درحقیقت رمضان المبارک اللہ رب العزت کی جانب سے ایک بہت بڑا انعام ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انعام کی قدر کی جائے تب ہی اس کی اصل روح کو سمجھا اور پایا جاسکتا ہے۔ اس ماہ مبارک کے کچھ آداب اور کچھ خصوصیات ہیں۔ یہ صبر کا مہینہ ہے یعنی روزہ میں کچھ تکلیف یا دشواری ہو تو اسے ذوق و شوق سے برداشت کرنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ مزاج سے درشتگی ظاہر ہو یہ رویہ نہ صرف روزے دار کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اردگرد کے ماحول خصوصاً بچوں پر بھی اس کا منفی اثر پڑتا ہے وہ اگر شروع ہی سے سمجھ بیٹھے کہ روزہ کوئی بے حد دشوار مشکل اور مشتعل کرنے والی چیز ہے تو بھلا وہ کس طرح آگے چل کر اس نعمت کی قدردانی اور حق ادا کرپائیں گے۔
مسلمانوں کی شان یہ ہونی چاہیے کہ روزے میں تمام اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کریں اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ نیز یہ مہینہ غم خواری کا مہینہ ہے یعنی غرباءاور مساکین کے ساتھ نیک برتائو کرنے کا بسا اوقات اللہ جل شانہ کی نعمتوں کی فراوانی انسان کو تفاخر میں مبتلا کردینے کا باعث ہوتی ہے۔ ضرورت مندوں‘ محتاجوں اور پریشان حالوں کی دلجوئی‘ مدد اور خبر گیری ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم سے کہیں زیادہ مہذب‘ صابر‘ نیک طینت اور دانا افراد بھی بظاہر بہت سی دنیاوی نعمتوں سے محروم نظر آتے ہیں اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جو نعمتیں ہمیں حاصل ہیں وہ باری تعالیٰ کا احسان ہیں نہ کہ ہمارا حق اور میراث یہاں شکرگزاری کا ایسا پہلو سامنے آتا ہے جس سے عموماً ہم پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔
روزے کے آداب میں ایک اور خاص احتیاط لازم ہے اور وہ یہ کہ روزہ رکھنا محض دن بھر بھوکا رہنے کا نام نہیں بلکہ اپنی زبان اپنے ہاتھ‘ اور کان یعنی وہ تمام اعضاءجو ہمارے اختیار میں دئیے گئے ہیں ان کو چھوٹی بڑی ہر برائی سے روکے رکھنا یعنی زبان سے سخت بات کہنا‘ غیبت کرنا یا سننا‘ کسی بھی جاندار کو بلاوجہ اذیت دینا‘ تشدد وغیرہ کرنا اور اس طرح کے دیگر کاموں سے روزے میں جس قدر ممکن ہوسکے اجتناب برتنا ضروری ہے۔
روزے کی حالت میں فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کے ذکر اور تلاوت قرآن پاک کے ساتھ ہی قرآن پاک سننے کا بھی اہتمام ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن پاک رمضان المبارک میں لوح محفوظ سے آسمانی دنیا پر اتارا گیا وہاں سے حسب موقع تھوڑا تھوڑا 23 سال کے عرصہ میں نازل ہوا۔ اس کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے اسی ماہ مبارک میں عطا ہوئے‘ حضرت داوئود علیہ السلام کو زبور‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انجیل بھی اسی ماہ مبارک میں عطا ہوئیں۔ یہاں چار مزید چیزوں کی جانب خصوصی توجہ درکار ہے۔کلمہ طیبہ‘ استغفار‘جنت کے حصول کی دعا اور دوزخ سے بچنے کی دعا۔ لہٰذا جتنا بھی ممکن ہوسکے یہ سعادت حاصل کی جائے اور اس میں کوئی دقت بھی نہیں ہے۔ ہم اپنے دینوی امور میں مشغول رہتے ہوئے زبان سے کلمہ طیبہ کا ورد‘ توبہ استغفار اور جہنم سے نجات اور جنت کے حصول کیلئے دعا کرتے رہیں تو اس کیلئے خصوصی وقت مختص کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
حاصل کلام یہ کہ رمضان المبارک محض سحر وافطار اور عید کی تیاریوں میں مصروف رہنے کا نام نہیں بلکہ ایک مربوط تربیتی پروگرام بھی ہے۔ جس میں پورے خشوع وخضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ فرائض اور حقوق العباد کی ادائیگی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے اتباع کی کوشش کرنی چاہیے۔
عموماً بہت سے گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ رمضان المبارک میں معمولات کے اوقات کی تبدیلی سے لوگ پریشان نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی آپ سے یہی کہیں گے کہ اگر ہم رمضان المبارک کو محض معمولات کے اوقات میں تبدیلی اور مصروفیات میں اضافہ کے طور پر لیں گے تو یقینا پریشان ہوں گے اور اگر ہم ان فیوض و برکات پر نظر ڈالیں جو کہ اللہ رب العزت ہمیں اس ماہ مقدس میں عنایت فرماتے ہیں اور وہ تربیتی ماحول جو عالم اسلام کا امتیاز ہے ہمیں حاصل ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں سونے‘ جاگنے اور کھانے پینے کے اوقات میں تھوڑی سی تبدیلی اور اس ماہ مبارکہ سے متعلق دیگر مصروفیات ہمیں ایک بہت بڑی سعادت محسوس ہوں گی جو کہ ایک مسلم حقیقت بھی ہے تو آئیے پھر جذبہ ایمانی کے ساتھ اس بابرکت مہینہ کا خیرمقدم کریں اور اس کے فضائل کی قدر کریں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 395
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں