ مجھے معلوم ہے کہ اس طرح ناخنوں کا میل میرے منہ سے معدے میں جاتا ہے مگر مجھے خیال نہیں رہتا اور یوں بھی بیٹھے بیٹھے ہاتھ منہ تک چلا جاتا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو امی نے یہ عادت چھڑوانے کیلئے سختی کی‘ غصہ کیا‘ میری انگلیوں پر مارا مگر میں گھر میں اس عادت سے دور رہتا تو سکول میں ناخن کاٹتا رہتا۔ اس قدر کہ میری انگلیوں سے خون نکل آتا۔ اب جبکہ میں آفس میں جاتا ہوں اس عادت سے چھٹکارا نہیں حاصل کر سکتا۔ چور آنکھوں سے چاروں طرف دیکھتا ہوں۔ (عارف نعیم‘ جہلم)
مشورہ:دانتوں سے ناخن کاٹنا منفی جذبات کا اظہار ہے۔ یہ عموماً اضطراب اور تناﺅ کی نشانی ہے۔ ان لوگوں کے ناگوار جذبات کا اثر اپنی ذات کی طرف ہوتا ہے اور یہ اپنی انگلیوں کو منہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ عموماً یہ فعل لاشعوری ہوتا ہے لہٰذا اس عادت پر قابو پانے کیلئے ضروی ہے کہ انسان مضبوط قوت ارادی سے کام لے اور زیادہ وقت منہ میں کچھ نہ کچھ ڈالے رکھے مثلاً چیونگم وغیرہ۔ جب پہلے سے کچھ چبایا جارہا ہوتا ہے تو پھر ناخن کاٹنے کی طرف توجہ نہیں ہوگی۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 847
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں