(اگرچہ ابتدا میں آپ سخت ذہنی کشمکش سے دوچار ہوں گے، لیکن مقصد کا یقین، منزل کا واضح تصور اور مستقبل کی کامیابی آپ کے راستے کے پتھروں کو ہٹانے کی طاقت بخش دے گی)
ذہنی صلاحیتوں کا استعمال ( نور الحسن شاہ۔ پنڈی بھٹیا ں )
میں اگر چہ علمی زندگی میں قدم رکھ چکا ہو ں ۔تاہم ابھی طلب علم با قی ہے اور مجھے اپنی تعلیمی کمی کا احساس ہے۔ میں نے انٹر پا س کیا ہے۔ مطا لعہ کا فی ہے، لیکن میرے کا م نہیں آتا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ میں نے مطا لعے میں اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا۔ جو کتا ب سامنے آئی پڑھ لی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت کچھ معلو ما ت کے با وجود کچھ معلوم نہیں، کیو ں کہ کسی مضمون میں طاق نہیں ہو ں۔ میں چاہتا ہو ں کہ اپنی ذہینی صلا حیتو ں سے کام لو ں اور کسی مضمون میں کما ل نہیں تو قابلِ ذکر ترقی ضرور کر و ں اور پھر اس کے ما دی فوائد بھی حاصل کر و ں۔ کئی بار ارا دہ کیا کہ اب صرف ایک مضمون تک اپنی ذہنی سفر کو محدود کر لو ں گا یا آگے تعلیم کے لیے امتحان کی تیاری تک اپنی کو ششو ں کو مر تکز کر لو ں۔ لیکن کچھ دن تک اپنے ارا د ے پر قائم رہتا ہو ں پھر خیا لات بہک جا تے ہیں اور اس طرح کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل پا تا۔ آپ میری راہنمائی فرما سکیں تو بے حد ممنو ں ہو گا۔
جوا ب:۔ آپ کا عمل کچھ اس طرح کا معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدمی کبھی ایک جگہ کنوا ں کھودے اور کبھی دوسری جگہ، مگر تھوڑا سا کھو دنے کے بعد بد دل ہو جا ئے یا اس کو دوسری جگہ زیادہ مناسب معلوم ہونے لگے۔ اس طر ح اس کو پو ری زندگی اس بے نتیجہ جان فشانی میں گزر جائے گی۔ اور وہ پورا کنو اں نہ کھو د سکے گا اور خود اپنی پیا س بجھا سکے گا اور نہ دوسروں کو سیرا ب کر سکے گا۔ یہ ایک ذہنی عا دت بن جا تی ہے اس کی وجہ یہ ہو تی ہے کہ ایسا آدمی فیصلہ کرنے کے بعد بھی سو چ بچار جا ری رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب کسی مسئلے پر آدمی سوچتا ہی رہے گا تو نئے نئے پہلو، اچھے اور برے۔ سامنے آتے ہی رہیںگے اور اس کے ارا دے کو متزلزل اور کمزور کر تے رہیں گے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے خوب اچھی طر ح سو چ بچا ر کرے، مشورہ کرے اور پورے عزم کے ساتھ فیصلہ کر کے عمل شروع کردے ۔عمل شرو ع کر نے کے بعد اس مسئلے پر غور و فکر بالکل بند کر دینا چاہیے اور اپنی ساری ذہنی قوتوں کو اس فیصلے کی تکمیل پر لگا دینا چاہئے تا کہ یک سوئی حاصل رہے اورذہنی خلفشار عملی قوتوں کو کمزور نہ کر سکے۔ آپ کے خط سے اندا زہ ہوتاہے کہ آپ ذہین آدمی ہیں اور ذہن سے کام بھی لیتے رہتے ہیں، لیکن ذہا نت کو اگر صحیح طریقے سے کا م میں نہ لایا جائے تو نہ صرف یہ کہ اس سے آدمی کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ الٹا نقصان پہنچتا ہے اور بعض وقت تو یہی ذہانت آدمی کے لیے عذاب بن جا تی ہے۔
ممکن ہے آپ کو اپنے فیصلے پر قائم نہ رہنے دینے والا ایک عمل یہ بھی ہو کہ آپ نے اب تک جو فیصلہ کیا ہو وہ آپ کے رجحان طبع کے مطابق نہ ہو۔ اس لیے میں آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ سب سے پہلے آپ اپنے رجحانات کا صحیح اندا زہ لگائیے۔ رجحان کے مطابق کا م کرکے ہی آدمی اچھے ثمرات حاصل کر سکتا ہے۔ خوب اچھی طر ح جا ئز ہ لے کر اپنے رجحان طبع کو سمجھیںاور پھر اس کے مطابق عملی جدو جہد شروع کیجئے، صحیح سمت میں جدو جہد ہی منزل پر پہنچا تی ہے۔ آپ کے لیے یہی مر حلہ ذرا دشوار ہے کہ بار بار فیصلہ بدلنے کی ذہنی عادت سے چھٹکا را حاصل ہو۔ جب آپ صحیح فیصلہ کر لیں گے تو پھر اس پر قائم رہنے میں آپ کو آسانی ہو جائے گی۔ اگر چہ ابتدا میں آپ سخت ذہنی کش مکش سے دو چار ہو ں گے، لیکن مقصد کا یقین، منزل کا واضح تصور اور مستقبل کی کا میا بی آپ کے را ستے کے پتھروں کو ہٹانے کی طاقت بخش دے گی۔ اپنے فطری رجحان کا صحیح اندازہ کرنے کے بعد آپ ان باتوں پر عمل کیجئے۔
(1) مقصد متعین کیجیے کہ آپ کو کیا بننا ہے اور اس مقصد کولکھ کر رکھ لیجئے۔ اکثر اپنی اس تحریر کو دیکھتے رہیےأ
(2) اس مقصد کے حصو ل کی پہلی سیڑھی کیا ہے، اس کو صحیح طور پر سمجھئے۔
( 3) حصولِ مقصد کے ذرا ئع میں سے بہترین ذریعے کا انتخاب کیجئے۔
(4 ) فیصلہ کرنے کے بعد نہ اپنے ذہن کو تکلیف دیجیے اور نہ دوسرو ں کے مشوروں یا اعترا ضات پر کا ن دھر ئیے
(5) ایسے دوستوں اور ماہرین سے ملیے جو اس مقصد کی تکمیل میں آپ کی مدد کر سکیں اور اپنے تجر بات سے آپ کو فائدہ پہنچا سکیں۔
(6) اپنی تمام ذہنی و عملی قوتیں اس مقصد کے حصو ل میں لگا دیجیے۔ آپ کی ذہنی صلا حیتو ں کا تقا ضہ ہے کہ آپ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بھر پور زندگی گزاریں اور معاشرے کو بھی فا ئدہ پہنچائیں۔
قوتِ ارادی کی کمی ( ن، الف ،اعوان)
مجھ میں قوت ارا دی کی کمی ہے۔ کئی کا مو ں کے شروع کر نے یا پورا کرنے کا ارا دہ کر تا ہو ں، کچھ دن عمل کر تا ہو ں، لیکن کچھ دن بعد ارا دہ بدل جا تاہے۔ دوستوں کے متوجہ کرنے سے اپنی اس کمزوری کا احساس ہوا۔ دور کرنے کا ارادہ بھی کیا، مگر ارا دہ ہی تو کمزور ہے۔
جوا ب : کسی مر ض کے علا ج کا پہلا مر حلہ مر ض کو پہچاننا اور اس کے اسباب کو سمجھنا ہی ہو تاہے۔ آپ کو احساس ہے کہ آپ میں قوت ِ ارا دی کی کمی ہے۔ اس کمی کاعلا ج مشکل توہے، لیکن ناممکن نہیں۔ ارا دہ باندھنا اور پھر بدل دینا ایک عادت سی بن جا تی ہے۔ اسی ذہنی عادت سے چھٹکا را، عا د ا ت کی اصلا ح کے اصول ہی پر کیا جا سکتا، لیکن سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آپ قوت ِ ارا دی کو بڑھانے کے لییمکمل طور پر کوشش کیجیے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ پہلے آپ کسی ایک کا م کی تکمیل کا را دہ کر یں اور اس ارا دہ پر مضبو طی سے قائم رہنے کی کو شش کریں ارا دہ کر نے سے پہلے اس کا م کے اچھے برے پہلو اور فوائد و نقصانا ت اچھی طرح سمجھ لیں۔ ضرورت ہو تو لوگو ںسے مشورہ کر لیں، پھر اس کا م کا ارا دہ کریں۔ لیکن کا م شروع کرنے کے بعد اس کے نتائج کے متعلق سوچنا بند کر دیں۔ سو چ بچار کا سلسلہ آغازِ کا ر کے بعد بھی آپ نے جا ری رکھا تو پھر آپ کا ارا دہ متزلزل ہو جائے گا۔اس طر ح ایک ایک کا م پر ارا دہ کی قوت کو مضبوط رکھیے، ہر کا م کو خوب سو چ سمجھ کر شروع کیجیے۔ بار بار ارا دہ کر کے توڑنے میں جو وقت ضائع ہو تاہے اور نا کامی کا احساس ذہن کو جو نقصان پہنچا تا ہے ،ساس سے بہتر ہے کہ آپ فیصلہ کرنے میں وقت لے لیں اور صحیح فیصلہ کر کے ارا دہ پر قائم رہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں