Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جادوگر تھا…یا…اللہ کا فضل تھا

ماہنامہ عبقری - جنوری 2013

جادوگر تھا…یا…اللہ کا فضل تھا
(نصیراحمد‘ ایبٹ آباد)
اوائل عمر میں اکثر اپنے گھروں سے و دیگر محلہ داروں سے یہ سننے میں آتا تھا کہ فلاں گاؤںمیں بہت بڑا جادو گر ہے جس مقصد کیلئے اس کے پاس جاؤ منٹوں میں کام ہوجاتا ہے۔ جادوگر کا گھر ایک پہاڑی علاقہ کے ایک گاؤں میں تھا جو ہم سے کافی دور تھا لوگوں کی باتیں سن سن کر دل میں اس کے پاس جانے کا شوق پیدا ہوتا مگر ہمارے گھر سے یہ بھی سننے میں آتا کہ جادو کرانے والا اور کرنے والا دونوں کافر ہیں۔ یہ بات سارے شوق پر پانی پھیردیتی۔ جادوگر کا نام عبدالمجید تھا۔ دور پار سے کوئی رشتہ داری بھی تھی جب بھی کوئی واقعہ پیش آتا فوراً دل میں اس کے پاس جانے کا خیال آتا مگر نہ جاسکا۔
جادوگر سے اچانک ملاقات:تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ملازمت مل گئی۔ پانچ چھ سال ہوگئے تھے ایک دن میں روز مرہ معمول کے مطابق اپنا کام کررہا تھا کہ ایک شخص نے دفتروالوں سے میرا نام پوچھا اور کہا کہ اس کو ملنا ہے چپڑاسی میرے پاس لے آیا۔ میں اچھے طریقہ سے اس کو ملا‘ کرسی پر بیٹھنے کو کہا چہرہ پر نظرڈالی اور غور کیا زندگی میں کبھی ملاقات ہوئی یاد نہ آئی۔ بہت ہی صحت مند اور چاق و چوبند شخصیت تھی۔ سر پر حاجیوں کی طرح رومال لپٹا تھا میں سوال کرنے والا ہی تھا مگر اس نے پہل کردی مجھ سے پوچھا کہ مجھے پہچانتے ہو۔ میں نے جواب دیا نہیں؟ میں نے کبھی آپ کو نہیں دیکھا۔ اس نے کہا کہ یہ بات تو ٹھیک ہے میں نے بھی تمہیں نہیں دیکھا تھا۔ میرا نام عبدالمجید ہے اور میں فلاں گاؤں کا رہنے والا ہوں اب پہچانا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں… پھر کہنے لگا کہ میں تو مشہور آدمی ہوں‘ مجھے بچہ بچہ جانتا ہے‘ میرے نام سے ہر ایک واقف ہے تم کس طرح مجھے نہیں پہچانتے‘ میں نے کہا کہ جناب لوگ پہچانتے ہوں گے میںلاعلم ہوں یہ بات سن کر فوراً بولا تم نے کبھی جادوگر کا نہیں سنا۔ میں نے کہا کہ جی واقعی سنا ہے کہ فلاں گاؤں میں ایک زبردست جادوگر رہتا ہے کہنے لگا کہ میں وہی ہوں۔ مجھے نام سے کم اور جادوگر سے زیادہ لوگ پہچانتے ہیں۔ میں بڑا خوش ہوا اور ہنسا اور ہنستے ہوئے پوچھا کہ آپ خود اپنے آپ کو جادوگر کے نام سے تعارف کراتے ہیں کیا واقعی آپ جادوگر ہیں۔ کہنے لگا کہ اس میں کیا شک ہے کوئی کام ہے تو بتاؤکرکے دکھاؤں گا۔ تم پہلے یہ میرا کام کردو پھر جو کہو گے وہی ہوگا۔ کام کیا تھا‘ چار پانچ اسلحہ لائسنس ڈاک خانہ میں درج کرانے تھے‘ ڈاک خانے کا وقت برائے اندراج لائسنس ختم ہوگیا تھا۔ میں نے لائسنس لیے اور ڈاک خانہ گیا۔ بابو صاحب جو ایک بہت ہی شریف اورپرہیز گار آدمی تھے۔ ان کو میں نے لائسنس درج کرنے کا کہا۔ انہوں نے مہربانی فرماتے ہوئے فوراً رجسٹر کھولا اور لائسنس درج کرکے مجھے دے دئیے۔ میں خوشی خوشی دوڑتا ہوا واپس آیا اور جادوگرصاحب کو لائسنس دے دئیے۔ ان کیلئے چائے بھی منگوائی وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ تمہارا کام کرنا ہے میں نے کہا کہ جناب دفتر میں کیا بتاؤں آپ کو میں آج جانے نہیں دوں گا۔ آج آپ میرے مہمان ہیں وہ بمشکل راضی ہوئے‘ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ جادوگر خود بخودمیرے پاس حاضر ہوگیا ہے ا ور میرے بچپن کا شوق پورا ہوا۔ میں نے چھٹی کی اور جادوگر کو لے کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
یہ کیسا جادوگر ہے؟؟؟: جب گھر پہنچے‘ کھانا تیار تھا‘ کھانا کھایا‘ پھرقہوہ پیا‘ جادوگر صاحب بولے کہ لوٹے میں پانی دے اور نماز پڑھنے کیلئے جائے نماز دے دو‘ میں حیران ہوا… اور حیرانگی سے پوچھا کہ آپ نماز بھی پڑھتے ہیں؟ جادوگر تو سنا ہے کہ وہ نماز وغیرہ نہیں پڑھا کرتے۔ آپ کیسے جادوگر ہیں…؟؟؟ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ وہ جادوگر کچے ہیں میں پکا ’’جادوگر‘‘ ہوں۔ میں نماز بھی پڑھتا ہوں‘ قرآن مجید کی تلاوت بھی کرتا ہوں باقی باتیں نماز پڑھ کر کروں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ جادوگرصاحب نے وضو ہماری طرح کیا اور پھر نماز بھی بڑے اچھے طریقہ سے ادا کی بعد میں ورد وظیفہ کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگی ‘ میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی یہ کیسا جادوگر ہے‘ جو سب کچھ کرتا ہے۔ جب عبادت سے فارغ ہوئے بستر پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ تم نے کبھی ایسا جادوگر دیکھا ہے جو اپنے مالک کو بھی یاد کرتا ہو اور جادو بھی کرتا ہو اگر دیکھا نہیں تو سنا تو ہوگا۔ میں نے جواب دیا کہ میں نے زندگی میں کسی جادوگر کو دیکھا ہی نہیں… آپ کو دیکھنے کا شوق تھا جو آج پورا ہوا۔ سنا یہی ہے کہ جادوگر کافر ہوتے ہیں…!!! الٹے کام کرتے ہیں‘ دین کے خلاف ان کے سارے کام ہوتے ہیں۔ آپ مجھے سچ سچ بتائیں کہ آپ کیسے جادوگر ہیں…؟؟؟ وہ بار بار کہتے رہے کہ ان باتوں کو نہ چھیڑو۔ میرے مجبور کرنے پر جادوگرصاحب نے کہا سنو میں کیسا جادوگر ہوں…!!! میں نے جادو کس طرح حاصل کیا۔
جادوگر کی کہانی اُسی کی زبانی:کہنے لگے کہ میں جب پانچ سال کا تھا میری والدہ اور والد کچھ ماہ کے وقفے سے وفات پاگئے میرا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کو پالنے کیلئے خالہ لے گئی تھی۔ مجھے ایک رشتہ دار نے میرےشہر سے دور ایک یتیم خانہ میں لاکر چھوڑ دیا۔ جہاں میں تعلیم حاصل کرنے لگا اور کھانے کیلئے لوگوں کے گھروں سے وظیفے بھی مانگتا۔ کافی لڑکے میری طرح تھے‘ میں سب سے جسم کے لحاظ سے توانا تھا۔ خوب پڑھتے اور دوسروں کے ساتھ گھر گھر جاکر آواز لگاتے‘ وظیفہ دے دو۔ بعض گھروں سے بڑی بہترین ترکاری بھی دی جاتی جو ہم وہیں باہر بیٹھ کر کھالیتے۔ چند ماہ گزرنے پر مجھے لوگ پہچان گئے۔ ایک بڑا مخیر امیر گھرانہ تھا۔ وہ اکثر مرغ وغیرہ یا چھوٹے گوشت کی ترکاری پلیٹ میں رکھ کر ساتھ روٹی بھی رکھ کر کھانے کاکہتے۔ ہم دو تین لڑکے باہر گلی میں بیٹھ کر کھا کر آجاتے‘ باپردہ گھر تھا۔ ایک چھوٹی بچی جو اس گھر میں کام کرتی تھی‘ہمارے لیے روزانہ آواز لگانے پر ٹرے میں روٹی لاتی‘ کھانا ایسا ہوتا کہ جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے بس ایک عادت پڑگئی‘ جو بچی ہمارے لیے کھانا لاتی تھی وہ پانی بھی پوچھ کر لاتی۔ ہماری خاطر و مدارت کرتی‘ قدرتی طور پر مجھے اس لڑکی سے انسیت ہوگئی اور وہ بھی مجھے بڑی ہمدردانہ نظروں سے دیکھتی‘ وہ بچی بھی جوان ہوگئی‘ لیکن کھانا وہی ہمارے لے کرآتی‘ وہ کافی دیر ہمارے پاس بیٹھی رہتی‘ پوچھتی اور کچھ کھانا ہے؟ کئی دفعہ فروٹ وغیرہ بھی لاکر کھلائے‘ گلی میں بٹھانے کی بجائے بیٹھک میں بٹھا کر تواضع کی جاتی‘ گھر کا کوئی فرد ہم نے نہ دیکھا تھا اور نہ آواز سنی تھی‘ ایک دن اس نے کہا کہ دوپہر کا کھانا تم ادھر سے کھالیتے ہو تو شام کا کہاں سے کھاتے ہو؟ میں نے کہا کہ دوسرے محلہ میں شام کو چکر لگانا پڑتا ہے اس نے کہا کہ نہیں اُدھر مت جاؤ ادھر ہی آیا کرو۔ میں نے خدا کا شکر کیا‘ عادت بھی ایسی ہوگئی تھی کہ بغیر یہاں آئے چین نہیں آتا تھا۔
چاند اور بیکار پتھر کی شادی: شام کو میں اکیلا ہی آتا اور کھانا بھی کھاتا‘ اور ایک دوسرے سے کلام بھی ہوجاتا‘ ایک دن وہ بولی کہ مجھے تمہاری شرافت سے محبت ہوگئی ہے‘ میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں‘ اپنی ماںکو بھیجو کہ رشتہ مانگے‘ میں نے کہا کہ میرے ماں باپ تو بچپن میں وفات پاگئے ہیں میرا ایک چھوٹا بھائی تھا وہ بھی نامعلوم کس حال میں ہوگا۔ جب سے یتیم خانہ آیا ہوں پھر لوٹ کر گاؤں نہیں گیا۔ یتیم… بے کس… طالب علم ہوں۔ آپ اتنی امیر گھرانے کی ملازمہ ہیں اور خوبصورت ہیں… اور تعلیم یافتہ بھی ہیں… میرے ساتھ کیسے شادی کریں گی…؟؟؟ یہ کبھی نہیں ہوسکتا… میں اس قابل کہاں…!!! آپ چاند کی مانند ہیں اور میں ایک بیکار پتھر کی طرح ہوں جو راستے میں ہی پڑا رہتا ہے اور گزرنے والا ٹھوکر کھاتا ہے اللہ آپ کو اچھا اور خوبصورت اور آپ کی طرح مخلص خاوند نصیب کرے۔ میرے ساتھ کوئی مانگنے والی عورت بھی شادی نہیں کرتی‘ نہ گھر ہے نہ اور کوئی ذریعہ معاش ہے۔ یہ شادی بہت مشکل ہے۔ اس نے میری بات نہ سنی روزانہ ہماری اسی موضوع پر گفتگو ہوتی‘ روزانہ طرح طرح کی سکیمیں سوچتے‘ کوئی حل نہ نکلتا ناسمجھی کی عمر تھی کوئی اپنابھی نہ تھا جس سے پوچھتا۔ لڑکی روزانہ پوچھتی میرا جواب نہ ہی ہوتا۔ میں اسے کہتا کہ اگر ان باتوں کا علم تمہارے گھر والوں کو ہوگیا وہ مجھے تو تجھے جان سے ماردیں گے۔ وہ مجھے جواب دیتی کہ تمہاری خاطر سب کچھ برداشت کرلوں گی‘ یونہی وقت گزرتا رہا۔۔۔ ایک رات ہم نے سکیم بنائی اور رات کے اندھیرے میں دونوں گھر سے بھاگ گئے اور پیدل چلتے چلتے بھوکے پیاسے اپنے گاؤں پہنچ گئے‘ کوئی انسان مجھے نہ پہچان سکا‘ اپنا گھر دیکھا چھت درمیان سے گری ہوئی تھی اور اندر سوائے ایک چارپائی کے جو چمڑے سے بُنی ہوئی تھی موجود تھی‘ اس کے اوپر بھی چھت کی مٹی کا ڈھیر تھا‘ وہ ہٹایا اور پڑوسی لوگوں کو بتایا کہ میں فلاں شخص ہوں‘ آج واپس آیا ہوں‘ انہوں نے رات کو روٹی وغیرہ کھلائی۔ دوسرے دن لوگوں سے مل کر چھت وغیرہ بھی ٹھیک کی اور ادھر ادھر سے مدد مانگ کر گھر آباد کیا۔ نکاح پڑھوایا اور رہنے سہنے لگے۔ میں اپنی بیوی سے کہتا کہ کتنے اچھے تمہارے مالک اور رہن سہن تھا تم نے بادشاہی سے گداگری کیوں قبول کی؟ وہ تعلیم یافتہ تھی کہنے لگی کہ اللہ پر بھروسہ رکھو جس نے پیدا کیا ہے جو ہوگا اسی کے حکم سے ہوگا‘ اللہ اگر وہاں اچھا رزق دیتا تھا تو یہاں بھی دیگا۔ ایک ماہ بعد مجھے مزدوری مل گئی‘ ایک جگہ سڑک بن رہی تھی وہاں پتھر اٹھانے کا کام ملا اور یوں گھر کا خرچہ پورا ہونے لگا۔
مجذوب سے ملاقات:ماہ رمضان تھا میں روزہ رکھ کر جب گھر سے نکلا تو راستے میں دور سے مجھے ایک آدمی نظر آیا‘ اس کے جسم پر کوئی کپڑا نہ تھا‘ صرف ایک جانگیہ پہنے ہوئے تھا‘ میں نے اس کو حقارت سے دیکھامگر جیسے ہی وہ میرے قریب آیا مجھے محسوس ہوا کہ میرے جسم سے طاقت نکل چکی ہے‘ مجھ پر اس کا رعب طاری ہوگیا‘ میرے پاؤں لرز رہے تھے‘ دل میں خیال آیا کہ یہ کوئی فقیر ہے اور اس کو آزمانا چاہیے فقیر نے مجھ پر نظر کرکے نگاہیں نیچی کرلیں اور راستے کو دیکھ دیکھ کر چل رہا تھا میں راستے سے ایک طرف ہوگیا وہ چپ چاپ میرے قریب سے گزر گیا میں نے آزمائش کیلئے درودشریف اس کی پیٹھ کے پیچھے پڑھنا شروع کردیا فقیر ایک دم پیچھے مڑ کر میری طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا آزمائشیں کرتے ہو پھر چل پڑا۔ میں پیچھے دوڑ کر اس کے نزدیک گیا کہ اس سے دعا کراؤں۔ میں جوں ہی قریب پہنچا بڑے غصے سے فرمایا جاؤ کام پر جاؤ۔ ایک سال بعد ملاقات ہوگی۔ یہ سن کر میں بڑا مایوس ہوا اور کام پرچلا گیا۔ سارا دن بدنصیبی پر روتا رہا رات کو جب اپنی بیوی کو سارا واقعہ بتایا اس کو بھی بہت دکھ ہوا۔ زندگی کے دن گزرتے رہے‘ ہر وقت ہمیں پولیس کا بھی ڈر رہتا کہ گھر والوں نے رپورٹ تو کی ہوگی اور پولیس تلاش کررہی ہوگی‘ یہ بھی ڈر رہتا کہ کسی کے ذریعہ پتہ کروا کر ہمیں جان سے ختم کروادیں گے۔
دروازے پر دستک ہوئی اور بندش کھل گئی:سال بھی گزرنے والا تھا ہم بھی بھول گئے کہ فقیر صاحب ملاقات کریں گے کیونکہ ٹھکانہ کا نہ انہوں نے پوچھا اور نہ ہم بتاسکے۔ ایک دفعہ آدھی رات کے قریب دروازے پر دستک ہوئی ہم نیند سے بیدار ہوئے اور ڈرے بڑے زور سے کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ میں نے چھریاں وغیرہ ہاتھ میں رکھ کر بیوی کو کہا کہ گھبرانا نہیں‘ کلمہ پڑھتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے دروازہ کھولا اندھیراچھایا ہوا تھا‘ دیکھا کہ وہی فقیر کھڑا ہے۔ میں ساتھ اندر لے آیا‘ میری اہلیہ نے بھی سلام کیا‘ انہوں نے چادر مانگی میری اہلیہ نے اپنی موٹی چادر دیدی‘ فقیر صاحب نے چادر اوڑھ کر مکان کے ایک کونے میں بیٹھ کر ٹیک لگالی اور خاموش ہوگئے۔ ہم دونوں میاں بیوی بڑے خوش تھے سارا قصہ بتا کر دعا کرائیں گے ساری رات ہم سرگوشی کرتے رہے‘ میں یہ کہوں گا؟؟ تم یہ کہنا؟ صبح کی اذان ہوئی… ہم نے وضو کیا اور نماز پڑھی…
اللہ فضل کرے گا:ایک ہی مٹی کی ہانڈی تھی‘ اس میں چائے بھی بناتے اور اسی میں ترکاری… رات کو مکئی کی آدھی روٹی صبح ناشتہ کیلئے چھوڑی تھی‘ چائے بنائی گھر والی کہنے لگی کہ فقیر صاحب کو تو باسی روٹی نہیں دے سکتے تم پڑوسیوں سے انڈوں کا پتہ کرو اور میں آٹا گوندھ کر روٹی پکاتی ہوں فقیر صاحب نے آواز دی چائے بن گئی ہے‘ ہم نے جواب دیا جی ہاں کہنے لگے جلدی لے آؤ‘ دیر ہورہی ہے۔ خدا کی قدرت ہم کچھ بول نہ سکتے تھے‘ کہتے کہتے رک جاتے‘ تھوڑی دیر انتظار کرتے پر نہ کہہ سکے‘ رات کی بچی ہوئی آدھی روٹی اور ایک پیالہ میں چائے لاکر فقیر صاحب کو پیش کی‘ فقیر صاحب نے روٹی کے دو ٹکڑے کیے ۔ ایک خود کھانا شروع کیا اور دوسرا ہمیں دے کر کہنے لگے یہ تم دونوں کھالو۔۔۔ ہم نے بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے کھالی۔ بیگم مجھے اشارہ کرتی ہے کہ فقیر صاحب سے دعا کی درخواست کرو‘ میں اس کو اشارہ کرتا‘ ہمت نہ پڑتی‘ فقیر صاحب چائے کا آخری گھونٹ پی کر پیالہ زمین پر رکھ کر اٹھ کر باہر جانے لگے ہم دونوں ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ اب جارہے ہیں بولو… ! بولو بولو کرتے کرتے وہ دروازے سے نکل گئے ہم کوئی بات نہ کرسکے۔ میں باہر ان کو رخصت کرنے لگا‘فقیربولے فوراً واپس چلو میرے پیچھے مت آؤ‘ اللہ فضل کرے گا۔
اللہ نے فضل کردیا:میں واپس آگیا‘ ہماری لڑائی شروع ہوگئی‘ میں بیوی کو کوستا‘ وہ مجھے کوستی‘ چند دن ہماری تلخی رہی پھر صلح ہوگئی… ایک دن ٹھیکیدار صاحب ہمارے کام کی خود نگرانی کرنے لگے‘ سارادن ہمارے پاس کھڑے رہے‘ شام کے وقت جب ہماری چھٹی ہوئی انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ تمام مزدوروں سے تم اچھا کام کرتے ہو اور کہا تم ان مزدوروں کے آج سے انچارج ہو اور تمہاری ایک دن کی تنخواہ ایک آنہ سے اب چار آنہ یومیہ ہوگی‘ میں بڑا ہی خوش ہوا‘ خدا کا شکر ادا کیا‘ ٹھیکیدار صاحب مجھ سے بہت خوش تھے مجھے روزانہ چار کی بجائے آٹھ آنہ دے دیتے‘ میں نے اپنے بستر وغیرہ بنانے شروع کردئیے‘ آج اور کل اور… دو چار سالوں میں میں امیر آدمی بن گیا‘ اس کے علاوہ میں نے گاؤں میںدم کرنا شروع کردیا‘ خدا کی قدرت جس کو سر میں درد ہوتا میں سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرتا درد فوراً ختم… کسی کی کمر میں درد ہوتا میرے دم سے اچھا ہوجاتا‘ میری شہرت ہونے لگی‘ دور دور سے لوگ آنے لگے‘ مجھے تعویذ وغیرہ لکھنے نہیں آتے تھے‘ کوئی من پسند شادی کیلئے تعویذ لینے آتا‘ کوئی مقدمہ میں کامیابی کیلئے تعویذ لیتا‘ میں چھوٹے سے کاغذ پر خانے بنا کر دوچار چھ کے ہندسے ویسے ہی تُکہ مار کر لکھ کر دیتا جس کام کیلئے میں کاغذ کی پرچی دیتا وہ ہوجاتا‘ کام ہونے کے بعد کوئی مرغی لاتا‘ کوئی بکرا لاتا‘ کوئی گندم‘ کوئی چاول لاتا‘ میرے مفت میں مزے ہونے لگے‘ ہر وقت گھر رہتا‘ ہر چیز خداوند کریم گھر پر مہیا کردیتے‘ میں نے پکا مکان بنانا شروع کردیا‘ مستریوں نے کہا کہ ایک پیسہ نہیں لیں گے‘ لکڑیاں لوگوں نے مفت لاکر دیں‘ صرف روٹی اور چائے کا خرچ مجھے کرنا پڑتا‘ وہ بھی لوگ تعویذوں کے بدلے دے جاتے تھے۔
چار الفاظ نے کایا پلٹ دی:میں نے اپنی بیگم کو کہا کہ فقیر کو ہم اپنی داستان غم نہ سنا سکے اور دعا کی درخواست تک نہ کرسکے مگراس نے خود جو الفاظ نکالے ’’اللہ فضل کرے گا‘‘ ان الفاظ نے میری کایا پلٹ دی‘ لوگ چونکہ ہر کام ان کا ہوجاتا تھا ہر ایک کہتا کہ ایسے کام صرف جادو سے ہی ہوسکتے ہیں۔ عبدالمجید صاحب کہنے لگے کہ میں یہ باتیں سنتا رہتا اور خوش ہوتا رہتا میں نے کبھی کسی کو نہیں کہا کہ مجھے جادوگر مت کہو اور نہ ہی کسی کو اپنی داستان سنائی‘ صرف تم ایک واحد آدمی ہو جو مجھے اچھے لگے ہو تو میں نے بتایا۔
میرے پاس صرف فقیر کی دعا ہے: میرے پاس نہ کوئی روحانی علم ہے‘ نہ جادو کا علم ہے صرف فقیر کی دعا سے جس کسی کو کسی کام کا کہتا ہوں وہ کردیتا ہے۔ اللہ مہربان ہوگیا ہے۔ آج ہی گھرسے آیا‘ ڈی سی صاحب کو چار پانچ آدمیوں کو اسلحہ کے لائسنس کی درخواستیں انہوں نے اسی وقت منظوری دیدی‘ لائسنس کلرک نے لائسنس بنا کر اسی وقت دے دئیے‘ اندراج تم نے کرادیا‘ یہی جادو ہے۔ مجھے کہنے لگے کہ کوئی کام ہے تو میں پرچی دے دیتا ہوں ہوجائیگا۔ میں نے انہیں کہا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتادیں کہ جس سے میرے کام بھی ہوتے رہیں تو انہوں نے کہا کہ نماز کی پابندی کرو اور اَللہُ الصَّمَدْ کا ورد 100دفعہ عشاء کی نماز کے بعد کرلیا کرو اور مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ میں نے بھی وعدہ کیا مگر میری تبدیلی ہوگئی اور ہماری دوبارہ ملاقات نہ ہوسکی بعد میں پتہ چلا کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 401 reviews.