باپ نے بیٹے سے یہ واقعہ سنا تو اپنے چھوٹے بیٹے کو بلایا اور بولا زندگی میں ہم سے کوئی نیک کام نہیں ہوسکا اب جائو ٹیکسی کراکے لائو میں کل تک گائوں گائوں جاکر ان کی برادری کا کوئی آدمی تیار نہ ہوا تو پھر تم دونوں کا نکاح ان کی لڑکیوں سے کردوں گا
بڑے بیٹے نے اپنے والد کو آکر بتایا کہ ”غریب مزدور کی دونوں لڑکیوں کے سسرال والوں نے ایک روز قبل بارات لے کر آنے سے منع کردیا۔ شادی کو ابھی دو روز باقی تھے کہ کسی حاسد رشتہ دار نے غریب مزدور کی دونوں لڑکیوں کے سسرال میں جاکر جھوٹ بولا کہ لڑکیاں دوسرے لڑکوں سے شادی کرنا چاہتی ہیں اور ان کی مرضی کے خلاف یہاں شادی کرنے پر خودسوزی کیلئے تیارہیں۔ سسرال والوں نے ایک روز قبل بارات لے کر آنے سے منع کردیا‘ غریب مزدور نے اب رشتہ داروں کو بلالیا تھا‘ شادی کی سب تیاریاں کتنی مشکل سے کی تھیں‘ بے چارہ ہچکیوں سے رو رہا تھا۔
باپ نے بیٹے سے یہ واقعہ سنا تو اپنے چھوٹے بیٹے کو بلایا اور بولا زندگی میں ہم سے کوئی نیک کام نہیں ہوسکا اب جائو ٹیکسی کراکے لائو میں کل تک گائوں گائوں جاکر ان کی برادری کو منائوں گا اور اگرانکی برادری کا کوئی آدمی تیار نہ ہوا تو پھر تم دونوں کا نکاح ان کی لڑکیوں سے کردوں گا‘ بتائو تم دونوں تیار ہو‘ دونوں لڑکوں نے کہا اس کی عزت کیلئے ہم دونوں تیار ہیں‘ غریب بہشتی مزدور کے پاس جاکر اس نے اپنا ارادہ ظاہر کیا اور پورے دن کبھی اس گائوں میں کبھی اس گائوں میں ‘ لوگوں کی خوشامد کرتا‘ رات بارہ بجے ایک بیوہ کے دو جوان بیٹوں کا پتہ لگا‘ جاکر ان کو اٹھایا ان کا گھر بنوانے‘ ان کی شادی کا سارا خرچ خود اٹھانے کا وعدہ کیا‘ دونوں لڑکے بہت نیک اور پڑھے لکھے تھے‘ لڑکیاں بھی قرآن اور بہشتی زیور پڑھی ہوئی اور نیک تھیں‘ پہلے رشتے ان کے جوڑ کے نہیں تھے‘ صبح گیارہ بجے اس مزدور کے گھر پہنچے‘ خوش خوش نکاح اور رخصتی ہوئی یہ سب تگ و دو کرنے والا گائوں کا بہت بدنام سمجھا جانے والا ایک انسان تھا۔ بات بات پر گالیاں دینا‘ دین نماز روزہ سے دور‘ اس کو مسجد کے دروازہ تک لانا لوہے کے چنے چبانا تھا‘ ہر آدمی اس کی سخت مزاجی سے ڈرتا تھا‘ لوگوں کی نگاہ میں یہ بات نہ تھی کہ حکیم وخبیر خالق کائنات نے ایسے بدنام زمانہ انسان کے اندر بھی کیسے کیسے جوہر چھپا رکھے ہیں جو کام گائوں کے بڑے صاحب خیر اور صاحب علم نہ کرسکے اس کو اس گئے گزرے سمجھے جانے والے انسان نے کردکھایا۔
اس حقیر کو بار بار یہ خیال ہوتا ہے اور ایک بار اس سے پیشکش بھی کی تھی کہ زندگی میں جوبھی نیکیاں مجھ سے ہوئی ہیں وہ سب تم لے لو اور اپنا یہ کام مجھے دیدو اس حقیر کا گمان ہے کہ یہ کام اس نے بس ایک غریب پر ترس کھا کر اس کی عزت بچانے کیلئے کیا اس میں نام ونمود کا خیال اس کے فہم کی بات بھی نہ تھی۔ اللہ کو اس کی یہ نیکی ایسی پسند آئی کہ آج وہ پکا نمازی ہے جو تہجد گزار ہے اور شاید ہی اس کی کوئی جماعت چھوٹتی ہو۔ کسی مجبور بے بس کے کام آنا‘ کسی کا عیب چھپانا‘ کسی کی عزت بچانا‘ کسی شکستہ دل کی دل جوئی کرنا‘ بلاشبہ ایسی نیکیاں ہیں کہ قدردان رب کائنات کے بازار میں ان کی کیا قیمت لگ جائے کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں معتکف تھے‘ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا کہ میں تمہیں غمزدہ اور پریشان دیکھ رہا ہوں کیا بات ہے‘ اس نے کہا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے میں اس وقت پریشان ہوں کہ اس کا مجھ پر حق ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس قبر اطہر والے کی عزت کی قسم میں اس حق کے ادا کرنے پر قادر نہیں‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا کیا میں ان سے تیری سفارش کروں‘ انہوں نے عرض کیا جیسا آپ مناسب سمجھیں‘ ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ سن کر جوتا پہن کر مسجد سے باہر تشریف لائے اس شخص نے عرض کیا کہ آپ اپنا اعتکاف بھول گئے‘ فرمایا بھولا نہیں ہوں بلکہ میں نے اس قبراطہر والے صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور ابھی زمانہ کچھ زیادہ نہیں گزرا یہ لفظ کہتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے کہ جو شخص اپنے بھائی کے کسی کام میں چلے پھرے اور کوشش کرے اس کیلئے دس برس کے اعتکاف سے افضل ہے اور جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑ فرمادیتے ہیں جن کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے زیادہ چوڑی ہے۔ کاش اللہ کی رضا کی جستجو میں ہم لوگ کسی کے کام آنے کے مواقع تلاش کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں