دکھی خط
ایڈیٹر کی ڈھیروں ڈاک سے صرف ایک خط کاانتخاب نام اورجگہ مکمل تبدیل کر دیئے ہیں تاکہ رازداری رہے۔ کسی واقعہ سے مماثلت محض اتفاقی ہو گی۔اگر آپ اپنا خط شائع نہیں کراناچاہتے تو اعتماد اور تسلی سے لکھیں آپ کا خط شائع نہیں ہوگا۔ وضاحت ضرور لکھیں
محترم! بلوغت سے لیکر موجودہ لمحے تک میری زندگی میں اندھیرا ہے جیسے کہ اب تک عرصہ حیات میں خوشیوں کا سورج طلوع نہ ہوا ہو ان سب کی مختلف وجوہات ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:۔
٭ بچپن کی نادانیاں........
٭ گھر کے سب افراد کا مجھے نظرانداز کرنے کے باعث شدید احساس محرومی میں چلا جانا۔
٭ آس پاس رشتہ دار اور دوستوں میں میرے لیے بغض و کینہ رکھنے کے سبب میرے اوپر سحر و جادو کرانا۔
٭ میری قوت ارادیت کا کمزور ہونا۔
٭ نظراندازی اور بے روزگاری کی وجہ سے مالی طور پر کمزور ہونے کے باعث میں جوں کا توں رہ گیا اور دن بہ دن میرے اندرونی اور بیرونی مسائل الجھنیں مالی‘ ذہنی اور جسمانی کمزوریوں اور پریشانیوں میں بے حد اضافہ ہوگیا اور آج میں بے یارو مددگار ہوں۔
قابل احترام! وہ دوست وہ رشتہ دار وہ گھر والے جن کی میں نے اپنی وسعت کے مطابق ہر مشکل گھڑی میں بدن کا خون تک دے کر مدد کی کیونکہ میں ان کو مشکل میں نہیں دیکھ سکتا تھا پر وہ بھی میرے رتی برابر بھی کام نہ آئے۔
میری طبیعت میں سادگی‘ رحمدلی‘ سچائی‘ اندھا یقین کرنا‘ باطل کو نہ ماننا اور منافقت کے آگے نہ جھکنا ہے۔ شاید اسی سبب آج میں اپنی دھرتی سے بہت دور ہوں۔ آج میں بے گھر ہوں اور اپنی اس زمین سے جہاں میں نے بچپن کے دن گزارے وہاں سے چوبیس گھنٹوں کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی ملازمت کررہا ہوں جس سے میرا گزارا انتہائی مشکل سے ہورہا ہے۔ گزشتہ وقت کی جمع پونجی چمکدار اشتہارات پر اپنے علاج کیلئے خرچ کی جو کہ سونا دے کر مٹی خرید کرنے کے برابر ثابت ہوا۔
کچھ ماں کے علاج کیلئے خرچ ہوا لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا کچھ پیسے کسی واقف کار کو دئیے کوئی اچھا روزگار حاصل کرنے کیلئے لیکن اب تک نہ کوئی پیسے ملے نہ اچھا روزگار! کچھ جادو و سحر ختم کروانے کیلئے سنے سنائے لوگوں تک پہنچا وہاں خرچ کیا۔ لیکن جیسا میرا کل تھا ویسا ہی میرا آج ہے۔ محترم! موجودہ حالات میں ہی میں نے تین مرتبہ خودکشی کی کوشش کی ہے لیکن ایک ماں جیسا مقدس رشتہ زبون اور بیمار حالت میں موجود ہے جس کا خیال آتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا؟؟؟ نہ دین کا رہوں گا نہ دنیا کا۔ لیکن زندگی میں بھی رہنا ذلت‘ خواری اور بے عزتی سے خالی نہیں سمجھتا۔ اس کے علاوہ مسلسل ذہنی دبائو میں رہنے‘ صبح سے رات تک لگاتار کام کرنے اور اچھی خوراک نہ ہونے کے باعث دماغی انفیکشن ہوگیا ہے‘ یادداشت ختم‘ دماغ کو چکر آنا‘ سر میں سخت درد‘ زیادہ کام کرنے سے اعضاءکا سن ہوجانا‘ آنکھوں سے پانی جاری ہوجانا‘ نظر کا ختم ہوجانا کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے اچانک نظر بالکل ختم ہوجاتی ہے اور میری دنیا سیاہ ہوجاتی ہے اس وقت میں اپنے آپ کو بالکل بے بس اور لاچار سمجھتا ہوں اگر کوئی ہاتھ سے پکڑ کر سڑک پار کرواتا ہے تو میں اس کو بجائے انسان کے فرشتہ سمجھتا ہوں لیکن اس کا ساتھ فقط سڑک کے اس پار سے اس پار تک ہوتا ہے۔
اکیلے ہونے کے بعد زاروقطار رونا آجاتا ہے آگے زندگی تک کون میرا ساتھ دیگا۔ محتاجی کی زندگی کیسے بسر ہوگی ابھی زندگی کے فقط ستائیس سال گزرے ہیں۔
کچھ دن پہلے افسر نے کہا کہ میں آپ کو میڈیکل انفٹ قرار دے کر نوکری سے فارغ کروادونگا آپ صحیح کام نہیں کرتے نہ آپ کا دماغ ساتھ دیتا ہے نہ آپ کو کچھ نظر آتا ہے آپ کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں۔
وہ گھڑیاں میرے اوپر قیامت برپا کرنے والی گھڑیاں تھیں جن کا احساس میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا کیونکہ یہ میرا واحد اور محدود ذریعہ معاش ہے۔
ڈاکٹروں کے پاس جاکر علاج کروانے کی وسعت نہیں اگر کوئی دوائی کھا بھی لیتا ہوں تو وہ اثر نہیں کرتی حالانکہ اسی دوائی سے دوسرا مریض صحت یاب ہوجاتا ہے۔
محترم حکیم صاحب! میں اس آزمائش کی گھڑی میں ہوں جس میں مدد کیلئے ہر پیروفقیر‘ ہر طبیب ہر اس ذریعہ تک پہنچا ہوں جہاں قطرے کے چالیسویں حصے جتنی بھی امید نظر آتی ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ انہی جگہوں سے ہزاروں لوگ فیض یاب و شفایاب ہوتے ہوئے میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور ایسے ایسے مرض و مسائل جن کے بنسبت میرا مسئلہ بالکل بے حیثیت ہے اور نہ ہونے کے برابر ہے لیکن مجھے کوئی شفاءنہیں مل رہی۔ میرا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہورہا۔ مانتا ہوں کہ میں گنہگار ہوں‘ اس کی رحمت اس کے پیاروں کے درباروں پر بارش کی طرح برس رہی ہے جو کہ پھول پر بھی برستی ہے اور کانٹے پر بھی! پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں ہر دعا میں خودبخود آنسو آنکھوں سے نکل کر ہاتھوں میں آجاتے ہیں لیکن ان میں نہ زندگی کی خبر نہ موت کی بشارت ہوتی ہے۔
محترم حکیم صاحب! میں ایک ایسی دلدل میں دبا ہوا ہوں جس میں ایک تنکا بھی مجھے زندگی نظر آتا ہے اور اس کا سہارا لیتا ہوں لیکن بعد میں اپنے آپ کو اور نیچے دبتے ہوئے محسوس کرتا ہوں۔جانتا ہو ںمایوسی گناہ ہے لیکن بہت دل برداشتہ ہوچکا ہوں۔
محترم حکیم صاحب! آپ سے ہاتھ جوڑ کر درخواست گزار ہوں کہ زندگی کے اس اندھیرے میں آپ مجھے بھی ایسا کوئی قرآنی وظیفہ دیں جس کے سہارے میں مجبوریوں‘ محرومیوں اور تکلیفوں سے نجات پاسکوں۔ ہوسکتا ہے کہ رب کریم کی طرف سے میرے مرض و مسائل حل کرنے کا سبب آپ ہی ہوں کیونکہ وہ تو مسبب الاسباب ہے۔ تاکہ میں بھی صحت مند‘ خوش و شاداب ہوجائوں‘ برسر روزگار ہوجائوں‘ اپنی ماں کی خدمت کرسکوں اور خداوند باری تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں بھی اپنی دکھی انسانیت کی خدمت کرسکوں۔
محترم حکیم صاحب! ایک مسلمان ہونے کے ناطے پاک کتاب پر پختہ یقین رکھتا ہوں۔ یقینا اس میں حیوانیت و انسانیت کیلئے شفاءہے۔ کوئی ایسا عمل بتائیں جو زندگی میں میرے لیے اندھیروں میں سورج طلوع کرے اور اپنی حکمت و دانشمندی سے میرے لیے کوئی ایسا نسخہ تجویز فرمائیں جو زندگی میں زندہ ہونے کا احساس دوبارہ جنم لے۔ روحانی محفل میں میرے لیے دعا فرمائیں۔
(قارئین الجھی زندگی کا سلگتا خط آپ نے پڑھا ، یقیناآپ دکھی ہو ئے ہو ں گے ۔ پھر آپ خو د ہی جوا ب دیں کہ اس دکھ کا مداوا کیا ہے ؟)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں