اگست یا ستمبر کے مہینے میں گائوں سے باہر کھیتوں میں نکل جائیں تو شیشم اور ببول کے اونچے درختوں اور گنے کے کھیتوں یا سرکنڈے کے جھنڈ میں کسی پرندے کی باریک اور مترنم آوازیں سنائی دیں گی۔ یہ آوازیں اتنی میٹھی ہوتی ہیں کہ دل بے اختیار ان کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ غور سے دیکھیں‘ تو کھیتوں اور درختوں کی ٹہنیوں پر چھوٹے چھوٹے پرندے اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں.... جی ہاں‘ یہ دلکش آوازیں بیا کی ہیں جو اس وقت زور شور سے تعمیراتی کام میں مصروف ہے۔ جسامت میں بیا گھروں میں رہنے والی عام چڑیا کے برابر ہوتا ہے لیکن اس کی نسبت نہایت ذہین اور خوش طبع ہے۔ اپنے ذاتی فرائض ہوں یا بیگار کا کام‘ ہر جگہ خوش طبعی اور زندہ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
جہاں کہیں آپ کو درختوں پر وسط ایشیا کے فقیروں کی ٹوپیاں الٹی لٹکی ہوئی نظر آئیں‘ سمجھ لیجئے یہ بیے کے گھونسلے ہیں۔ اپنی نوعیت اور بناوٹ کے لحاظ سے پرندوں کی دنیا میں ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ یہ پرندہ عموماً گھنے جنگل پسند نہیں کرتا۔ معلوم ہوتا ہے انسانی آبادیوں سے اسے خاص مناسبت ہے‘ اسی لیے بستیوں کے آس پاس گھونسلے بناتا ہے۔ بے حد محتاط اور عاقبت اندیش ہے۔ دشمنوں کی یلغار سے بچنے کیلئے باقاعدہ پیش بندی کرتا ہے۔ دشمن سے حفاظت کیلئے ایسی جگہ گھونسلا بناتا ہے جہاں بھڑوں کے چھتے یا زہریلی چیونٹیوں کے بل ہوں۔ ان پیش بندیوں کی وجہ سے دشمن گھونسلے کے قریب نہیں جاسکتا البتہ حضرت انسان اس کی پیش بندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے محض تفریح طبع کی خاطر گھونسلے اٹھا لیتا ہے۔
بیاگھونسلے بنانے کا کام درخت کی کسی لچکدار شاخ کا انتخاب کرنے کے بعد شروع کرتا ہے۔ وہ گنے‘ دھان یا مونج کے پتوں سے باریک دھاگے بناتا اور شاخ سے لپیٹتا جاتا ہے۔ دھاگے بنانے میں اسے خداداد مہارت حاصل ہے۔ پتے کی جڑ کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور اس کی اگلی نوک پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا ہے‘ پتہ درمیان سے مڑجاتا ہے‘ اب یہ ذہین جانور اسے پکڑ کر جھٹکا دیتا ہے۔ پتے کی لمبائی کے برابر باریک دھاگا تیار ہوجاتا ہے جسے گھونسلے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
بیا دھاگوں کو رسی کی صورت میں شاخ کے گرد بڑی مضبوطی سے بن کر نیچے کی طرف لٹکا دیتا ہے۔ مناسب مقدار میں دھاگے کا ذخیرہ ہوجائے تو دھاگے کے نچلے حصے کو بلب کی صورت میں موڑتا ہے۔ گھونسلے کا قطر بالعموم اوپر سے چار انچ اور نیچے سے ساڑھے پانچ انچ ہوتا ہے۔ اب اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ انڈے دینے کا خانہ کہاں ہونا چاہیے‘ گھونسلے کے بیچوں بیچ ایک مضبوط اور لمبوتری دیوار بنائی جاتی ہے جو باہر نکلنے والے سوراخ اور انڈوںکی جگہ کے درمیان حد فاصل کا کام دیتی ہے۔ اس وقت گھونسلے کی شکل الٹی لٹکی ہوئی ٹوکری سے مشابہہ ہوتی ہے۔
نر بیا مادہ پرندہ کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے‘ لیکن مادہ اس وقت تک توجہ نہیں کرتی جب تک اس کا بنایا ہوا گھونسلہ نہ دیکھ لے۔ جو گھونسلا اسے پسند آجائے‘ اس میں بسیرا کرتی ہے۔ اب نر اور مادہ مل کر باقی کام مکمل کرتے ہیں۔ بڑی محنت سے دیواروں کو مضبوط‘ نرم اورملائم بناتے ہیں۔ نرباہر سے دھاگے اندر دھکیلتا ہے‘ مادہ اندر سے بنتی ہے۔ کام کے دوران میں نر کے ذوق و شوق کا عجب عالم ہوتا ہے وہ لمبے مترنم سروں میں خوشی کے نغمے الاپتا ہے۔ گھونسلے کی لمبائی ایک فٹ تک ہوتی ہے۔ اسے اتنا مضبوط بنایا جاتا ہے کہ اسے سخت آندھیاں نقصان پہنچا سکتی نہ زور دار بارشوں کا پانی اندر جاسکتا ہے۔ خود بیا گھونسلے میں اس احتیاط سے داخل ہوتا ہے کہ گھونسلا حرکت تک نہیںکرتا۔ دو پروں کو سمیٹ کر ایک ہی جست میں اندرچلا جاتا ہے۔ اس کے گھونسلے کی گانٹھ نہایت مضبوط ہوتی ہے اور اسے شاخ سے جدا کرنے کیلئے خاصا وقت لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آندھی یا طوفان میں گھونسلا دائیں بائیں ڈولتا ضرور ہے لیکن شاخ سے الگ نہیں ہوتا۔
نر بیا کی ایک عجیب عادت یہ ہے کہ ایک گھونسلامکمل ہوجائے تو دوسرے کی تیاری میں مصروف ہوجاتا ہے۔ وہاں بھی کوئی مادہ آکر گھر بسا لیتی ہے۔ اس طرح بعض اوقات ایک نر بیا تین تین گھر آباد کرلیتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں