Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بچوں کو شکست قبول کرنا بھی سکھائیں

ماہنامہ عبقری - نومبر 2012

بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر…
شکست قبول کرنے کو آسان بنائیں
جس طرح کامیابی و کامرانی ہماری زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح زندگی کے کسی موڑ پر ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پاتے اور فطری طور پر اس بات کا ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی کامیابیوں کو تو اکثر بھول جاتے ہیں لیکن ناکامیاں ان کے اعصاب پر سوار رہتی ہیں۔ خاص طور پر بچے چونکہ ناپختہ ذہن کے مالک ہوتے ہیں وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے اپنی شکست یا ناکامی کو قبول کرنا انتہائی دشوار گزار ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض بچے اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں ایسا فیصلہ بھی کر لیتے ہیں جس سے ان کی زندگی یا پورا مستقبل ہی دائو پر لگ جاتا ہے لہٰذا بچوں کو زندگی میں کامیابیوں کی راہ پر گامزن رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ انہیں ہار، ناکامی یاشکست سے نبرد آزما ہونے اور اس ناکامی کو مثبت رخ دینا سکھایا جائے۔ جو بچے شکست سے لڑنا سیکھ لیتے ہیں یا ناکامی کی صورت میں مایوس نہیں ہوتے، اس بات کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کہ وہ زندگی کو زیادہ بہادری سے جینا سیکھ جائیں گے۔ یہ صلاحیت بچوں کے کام آتی ہے اور انہیں کامیابیوں کی ڈگر سے پیچھے نہیں ہٹنے دیتی۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بچوں کو مایوس کن حالات سے کس طرح باہر نکالا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو والدین کو اپنے رویوں کا جائزہ لینا ہے، یہ بہت ضروری ہے کہ بچے کی ناکامی یا مایوسی کی صورت میں والدین کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ بچوں کی تقریب میں بیٹھے ہیں جہاں اچھی کارکردگی دکھانے والے بچوں میں انعامات تقسیم کیے جا رہے ہیں انہیں ایوارڈ دیئے جا رہے ہیں اس دوران آپ کے بڑے بچے کا نام پکارا جاتا ہے اور اسے بہترین کارکردگی پر ایوارڈ دیا جاتا ہے چھوٹا بیٹا بھی اس دوران آپ کے ساتھ بیٹھا ہے لیکن تقریب ختم ہو جاتی ہے اور اس کا نام نہیں پکارا جاتا ایسے ماحول میں جب ہر طرف بچے خوشی سے ناچ رہے ہوں آپ کے چھوٹے بچے کاپریشان ہونا فطری ہو گا۔ اس قسم کے حالات میں اب آپ کیا کریں گے ہو سکتا ہے کہ آپ بھی ایسی ماں ہوں یا باپ ہوں جو اس موقع پر اپنے بچے کو ساتھ لپٹا لیںگے اور کچھ یوں کہیں گے ’’ارے بیٹا اداس یا مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، ان انعامات یا ایوارڈ کی حیثیت ہی کیا ہے‘‘ اگر تو آپ نے اس طرح کہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے بچے سے اظہار محبت کا جو طریقہ اختیار کیا ہے یا بچے کی ڈھارس بندھانے کا جو انداز آپ نے اپنایا ہے وہ درست نہیں ایک دل شکستہ اور مایوس بچے سے یہ کہنا کہ ان انعامات یا ایوارڈز کی کوئی حیثیت نہیں ایک بے معنی سی بات ہے بچہ اتنا سمجھ دار ضرور ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی خوشیوں کو دیکھ کر اندازہ لگا سکے کہ ان ایوارڈز کی حیثیت کیا ہے بچے کو اس طرح سمجھانا کہ بات حقائق کے منافی ہو بچے کی صحیح سمت میں رہنمائی نہیں کر سکتا نہ ہی آپ کا یہ طرز عمل بچے کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟:ماہرین کا کہنا ہے کہ شکست سے دوچار بچوں کو حقائق سے ہٹ کر باتوں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش نہ کیا کریں بلکہ اسے سکھانے کے لیے بالکل مختلف طریقہ کار اختیار کرنا زیادہ بہتر نتائج سامنے لاتا ہے۔ یعنی اس قسم کے مایوس کن حالات میں بچے کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔ وقت بدلتا رہتا ہے، ضروری نہیں کہ اس سال کلاس میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرنے والا اگلے سال بھی یہی پوزیشن حاصل کرے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کو یہ بتانا کہ حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے بچے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ بچے اس بات کا شعور نہیں رکھتے کہ خراب اور مایوس کن حالات کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے۔ کھیل، تقریری مقابلے، دوست کی ناراضگی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ حالات ایسے ہی رہیں گے لیکن بچوں کے محسوسات کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں وہ بہت جلد منفی خیالات کی زد میں آ جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ حالات شاید ایسے ہی رہیں گے اور یہ ناکامی انہیں ختم کر دے گی۔
بچوں کا حوصلہ بڑھائیں:بچوں میں اس قسم کے منفی خیالات ان کے حوصلے بالکل پست کر دیتے ہیں۔ بچے کو ناکامی کی صورت میں بتایا جائے کہ اگر تم آج ناکام رہے ہو تو کل کامیاب بھی ہو سکتے ہو۔ اس بار اگر تمہارے نمبر کم آئے ہیں تو اگلی بار بہت اچھے بھی آ سکتے ہیں لیکن لازمی سی بات ہے اس کے لیے تمہیں محنت کرنا ہو گی اپنا شیڈول تبدیل کرنا ہو گا پڑھائی کو زیادہ اور کوالٹی ٹائم دینا ہو گا تم اگر آج اپنے دوست سے لڑ پڑے ہو تو کل کو تمہاری دوستی ہو جائے گی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں تو زندگی میں ہوتی رہتی ہیں۔ مایوس کن حالات میں والدین کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ بچوں کو امید دلائیں۔ ان میں حوصلہ پیدا کریں اور انہیں آگے بڑھنے اور حالات میں جلد بہتری کی یقین دہانی کرائیں۔
ایک ماں کا تجربہ:بچے کسی بھی بات پر مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہیں چھوٹی چھوٹی باتیں رنجیدہ کر دیتی ہیں ایک ماں نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بچی نے ایک خوبصورت تصویر بنائی۔ اس میں تمام رنگ ایک خاص ترتیب سے بھرے۔ ماں کا کہنا تھا کہ اسے یقین تھا کہ اس کی ٹیچر اس کی تعریف ضرور کرے گی لیکن جب بچی اسکول سے واپس آئی تو اس کا منہ اترا ہوا تھا۔ اس نے شکایت کی کہ ٹیچر نے تصویر کی تعریف نہیں کی حالانکہ اس کی تین چار دوستوں نے تصویر کو بہت پسند کیا۔ ماں کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ بات میرے لیے بھی تعجب کا باعث تھی لیکن میں نے اپنی بیٹی کو کچھ اس طرح سمجھایا کہ بیٹے صرف ایک شخص کے تعریف نہ کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تصویر اچھی نہیں ہے۔ اور اگر ٹیچر نے تعریف نہیں کی تو اس کی اپنی مہارت کم تو نہیں ہو گی۔ ماں کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی کے چہرے سے ملال جاتا رہا اور ایک ماہ بعد جب اسکول میں تصاویر کا مقابلہ ہوا تو اس کی بچی نے دوسرا انعام حاصل کیا۔
یہ بہت ضروری بات ہے کہ آپ عمل کی طاقت سے مایوسی کاخاتمہ کریں۔ جب بچہ آپ کی جانب سے بہتر رہنمائی سے عمل پر آمادہ ہوتا ہے تو وہ اپنی آئندہ کامیابی کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچوں میں پیدا ہونے والا یہ جذبہ زندگی بھر ان کا ساتھ دیتا ہے۔ عام زندگی میں جب بھی بچہ کسی مسئلے یا الجھن کا شکار ہوتا ہے تو والدین اس کی فوری مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کو خود کام کرنے کا موقع دیں۔ اسے اعتماد اسی صورت میں ملے گا جب وہ اپنے ہاتھ سے کام انجام دے گا۔ بچے کی رہنمائی ہی کافی ہوتی ہے لیکن قلم اپنے ہاتھ میں لے لینا بچے کے سیکھنے کے عمل کو محدود کر دینے والی بات ہو گی۔ ایسے بچے جن کے والدین ذرا ذرا سا کام خود کرتے ہیں بچوں کو عمر بھر والدین پر انحصار کا عادی بنا دیتے ہیں۔ ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے۔ اس طرح اس بات کے امکانات کم ہوں گے کہ بچہ اپنی عملی زندگی میں زیادہ اعتماد اور کامیابی سے آگے بڑھ سکے۔
جو کام بچے کا ہے اسے خود کرنے دیں۔ اس سے بچے کے اندر صلاحیتیں جلاپاتی ہیں۔ اس میں اعتماد آتا ہے اور وہ زیادہ فعال زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔
یہ بات بھی سب والدین کے علم میں ہونی چاہیے کہ کس موقع پر اور مرحلے پر ان کی مداخلت ضروری ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ والدین حالات کو سامنے رکھتے ہوئے زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ کیونکہ بعض اوقات بچہ ہر مسئلہ خود حل نہیں کر پاتا اور نہ ہی صرف راہنمائی سے کام چلتا ہے بس یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب والدین کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے اسکول میں نامناسب بچوں سے دوستی بھی ایک ایسی ہی صورت ہے اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے بچے کے دوستوں کا حلقہ صحیح نہیں تو آپ کی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔ بچہ اس عمر میں وہ شعور نہیں رکھتا جس سے وہ پرکھ سکے کہ کس بچے کی دوستی اس کے لیے زیادہ ضروری ہے۔ والدین کو اس معاملے میں انہیں ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ عام طور پر اچھے والدین اپنے بچوں کے دوستوں سے واقف ہوتے ہیں۔ بچوں کو اچھے حلقے میں شامل دیکھنا والدین کی خواہش ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے کو ایسا ماحول فراہم کیا جانا چاہیے کہ وہ اپنی بات آسانی سے کہہ سکے۔ والدین اور بچوں کے درمیان اتنی ہم آہنگی ہونی چاہیے کہ انہیں یہ نہ لگے کہ والدین کوئی جبر کر رہے ہیں۔ اکثر والدین بچے کے ساتھ بچہ بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو یوں کرتا۔ یہ طریقہ بہت مناسب رہتا ہے۔
بچوں کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا۔ انہیں نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے ان پر کچھ پابندیاں لگانا پڑتی ہیں۔ کچھ اصول طے کرنے ہوتے ہیں تاکہ ان کا سفر بہتر مستقبل کی طرف جاری رہے۔ طے شدہ پابندیاں بچے میں اطاعت کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ ان میں اصول پسندی، خود انحصاری اور معاشرتی و سماجی اصولوں کی پاس داری کے جذات پروان چڑھتے ہیں جبکہ زبردستی یا جبر کا ماحول بچے کو باغیانہ طرز زندگی کی طرف مائل کرتا ہے اس میں سرکشی کے جذبات ابھرنے لگتے ہیں اور جیسے جیسے وہ جسمانی طور پر مضبوط ہوتا جاتا ہے اس میں منفی خیالات بھی اسی اعتبار سے زیادہ ہونے لگتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ رہنمائی اور روک ٹوک بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ بچے ذہنی طور پر ہراساں ہو جاتے ہیں جبکہ ہر بات میں رہنمائی بچے کو مشکلات سے خود لڑنے کے احساس سے بے گانہ کر دیتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو بہتر مستقبل کی طرف کامیابی سے گامزن کرنے کے لیے انہیں چھوٹے چھوٹے کاموں کی عادت ڈالیں ان کے ذمہ کچھ چیزیں لگائیں۔ مثلاً اگر بچہ خود جوتا پالش کر سکتا ہے تو اسے کہیں کہ وہ اپنا جوتا پالش کر کے رکھا کرے۔ کھانے کے اہتمام میں بچے کے پاس وقت ہے تو ماں کا ہاتھ بٹائے۔ بچوں میں کام کی عادت ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہے جس سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ زیادہ فعال زندگی گزارتے ہیں۔
بچوں کے اندر فطری طور پر اپنی تعریف سننے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ تعریف سے وہ خوش ہوتے ہیں اور ان کا حوصلہ بڑھتا ہے ہر بچہ اپنی خامیوں سے واقف ہو کر انہیں دور کر سکتا ہے اور اپنی خوبیوں کو اپنی کامیابی کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے۔ آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ بچہ کسی موڑ پر ہمت نہ ہارے وہ دل شکستہ اور مایوس نہ ہو اور اس میں کسی قسم کا احساس کمتری پیدا نہ ہونے پائے اور اگر خدانخواستہ آپ دیکھتے ہیں کہ زندگی میں ایسی صورت آن پڑی ہے تو پھر آپ کی دانائی کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ والدین کی حیثیت سے یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے بچے کو ہر قسم کے حالات کے لیے تیار کریں۔ 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 318 reviews.