ماسٹر ”مکاو سوئی“ کے طریقہ کے مطابق جب ”رے کی“ دی جاتی ہے تو چونکہ ”رے کی“ ہیلر خاص تربیت اور اجازت کے عمل سے گزر چکا ہوتا ہے تو وہ یہ تمام عمل ایک خاص منظم اور مضبوط انداز میں انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نتائج غیرمعمولی طور پر سامنے آتے ہیں۔
ایک بچہ میدان میں دوڑ رہا تھا اسے ٹھوکر لگی اور وہ زمین پر گرگیا۔
اس کے گھٹنوں پر چوٹ آئی۔ بچہ نے بسورتے ہوئے اپنے گھٹنے دونوں ہاتھوں سے تھام لئے۔ ماں ساتھ ہی تھی.... اس نے دیکھا تو دوڑ کر بچے کو گود میں لیا اور چوٹ والے مقام پر ہاتھ رکھ دیا....
چلتی ہوئی بس سے اترتے ہوئے ایک صاحب کی کہنی بس کے دروازے سے ٹکرائی.... انہیں شدید چوٹ کا احساس ہوا اور فوراً انہوں نے اپنے دوسرے ہاتھ سے کہنی کو پکڑ لیا....
ہماری زندگی کے ایسے کئی واقعات ہیں.... جب آرام پہنچانے کیلئے ہم مقام مائوف پر دونوں ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور سانس روک لیتے ہیں۔ گھٹنوں پر چوٹ آئی‘گھٹنوں پر چوٹ آئی‘ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھ دئیے اور سانس روک لی۔ اس سے آرام ملتا ہے۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ یہ کیا ہے؟
فطرت کی رہنمائی میں تمام انسان تکلیف سے راحت حاصل کرنے کیلئے غیرارادی طور پر یہ عمل کیوں کرتے ہیں؟ غور کریں تو اس عمل کے دوران آپ کو وہ بنیادی باتیں واضح نظر آئیں گی۔ اول چوٹ کے مقام کو گرفت میں لینا یا اس پر ہاتھ رکھ دینا یعنی ”چھونا“ دوئم ” سانس روک لینا“ اب یہ بھی دیکھیں کہ اس عمل سے آرام بھی آجاتا ہے۔ کیا یہ ”رے کی“ نہیں؟ جی ہاں! یہ ہے فطرت کی رہنمائی میں ہر فرد کا ”رے کی“ دینا۔
ماسٹر ”مکائو سوئی“ کے طریقہ کے مطابق جب ”رے کی“ دی جاتی ہے تو چونکہ ”رے کی“ ہیلر خاص تربیت اور اجازت کے عمل سے گزر چکا ہوتا ہے تو وہ یہ تمام عمل ایک خاص منظم اور مضبوط انداز میں انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے نتائج غیرمعمولی طور پر سامنے آتے ہیں۔ ماسٹر ”مکائو سوئی“ نے جو تربیت دی اس میں ایک مشق ”سانس“ کی بھی ہوا کرتی تھی۔ اب ہمارے ہاں مغرب سے جو ”رے کی“ تکنیک آئی ہے اس میں سانس کی مشق نہیں ہے۔ ہم ”رے کی“ کے شائقین کے استفادے کیلئے ماسٹر مکائو سوئی کی فرمودہ مشق یہاں نقل کریں گے۔ پہلے کچھ بات چھونے کے حوالے سے ہوجائے۔ یوں تو ”رے کی“ دینے کے متعدد طریقے ہیں (جن کا ذکر اگلی سطور میںآئے گا) لیکن عام طور پر جو طریقہ سب سے زیادہ رائج ہے وہ ہے چھو کر ”رے کی“ دینا۔ اس میں یہ کیا جاتا ہے کہ ”رے کی ہیلر“ مریض کے سر‘ چہرے یا کاندھوں وغیرہ پر ہاتھ رکھ کر ”رے کی“ دیتا ہے۔ اس حوالے سے ایک تو ہے ضابطہ اخلاق.... ریکی ہیلر کو مذہبی‘ اخلاقی اور معاشرتی اقدار و ضوابط کی پاسداری کرنا چاہیے۔
رے کی کے حوالے سے ایک اضافی اخلاقی قدغن یہ عائد کی جاتی ہے کہ آپ مریض کو یا جسے بھی رے کی دینا چاہتے ہیں اگر وہ رے کی سے متعارف نہیں ہے تو پہلے اسے رے کی کے بارے میں بتائیں۔ یہ باتیں کہ آپ اسے چھوکر رے کی دینا چاہتے ہیں۔ نیز یہ کہ آپ اس کے جسم کے کن حصوں پر اندازاً کتنی دیر ہاتھ رکھیں گے۔ یاد رہے بعض افراد پسند نہیں کرتے کہ انہیں ہاتھ لگایا جائے۔ رے کی ہیلر کو ان کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ اس کا درست طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ابتدا میں اجازت لے لی جائے پھر ”رے کی“ دینا شروع کیا جائے۔ اگر رے کی دینے کے دوران مریض بے آرامی محسوس کرے یا زیادہ دیر بیٹھنے یا لیٹنے سے تھک گیا ہو تو اس سے پوچھا جائے۔ دریافت کرنے کے بعد ”رے کی“ دینے کا سلسلہ کچھ دیر کیلئے یا آئندہ کسی وقت کیلئے موقوف کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو تھا رے کی کی اخلاقیات کے حوالے سے چھونے کا جائزہ۔ اب آئیے! اس کے تکنیکی پہلو کی جانب.... میں نے دیکھا ہے کہ عموماً اس جانب رہنمائی نہیں کی جاتی۔ آپ کے ہاتھ صاف ہونے چاہئیں.... ناخن تراشے ہوئے ہوں۔ بہتر ہے رے کی دینے سے قبل ہاتھ دھو لیں.... لیکن اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ موسم‘ کمرے کا درجہ حرارت یا کسی بھی وجہ سے آپ کے ہاتھ سرد نہ ہوں۔ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ ٹھنڈے ہیں تو انہیں آپس میں رگڑ کر گرم کرلیں۔ آپ ایسا ایک سے زائد مرتبہ بھی کرسکتے ہیں۔ ہاتھ آپس میں رگڑ کر گرم کریں اور پھر رے کی دینا شروع کریں۔ اگر سرد ہاتھ رے کی دینے کیلئے کسی کے جسم پر رکھے جائیں گے تو وہ عارضی طور پر وہاں سے حرارت کو کم کریں گے عام طور پر رے کی وصول کرنے والے کے لیے ابتدائی سرد احساس اتنا بہتر نہیں ہوتا جتنا کہ نارمل یا کسی درجے حدت رکھنے والا ہاتھ.... تو کوشش ہو کہ ہاتھ سرد نہ ہوں۔ دیکھئے اگر کسی فرد کو حرارت ہے تب بھی ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہاتھوں کے ذریعے کچھ ٹھنڈا اس بخار والے فرد کے جسم میں پہنچائیں۔ بلکہ ہم اسے صرف ”رے کی“ توانائی منتقل کرتے ہیں جو اس کے ازخود صحت یابی کے عمل کو تیز کرکے مریض کو شفایاب کرتی ہے۔
”انتقال امراض“ کا ایک طریقہ ہمارے ہاں اور دیگر تہذیبوں میں بھی رائج ہے۔ یہ ایک تکنیکی اور محنت طلب کام ہے‘ نہ ہی ہرفرد یہ کرسکتا ہے۔ اس کیلئے خصوصی مہارت درکار ہے۔ طریقہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ عامل مریض کا مرض سلب کرتا ہے اور اسے کسی بے جان شے یا پودے وغیرہ میں منتقل کردیتا ہے۔
بات یہ ہورہی تھی کہ چھو کر علاج کرنا قدیم زمانے سے رائج ہے۔ چھو کر علاج کرنے کی ایک اپنی ہی دلچسپ تاریخ ہے۔ مسلمانوں کے ہاں چھو کر دم کرنا‘ مختلف امراض کے علاج کے ضمن میں رائج رہا ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی دیکھا جائے تو قریباً ہر تہذیب میں اور دنیا کے ہر حصے میں آپ کو یہ چیز نظر آئے گی۔ شفقت اور محبت کے احساس کے ساتھ چھونا‘ مصافحہ‘ معانقہ یہ چیزیں ہر تہذیب میں اور ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ چھونے کا اور چھوئے جانے کا یہ احساس تہہ در تہہ کئی جذبات اور کئی معنی لیے ہوئے ہے۔ اسی میں سے ایک رے کی توانائی کی منتقلی بھی ہے۔ یہ جذبات اور ان کی منتقلی صرف انسانوں ہی تک محدود نہیں۔ جانوروں میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے آپ جب کسی پالتو جانور کو جذبہ محبت سے ہاتھ لگاتے ہیں تو وہ آپ کا یہ لمس محسوس کرتا ہے اور اپنی زبان بے زبانی سے اس کا اظہار بھی کرتا ہے.... یہاں تک کہ پودے بھی۔ بعض عملی تجربوں سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق پودے بھی گھر کے افراد کو پہچانتے ہیں۔ گھر کے افراد کی آمد پر ان کے چھوئے جانے پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
کچھ افراد اس صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ محض لمس سے یہ بتا دیتے ہیں کہ مقابل کے دل میں کیا ہے؟ مثلاً مصافحہ کرتے ہی انہیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ مقابل کے جذبات کیسے ہیں۔ خلوص‘ محبت‘ نفرت‘ حسد‘ کینہ‘ بیزاری‘ سرد مہری‘ تکبر‘ عناد‘ مسرت یا کوئی اور جذبہ!.... وہ ہاتھ کے لمس سے ہی بہت کچھ جان لیتے ہیں۔ کوئی اور فرد بھی مشق سے یہ صلاحیت حاصل کرسکتا ہے۔ البتہ ”رے کی ہیلر“ میں کسی درجے پر یہ صلاحیت ازخود بیدار ہوجاتی ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 037
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں