ایک بزرگ تھے جو کہ اب اس دنیا میںنہیں ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین! ان صاحب کے سات بیٹے تھے۔ میں نے ان کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھا۔ ان کا ایک بیٹا جو کہ میرا دوست تھا۔ اس سے ملنے کبھی کبھار میں اس کے گھر جاتا تھا تو ان کے گھر سے چربی کی عجیب سی بو آتی تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے والد صاحب چربی پگھلانے کا کام کرتے تھے۔ روزانہ میں ان کو لکڑیاں لاتے ہوئے دیکھتا تھا مگر ڈر کے مارے میں نے کبھی نہیں پوچھا کہ باباجی آپ ان لکڑیوں کا کیا کرتے ہیں؟ چربی کہاں سے آتی تھی یہ بھی مجھے بعد میں ہی معلوم ہوا کہ تقریباً ہر شہر میں چمڑوں (کھلوں) کے گودام ہوتے ہیں جن سے ایک خاص قسم کی بو آتی ہے۔ قصاب حضرات جو کہ بکروں اور دنبوں کی کھالیں لاتے تھے ان کھالوں کا آپریشن باباجی چربی اتار کر جمع کرتے رہتے اور پھر پگھلائی جاتی تھی۔ بابا جی جوکہ بالکل ان پڑھ تھے مگر بلاکا حافظہ تھا۔ ان کا شعرو شاعری سے دیوانگی کی حد تک لگائو تھا۔ پورا پورا دیوان‘ فارسی‘ اردو‘ پشتو شعراءکے کلام ان صاحب کو زبانی ازبر تھے۔ تحریک پاکستان میں یہ صاحب پیش پیش تھے بلکہ ان مرحوم کا ایک بیٹا ماہ اگست 1947ءکو پیدا ہوا اور اس کا نام نوید پاکستان رکھا اور وہ بچہ پاکستانا پاکستانے پر مشہور ہوا۔ وہ شاید سکول ماسٹر ہے۔ ہم ان سے مختلف شعراءحضرات کا کلام سنتے تھے۔ پنجابی‘ پشتو‘ اردو‘ فارسی کے اشعار پوری طرح اور پوری پوری غزلیں یاد تھیں۔
اب اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں جو کہ حضرت صاحب کے ساتھ پیش آیا۔ یہ صاحب جب بھی آتے گپ شپ لگی رہتی اور شعروشاعری میں مشغول ہوجاتے تھے اور کبھی کبھی اگر کھانا تیار ہوتا تو کھانے میں بھی شریک ہوجاتا تھا۔ اسی طرح ایک دن حضرت تشریف لائے تو طبیعت ہشاش بشاش نہ تھی میں نے جب ان کی طرف دیکھا تو کچھ پریشانی سی ہوئی اور پوچھ لیا بابا جی یہ آپ کی آنکھ پر کیا ہوا کہنے لگے کہ سیڑھیوں سے گرا ہوں‘ یہ آنکھ پر چوٹ اس سے آئی ہے۔ میں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے گلاس مارا ہے تو وہ صاحب میری طرف بڑی عجیب نظروں سے دیکھنے لگے اور پھر رونا شروع کردیا جوکہ میرے لیے برداشت سے باہر تھا۔ بڑی مشکل سے انہیں چپ کرایا ۔ بڑے پیار سے پوچھنا شروع کیا مگر حضرت ٹس سے مس نہ ہوئے خیر میں نے پوچھنا ہی چھوڑ دیا اور پھر دوسرے دن ان سے حضرت کے پچپن کے دوست ملنے آئے تو میں نے سب سے پہلے حضرت کے بارے میں سوال کیا کہ ان صاحب کا اپنے والدین سے کیسا برتائو اور رویہ تھا۔ پوچھنے کی ایک اور وجہ تھی کہ دو گلیوں میں رہنے والے گھروں کی پچھلی دیوار ایک ہی تھی اور دوست بھی تھے تو انہوں نے بتایا کہ بڑے ظالم قسم کے بیٹے تھے جب سخت گرمیوں میں دوپہر کے وقت گھر آتے تو اپنے ماں باپ کو کسی نہ کسی بہانے لڑائی جھگڑا شروع کرادیتے اور یہاںتک کہ مار کٹائی شروع ہوجاتی تھی اور بالآخر اوپر والی منزل جو کہ دھوپ اور گرمی سے کسی انسان کا ٹھہرنا مشکل ہوتا یہ بیچارے ماں باپ چیختے چلاتے رہتے اور یہ حضرت اپنی بیوی کے ساتھ گپ شپ میں شروع ہوجاتا تھا۔
یہ سب کچھ کے باوجود ماں باپ نے صبر سے کام لیا مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ اللہ نے اس کو سات بیٹے دئیے۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ ایک اور سات کا کیا مقابلہ اور اللہ نے ایک کے بدلے سات بدلہ لینے والے نوجوان بھیج دئیے۔ اللہ ہم سب کیلئے آسانیاں اور برداشت کا حوصلہ عطا فرمائے آمین!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں