آپ ہماری نگری میں کیسے؟؟؟
ایک دن نامعلوم مجھے کیا سوجھی‘ میں وہ چراغ لے کر اسی قبر پر گیا(جہاں میں نے سورۂ مزمل کا چلہ کیا تھا)۔ میں نے وہاں مخصوص الفاظ پڑھے اور پھر اس آیت اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا﴿مزمل۷﴾ کو پڑھ کر پھونک ماری پھونک مارتے ہی قبر گیٹ کی طرح کھلی اور اس کے اندر سیڑھیاں نظر آئیں میں اندر چلا گیا ۔اب میری منزل کا مجھے علم تھا‘ میں سیدھا اس گیٹ پر گیا پھر وہی شناسا سی آواز آئی۔ میرا نام لیا گیا اور گیٹ خودبخود کھلتا چلا گیا‘ اس کو کھولنے والا اب بھی مجھے نظر نہ آیا۔ میں حیران ہوتا ہوااندرچلا گیا۔ دور سے مجھے ہاتھوںمیں گلدستے لیے بہت سے بونے جنات نظر آئے اوران سب سے آگے سردار بونے جن کے ہاتھوں میں بڑا پھول تھا‘اس بارچراغ نہیں تھا‘ وہ میری طرف بڑھتے چلے آرہے تھے ‘ہرجن کا چہرہ خوشی سے معمور اور ہرجن کے دل میں میرے لیے محبت کے جذبات مؤجزن تھے۔ مجھے کہنے لگے زہےنصیب! آ پ ہماری نگری میںکیسے آگئے؟ ہم تو بہت مدت سے انتظار کررہے تھے‘ بہت دیر کے بعدتشریف لائے ہیں۔ میں کہنے لگا دراصل مجھے ایک چیز کھینچ کر یہاں لائی ہے وہ یہ ہے کہ ُاس دن میں آپ کے پاس گھنٹوں رہا لیکن جب واپس زمین کی دنیا پر گیا تو جو اوپر کی زندگی میں میں وقت چھوڑ کرآیا تھا اس وقت بھی وہی تھا۔۔۔
یہ اللہ کا راز ہے اللہ ہی جانتا ہے
وہ سب مسکرا دئیے۔ کہنے لگے آپ کی زمینی دنیا وقت‘ زمانہ اور مکان کی قیدمیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قید ہمارے لیے نہیں رکھی‘ ہم اس قید سے نا آشناہیں اور نہ ہمیں اس کی کوئی فکر ہے۔ کہنے لگے ہماری دنیا اور ہے‘ ہمارا سورج ‘ ہمارا چاند ‘ہمارے آسمان اور ہیں ‘ہماری شکل اور ہے جس شکل میں ہمیں آپ نظر آرہے ہیں یہ ہماری شکل نہیں وہ آپ پہچان نہیں سکتے۔ صرف آپ کو دکھانے کیلئے ہم نے یہ روپ دھارا ہے ۔ ہماری زبان اور ہے‘ ہم آپ سے اردو زبان میں بات کررہے یہ ہماری زبان نہیں ہے۔ کہنے لگے آپ ہمارے پاس ایک سال بھی رہ جاتے تو آپ کے پاس پھر بھی وقت وہی ہوتا جو چھوڑکرآئے ہیں۔ میں نے کہا ایسا کیوں ہے؟ کہا یہ ہمیںخبر نہیں۔۔۔ یہ اللہ کا راز ہے‘ اللہ ہی جانتا ہے۔۔۔ ہمیں بس اتنی خبر ہے کہ جب انسان اس نگری میں آتا ہے تو اوپر کی دنیا کا زمینی نظام اس کیلئے ٹھہر جاتا ہے اور اس کے آنے کا انتظار کرتا ہے جب وہ آتا ہے توجس منٹ کو وہاں چھوڑکر آیا تھا وہ منٹ وہی رہ جاتا ہے وہ منٹ اس کے آنے کے بعد آگے چلتا ہے۔
ہم ایک پراسرار مخلوق ہیں
میں حیران ان کی باتیں سن رہا تھا میں نے کہا مجھے سوفیصد تسلی نہیں ہوئی میرامسئلہ حل نہیں ہو ا۔مجھے اس کا کوئی اور حل بتائیں۔ کہنے لگے کہ اگر مزیدکوئی بات پوچھنی ہے تو صحابی با با سے پوچھئے ‘جو علم ان کو ہے ہمیں بھی نہیں۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کیا کھاتے ہیں؟ کہنے لگے جو انسان اور جانور کھاتے ہیں وہ ہم نہیں کھاتے‘ ہمارا رہنا ‘ر سم و رواج اور ہیں‘ہم وہ مخلوق ہیں جو کبھی رب کی نافرمانی نہیں کرتے‘ ہمارا رب بھی اللہ ہے‘ جو تمہارا نبی ہے ہمارا نبی بھی وہی ہے …… ہم زندگی کے دن رات کچھ اور گزارتے ہیں آپ کو بتائیں بھی تو آپ کو سمجھ نہیں آئے گی ہم ایک پراسرارمخلوق ہیں یہاں پر صرف ہم نہیں رہتے‘ ہم جیسی اور بہت سی مخلوقات رہتی ہیںجو صرف اللہ کے احاطہ علم میں ہے۔ ہمیں تو خودبہت ساری مخلوقات کا علم بھی نہیں۔
مجھے ان جنات سے شرم آگئی
میں نے پوچھا آپ کا چاندکون سا ہے؟ کہنے لگےوہ نہیں جوآپ کا ہے اور سورج وہ نہیں جو آپ کا ہے۔ اس اللہ کے پاس ایک چاند نہیں اس کے پاس بے شمار چاند ہیں‘ اللہ بہت طاقتور ہے‘ اس کے پاس بے شمار سورج ہیں۔ اس کی طاقت اور قوت کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا۔ وہ طاقت اور قوت میں لازوال ہے‘ ہم نہ جانتے ہیں اور نہ پہچانتے ہیں مگر اللہ ہے اور اللہ اپنی قوت اور طاقت کیساتھ ہے۔ ان کے لہجے میں اللہ کی ذات اور قوت کا اتنا اعتماد تھا کہ مجھے جھرجھری آگئی اور شرم بھی آگئی کہ میں انسان ہوکر اللہ کی ذات پراتنا یقین نہیں کرتا یہ اللہ کی دوسری مخلوق ہوکر اللہ کی ذات پراتنا یقین کرتے ہیں۔ مجھے اپنے سوالات کامکمل جواب تو نہ ملا تاہم کچھ آگاہی ہوگئی‘ میں اپنے دل میں سوچتا رہا کہ اسی لیے انسان کا علم ناقص ہے اور اللہ کا علم کامل ہے جو اللہ کے پاس ہے وہ سب کچھ تیرے پاس آجائے تو رب تو رب نہ ہوا نا…… اللہ‘ اللہ ہے اس کا علم لازوال ہے‘ اس کی معلومات باکمال ہیں‘ وہ وہ جانتا ہے جو میں نہیں جانتا۔ یہ باتیں سوچ کر مجھے تسلی ہوگئی۔ میں واپس پلٹا۔
بیوہ کی اپنے شوہر سے ملاقات
میں نے اپنا چراغ اٹھایا جو کہ میں نے سیڑھیوں کے ساتھ رکھ دیاتھا جب میں قبر سے باہر آیاتو کچھ دور ایک بوڑھی ماں اور ایک جوان جوکہ شاید اس کا بیٹا تھا‘ایک قبرکے پاس بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے قریب جاکر پوچھا آپ کیوں رو رہے ہیں؟ وہ بوڑھی عورت کہنے لگے یہ میرے شوہر کی قبر ہے اور یہ میرا بیٹا ہے۔ ہماراساڑھے چھیالیس سال کا ساتھ تھا۔ پچھلے دنوں میرا شوہر فوت ہوگیا۔ اس کو بیٹھی رو رہی ہوں۔ ساتھ چھوٹ گیا‘ محبتیں اور پیار ختم ہوگیا اب تو پھر ملاقات قیامت کے دن ہوسکتی ہے‘ اب تو جدائیاں ہی جدائیاں ہیں اور کیا ہوسکتا ہے۔
میں نے کہا آپ اپنے شوہر سے باتیں کرنا چاہتی ہیں؟ مجھے حیران کن نظروں سے دیکھ کر کہنے لگی ایسا ممکن ہے؟ میں نے کہا ہاں!وہ عورت کہنے لگی اگر ایسا ہوجائے تو میں آپ کی احساس مند رہوں گی۔ میں نے اس کے شوہر کانام پوچھ کر تین دفعہ اس کا نام پکارا چراغ پر آیت پڑھ کر پھونک ماری تو اچانک قبر کے اندر سے سلام کی آواز آئی۔ اس عورت نے جواب دیا اور چیخ کر کہنے لگی یہی میرے شوہر ہیں‘ رونے لگی‘ چیخ و پکار کرنے لگی‘ آپ سامنے کیوں نہیں آتے؟ وہ کہنے لگےہم اس جہاں سے اب چلے گئے ہیں۔ کہنے لگی آہ! آپ ہمیں تنہا چھوڑ گئے‘ اس کے شوہر کی روح کہنے لگی تنہائی اس جہان میں ہر شخص کا مقدر ہے‘ عنقریب تم بھی آجاؤ گی‘ میں تمہارے انتظار میںہوں‘ وہ عورت کہنے لگی کیا آپ مجھے اپنی شکل نہیں دکھاسکتے ۔
مجھے صلہ رحمی نے بچا لیا
بیوہ کہنے لگی آپ کو قبر میں کس چیز نے کام دیا۔ روح کہنے لگی بہت سے بہن بھائی اور رشتے دار مجھ سے ناراض تھے‘ میری کسی غلطی یا غلط فہمی کی وجہ سے لیکن میں ان کی خدمت کرتا رہا‘ ان کی ناراضگی سے درگزرکرتا رہا‘ میں ان کی مالی مدد بھی کرتا رہا‘ بیماریوںمیں ان کو پوچھتا بھی رہا‘ ان کی زیادتیوں کو برداشت بھی کرتا رہا اوران کے ساتھ صلہ رحمی کرتا رہا …کرتا رہا… کرتا رہا… اسی دوران مجھے موت آگئی… تو اللہ تعالیٰ نے اس صلہ رحمی‘ اس مالی خدمت‘ ان کی زیادتی اور ظلم کو برداشت کرنے کے صلے میںمجھے معاف کیا ۔اب میرے سرہانے دو فرشتے بیٹھے رہتے ہیں جو سدا میرا دل بہلاتے ہیں‘ مجھ سے محبت کرتے ہیں‘ مجھ سے پیار کرتے ہیں مجھے تو اب گھر بھی یاد نہیں آتا اور وہ دنیا تو مجھے اب بہت بری لگتی ہے۔ ہاں! ایک حسرت دل میں ہے اے کاش! اپنے غریب رشتے داروںکو میں پوچھتا‘ غریب پڑوسیوں کا خیال کرتا‘ غمزدہ لوگوں کی میں دل جوئی کرتا‘پریشان لوگوں کو میں سنبھالتا اور ہروقت ان کاساتھ دیتا… یہی کمی رہ گئی اور یہ کمی نہ ہوتی تو آج میرا مقام اور اونچاہوتا۔
میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ ۔۔۔۔
مجھ سے اونچامقام والے بھی یہاں ہیں‘ میں بہت سے لوگوں سے نیچے مقام پر ہوں لیکن میری بخشش ہوئی ہے تو ان اعمال کی وجہ سے ہوئی ہےا ور میں تمہیں نصیحت کرتاہوں‘ خیال کرنا اپنے رشتے داروں کی چھوٹی چھوٹی باتوںپر ان سے روٹھ نہ جانا اگر وہ روٹھ بھی گئے ہیں تو چھوٹا بن کر انہیں مناتی رہنااور ان کے ساتھ محبت‘ پیار‘ دل جوئی کرتی رہنا‘ میں نے اس موت کے بعد کی زندگی میںجتنا بڑا اجر صلہ رحمی کرنے والوں کا دیکھا ہے اتنا بڑا اجر میں نے آج تک کسی اور کا نہیں دیکھا……
اس حقیقت کو لوگ نہیں سمجھ سکتے
قبروں کے حالات میں کیا بیان کروں‘ قبریں تو بہت بڑی حقیقتیں آشکار کرتی ہیں اور ایسی حقیقتیں اگر بیان کردی جائیں تو سننے والے انہیں افسانہ یا کہانی سمجھ بیٹھیں گے۔ پچھلے دنوں میں ایک قبر پر گیا تو جاتے ہی میں نے مراقبہ کیا اور صحابی بابا کے بتائے ہوئے اعمال اور بعض اوقات تو میں مراقبہ اور اعمال بھی نہیں کرتا۔ میرے پاس یا تو وہ چراغ ہوتا ہے یا پھر چراغ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ میری روحوں سے ملاقات ایسے ہوتی جیسے کسی کی زندہ بندے سے ملاقات ہوتی ہے اور میں جاکر ان سے باتیں شروع کردیتا ہوں بعض اوقات مجمع میں یامیرے ساتھ اگر کوئی چار آدمی ہوں اور میں باتیںکررہا ہوتا ہوں‘ ان چار آدمیوںکو خبر نہیں ہوتی کیونکہ روح کی باتیں زبان سے نہیں ہوتیں دل سے ہوتی ہیں اور دل ایک پورا پیغام روح تک پہنچاتاہے‘ روح اس پیغام کو وصول کرتی ہے۔ اس کی حقیقت لوگ نہیںسمجھ سکتے۔
367سال پرانے مُردے سے دلچسپ ملاقات
ایک واقعہ میں بیان کرتا ہوں۔ ایک دن میں ٹھٹھہ کے مشہور قبرستان مکلی میں بیٹھا ہوا تھا‘ ایک دور ویرانے میں جہاں ہفتوں بھی اگر کوئی بیٹھا رہے… سوائے درندوں اور جانوروں کے… انسان کا وہاں گزر بھی نہیں ہوسکتا۔ نامعلوم میرے جی میں کیا آیا میں نے ایک قدیم قبرمیں موجود مردے سے باتیں کرنا شروع کردیں۔ قبروالے نے مجھے جو انوکھی کہانی بتائی میں لرز اٹھا اس میں عبرت بھی تھی‘ نصیحت بھی اور وظائف بھی…
قارئین! آج آپ کو وہ انوکھی کہانی سناتا ہوں جو مجھے صاحب قبر نے سنائی… کہنے لگے مجھے مرے ہوئے 367 سال ہوگئے ہیں‘ میری قبر کا وجود ختم ہوگیا‘ میں زمین کا نشان بن گیا‘ میری ہڈیاں تک ختم ہوگئیں‘ لیکن برزخ کا انوکھا اور بظاہر ناقابل یقین نظام اللہ کے ہاں چل رہا ہے۔ میں ایک بادشاہ کے وزیر کا مشیر تھا‘ اس کی بادشاہت پورے برصغیر میں پھیلی ہوئی تھی بلکہ افغانستان بھی اس میںشامل تھا‘ بادشاہ کا وزیرمسلسل مجھ سے رابطے میں رہتا اور مشورہ کرتا جب بھی اسے کوئی ناممکن مسئلہ ہوجاتا میں اسے تدبیربتاتا‘ دن رات گزرتے رہے۔ بادشاہ کو بڑھاپا آگیا‘ بادشاہ نے سوچا کہ اپنا کوئی ولی عہد بنایا جائے۔ بیٹا بڑا تھا لیکن ذہنی معذور تھا اس سے چھوٹا بیٹا ساڑھے تین سال کا تھا۔ اسی دن رات کی کشمکش میں بادشاہ پریشان سے پریشان ہوتا چلا گیا۔ آخر کار اس نے وزیر کو بلایا کہ میں ولی عہد کا انتخاب کیسے کروں؟ تو وزیر نے اس کا حل تلاش کرنے کیلئے بادشاہ سے دس دن مانگے۔ بادشاہ کا مزاج تھا کہ اگر اسے کوئی ناممکن کو ممکن بنا کر نہیں دیتا تھا تو بادشاہ اس شخص کو طرح طرح کی سزائیں دیتا اور بعض اوقات اسے قتل بھی کرا دیتا تھا۔ اب وزیر پریشان کہ اس ناممکن کو ممکن میں کیسے بناؤں؟ ایک بیٹا معذور اور دوسرا بہت چھوٹاتھا‘ اب بادشاہ کی جو شرائط تھیں ولی عہد ہونے کیلئے کس بندے پر فٹ آتی ہیں؟ میں کیسے پوری کروں؟ اسی کشمکش میں ایک رات میں سویا ہوا تھا وزیر کا قاصد آیا اور کہا کہ وزیر نے مجھے بلایا۔
اگر بادشاہ نے مجھے ذلیل کردیا تو۔۔۔۔
میںجب وزیر کے پاس گیا تو وہ بہت پریشان تھا اور وزیر زارو قطار رو رہا تھا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں‘ ساری زندگی میں نے عزت ووقار سے گزاری ہے اگر بادشاہ نے مجھے ذلیل کردیا تو زمین پر رہنا میرے لیے محال ہوجائے گا‘ اس سے بہتر ہے کہ میں زمین کے نیچے چلا جاؤں۔ میں ان کی باتیں سنتا رہا میں نے انہیں تسلی دی کہ کوئی مسئلہ ناممکن نہیں‘ آپ مایوس نہ ہوں‘ میں اس کا حل نکال کر آپ کو دیتا ہوں۔ میں نے اس کے حل کیلئے تین دن مانگے میں رات کو سویا نہیں مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو میں دو نفل پڑھتا اور ان دو نفل میں مسلسل سورۂ اخلاص کی تکرار کرتا‘ یعنی پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص معہ تسمیہ پڑھنا شروع کردیتا‘ مجھے تعداد کاعلم نہیں ہوتا تھا اور میں گھنٹوں اس کو پڑھتارہتا‘ پانچ سو آٹھ سو ایک ہزار مرتبہ پڑھتا جاتا جب بہت زیادہ میں تھک جاتا پھر رکوع سجدے کے بعد دوسری رکعت میں بھی اسی طرح پڑھتا۔ میں پڑھتا رہا… پڑھتا رہا… پـڑھتا رہا… ایک رات پڑھ کر تھک ہار کر سو گیا‘ اسی طرح دوسری رات بھی پڑھا اور پھر تیسری رات بھی گھنٹوں پڑھتا رہا اور تھک ہار کر سو گیا۔ پھر میں نے خواب میں دیکھا بہت زیادہ پانی ہے جیسے کہ سمندر ہو اس پانی کے اندر راستہ بنا اور میں راستے میں اتر گیا‘ بہت نیچے سمندر میںراستے میں ایک دروازہ نظر آیا ‘ میں نے وہ دروازہ کھٹکھٹایا اندر سے آواز آئی کون ہے؟ چونکہ میرا نام ہشام ہے تو میں نے کہا ہشام… بولے کس لیے آئے ہو؟ میں نے کہا مجھے کوئی مشکل ہے‘ اس کا حل لینا ہے۔ دروازہ کھولا تو اندر جگہ جگہ کارپٹ بچھے ہوئے تھے‘ انوکھے راستے‘ انوکھی زندگی میں بہت حیران ہوا ہر طرف نگہبان ہاتھوں میں برچھے اور تلواریں لیکر کھڑے ہوئے تھے‘ جگہ جگہ عود کی‘ عنبر کی دھونیاں تھیں‘ خوشبو ہر طرف پھیل رہی تھیں ایک تخت پرشاہ جنات بیٹھے ہوئے تھے ۔ مجھے دربان نے بتایا’’یہ شاہ جنات ہیں۔‘‘ میں نے جاکر انہیں سلام عرض کیا اور ادب سے وزیر کا مسئلہ بیان کیا کہ میرا مالک بادشاہ کا وزیر ہے‘ وہ ایک مسئلہ کیلئے بہت پریشان ہے کیا آپ کیلئے ممکن ہے کہ آپ اس کا حل دے سکیں ایک باوقار اور گرجدار آواز شاہ جنات کی نکلی اور کہنے لگے۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں