جارج واشنگٹن کا علاج کرنے والے طبیبوں نے اپنی حماقت سے اس کی زندگی کو اچانک اور قبل از وقت موت تک پہنچا دیا تھا۔ انہوں نے اپنے عام طریقہ کار کے تحت اس کے جسم سے سارا خون نکال لینے کے بعد بھی زبردست طبی غلط فہمی کے تحت ایک مرتبہ پھر خون نکالنے کا فیصلہ کیا۔
انگلینڈ میں پانی سے علاج کے اداروں راک سائیڈ اور میٹلاک کے بانی جان سمیڈلے کا کہنا ہے پانی سے علاج کا طریقہ اور قواعد کو عوام کے سامنے ایک ایسے بحالی فطرت صحت افزاءنظام کے طور پر پیش کیا گیا جو بیماریاں دور کرتا اور جسم کو نارمل حالت میں لاتا ہے۔ اس کے حامیوں نے جسم کو موزوں حالت پر لانے کی کوشش میں ادویات کے جبری یا خوفناک نظام کو رد کردیا جس کے ساتھ کئی نسلوں تک انسانوں کو اذیتیں دی جاتی رہی ہیں۔
نیویارک کے مشہور آبی معالج جے ڈبلیو ولسن کا کہنا ہے ایک سو پچیس سال پہلے طب کے پیشہ میں نشتر لگانا‘ جلاب دینا‘ قے کروانا اور علاج کے دیگر نقصان دہ طریقے بہت عام تھے۔ بالخصوص میں نشتر لگانا اس قدر عام تھا کہ اپنے وقت کے ممتاز ترین ڈاکٹر بھی اس غلط فہمی میں اپنے نشتر سے زندگی کی ندیاں بہا دیتے تھے کہ وہ مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔
جارج واشنگٹن کا علاج کرنے والے طبیبوں نے اپنی حماقت سے اس کی زندگی کو اچانک اور قبل از وقت موت تک پہنچا دیا تھا۔ انہوں نے اپنے عام طریقہ کار کے تحت اس کے جسم سے سارا خون نکال لینے کے بعد بھی زبردست طبی غلط فہمی کے تحت ایک مرتبہ پھر خون نکالنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً امریکہ کا پہلا عظیم صدر پانچ منٹ میں ہی موت کی نیند سو گیا۔ پانی کی طلب میں پکارتی ہوتی فطرت ہمیشہ کیلئے مردہ ہوگئی۔ جارج واشنگٹن کی آخری التجا تھی ”پانی“ پانی مجھے پانی دو!“ ایک عظیم اور انتہائی مفید زندگی کے خاتمے کی یہ کس قدر خوفناک اور سچی تصویر ہے۔ تاہم اسے موت کی وادی میں زبردستی دھکیل دینے والا جھوٹا طبی نظام اس دور میں ہرجگہ قابل تعظیم تھا۔ اسے سچی سائنس اور بیماریوں کے علاج کا واحد طریقہ سمجھا جاتا تھا۔
فطرت انسانی جس ڈگر پر چل رہی ہے اسے آسانی سے نہیں چھوڑ سکتی۔ عام لوگوں کو ذرا سی بیماری ہونے پر ڈاکٹر کی جانب بھاگنے اور زہریلی ادویات کے محلول پینے کی عادت پڑچکی ہے اور ڈاکٹر کو بھی اس عادت کی وجہ سے خواہ مخواہ پیسے بٹورنے کی لت پڑگئی۔
دور جہالت کے پادریوں کی طرح ڈاکٹر بھی لوگوں میں لاعلمی‘ بزدلی اور اندھی اعتقاد پرستی کو تقویت اور فروغ دیتے ہیں۔ آج ہم میڈیکل کے دور جہالت سے گزررہے ہیں۔
ایک سو سال قبل واقعی عوام اپنا خون نچڑوانے کیلئے طبیب کی جانب بھاگتے تھے اب اگر وہ بیمار پڑجائیں تو انہیں کچھ کھانے کیلئے ڈاکٹر یا ڈرگز کی طلب ہوتی ہے اور جب تک انہیں کوئی زہریلی خوراک پلائی نہ جائے مطمئن نہیں ہوتے۔ وہ اس اندھے یقین میں یہ دوا اندھا دھند اپنے اندر انڈیل لیتے ہیں کہ اس سے بیماری رفع ہوجائے گی۔
راقم الحروف کے پاس ایک غریب ترکھان علاج کیلئے آیا تو اسے بلاقیمت Natrum Mur کے کچھ قطرے دئیے گئے۔ 30 قطرے دن میں دو مرتبہ خالص پانی میں ملا کر پینے کیلئے۔ مریض نے دیکھا کہ بوتل میں موجود شے بے رنگ اور بے بو ہے تو کارک اتار اسے سونگھا اور پھر چکھنے کے بعد بولا ” تم پانی دیتے ہو اس لیے کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔ ایک دفعہ پہلے بھی میں بیمار ہوا تھا تو فلاں فلاں ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے چھ خوراکوں کے بارہ آنے لیے تھے لیکن دوائی بالکل اصلی دی۔ بوتل کھولنے سے پہلے ہی خوشبو اندر دوائی ہونے کا پتہ دیتی تھی۔ لیکن تم نے مجھے کوئی بے رنگ‘ بو اور حتیٰ کہ بے ذائقہ دوائی دے دی ہے۔ چاہے پیسے لے لیتے لیکن رنگ‘ بو اور ذائقے والی کوئی اصلی دوا تو دیتے۔“ تب اس نے میری کوئی بات سنے بغیر دوا پھینکی اور چلا گیا۔
دس سال بعد وہی مریض بڑے پراسرار انداز میں ایک روز میرے پاس بڑی معذرت کے ساتھ علاج کیلئے آیا اور اپنی لاعلمی کو تسلیم کیا اب بھی اسے وہی لیکن زیادہ طاقت والی دوا دی گئی۔ بہت مختصر وقت میں وہ بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اس نے راقم الحروف کا شکریہ ادا کیا اور ایک مرتبہ پھر اسے سابق رویے پر معافی مانگی۔
مشرقی جرمنی کے شہر کیمنٹز سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر بی میسنر کا کہنا ہے طبی مکتبہ فکر کو چاہیے کہ وہ ایسے سادہ ترین علاجوںکو دریافت اور استعمال میں لانا اپنا مقصد بنائیں جو بیماریوں کو دور کرنے کیلئے مناسب ہیں۔ علاج میں ادویات کے استعمال یا آپریشن کرنے پر زور نہیں دینا چاہیے کیونکہ اس سے بہت زیادہ خون ضائع ہوجاتا ہے اب لوگوں کو ادویات اور زہروں سے علاج یا آپریشن کرانے کا کوئی خاص شوق نہیں رہا اب یہ صاف طور پر ثابت ہوچکا ہے کہ علاج کے کم خطرناک طریقے بھی موجود ہیں۔ یہ امر قطعی ہے کہ اب میڈیکل سکولوں میں آبی علاج کا طریقہ بھی پڑھایا جانا چاہیے کیونکہ اس کے اچھے اور حوصلہ مند نتائج ناقابل تردید ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ کسی بھی دوسرے ضروری کام کی طرح اس سے بھی واقفیت پیدا کرے۔
آبی علاج کا طریقہ فطرت کا خادم اور صحت کا وزیر ہے۔ اگر بری ہوا (تہذیب کی بدنصیبی) غیر خالص اور ناقابل ہضم کھانے‘ تھکا دینے والی محنت مشقت‘ عادتوں یا رجحانات نے نظام پر قدرتی اثرات مرتب کیے ہوں تو کامل صحت مندی حاصل کرنے کیلئے پانی سے علاج بہترین طریقہ ہے۔ نشتروں اور زہریلی ادویات سے لیس ڈاکٹر بھی بیماری کے ساتھ مل کر فطری کوششوں کے خلاف مصروف عمل ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 100
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں