Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

قبرکھولی توناخن بڑھےہوئے تھے

ماہنامہ عبقری - فروری 2013

حیرت انگیز واقعہ:دو تین دن پہلے میری چھوٹی بیٹی کا فون آیا۔ اس نے حسب معمول پہلے میری اور گھر والوں کی خیرت معلوم کرکے پوچھا کہ اگر آپ مصروف نہ ہوں تو آپ کو ایک بہت ہی حیرت انگیز واقعہ بتانا چاہتی ہوں اور پھر اس نے واقعے کی تفصیل بیان کی۔ چونکہ واقعہ بہت غیرمعمولی تھا اس لیے میں نے اس سے پوچھا کہ تم کو یہ واقعہ کس نے بتایا؟ اس نے اپنے جیٹھ کی بیوی کا نام لیا۔ ان خاتون کو راقم بھی خوب جانتا ہے اور اکثر ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔اگرچہ مجھے اپنی بیٹی کے بیان پر پورا اعتماد تھا لیکن چونکہ اس واقعے کی راوی دو خواتین ہیں اور اکثر تجربہ ہوتا ہے کہ بعض خواتین روایت کرنے میں احتیاط نہیں کرتی ہیں‘ کچھ کمی بیشی یا کم از کم رنگ آمیزی ہوجاتی ہے‘ اس لیے میں نے اس سے کہا کہ میں اس واقعے کی بالکل مستند تفصیل چاہتا ہوں اس لیے تم اپنے شوہر یعنی راقم کے چھوٹے داماد احسن افضال صاحب سے کہو کہ وہ اس واقعے کی تفصیل عینی گواہوں سے معلوم کرکے مجھے بتائیں۔29 ستمبر 2012ء کو مغرب کے بعد ان کا فون آیا اور خواتین کی بیان کردہ تفصیل کے ساتھ بعض جزوی تفصیلات کے ساتھ یہ واقعہ بیان کیا۔ اس حیرت انگیز واقعہ کو پوری طرح سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ میں اس کی ابتداء 2001ء میں ہونے والے ایک غیرمعمولی المناک واقعے سے کروں جو راقم کے علم میں آیا تھا اور جس پر راقم نے اپنے افسوس کا اظہار کیا تھا۔
باپ بیٹے کی ناگہانی موت:یہ واقعہ ایک باپ اور ایک بیٹے کی ناگہانی موت سے شروع ہوتا ہے باپ کا نام جناب محمود غوری تھا اور بیٹے کا نام عامر محمود غوری تھا‘ محمود غوری صاحب کا خاندان جیل روڈ کے پیچھے پی آئی بی کالونی کے قریب ایک فلیٹ میں آباد ہے۔ محمود غوری صاحب سکیورٹی پرنٹنگ پریس‘ اسلام آباد میں ملازم تھے۔ انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی عمر 55 سال سے 60 سال کے درمیان تھی۔ بیٹا جس کا نام محمدعامر غوری تھا اس کی تقریباً 29،28 سال عمر تھی۔ دو تین سال پہلے شادی ہوئی اور خشخشی ڈاڑھی رکھتا تھا۔ دونوں باپ بیٹے دینی رجحان رکھتے تھے‘ کیونکہ والد کا مزاج تصوف کی طرف زیادہ تھا‘ اس کا اثر بیٹے کے مزاج و فکر پر بھی پڑا تھا‘ اس واقعے کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ بیٹا عامر غوری اپنے سسرالی عزیزوں کے ساتھ پکنک منانے کیلئے کلری جھیل پر گیا ہوا تھا وہ ایک ٹیوب پر سوار ہوکر نہارہا تھا کہ اچانک ٹیوب پھٹ گئی اور وہ گہرےپانی میں ڈوب گیا۔
گھر والوں پر ٹوٹی قیامت:سب غمزدہ عزیز اس کی لاش کو ایک ایمبولینس میں ڈال کر گھر لے آئے‘ اس کے والد کو اچانک یہ خبر دی گئی کہ ان کا بیٹا پکنک سے واپس نہیں آیا بلکہ اس کی لاش آئی ہے حیرت اور غم کے اچانک حملوں کو سہتے ہوئے باپ نیچے اترا۔ ایمبولینس میں مردہ بیٹے کی لاش کے چہرے سے چادر اٹھائی‘ اس کے مرجانے کا یقین ہوا۔ اس صدمے کو وہ برداشت نہ کرسکے اور دماغ کی رگ پھٹ گئی ناک سے خون جاری ہوا اور وہیں موت کو گلے لگا کر اپنے بیٹے سے جاملا اور اس طرح ایک ہی وقت میں ایک گھر سے دو جنازےاٹھائے گئے گھر والوں کے دلوں پر کیا قیامت ٹوٹی ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں‘ ان دونوں کو حسن اسکوائر کے پیچھے عیسیٰ نگری کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔
جہاں تک مجھے علم ہے یہ افسوسناک واقعہ جولائی یا اگست 2001ء میں پیش آیا تھا‘ یعنی اب سے تقریباً گیارہ سال پہلے‘ مجھے اس المناک واقعے کی اطلاع میری بیٹی اور داماد کے ذریعے ملی تھی اور اس پر راقم کے قلب پر گہرا اثر ہوا تھا۔ اس تمہید کا مقصد اس حالیہ ایمان افروز حیرت انگیز واقعے سے عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلانامقصود ہے۔
کچھ عرصہ قبل لیاری ایکسپریس کی تعمیر کے سلسلے میں عیسیٰ نگری کے قبرستان کی کچھ زمین سڑک بنانے کیلئے لینی ضروری تھی جو علاقہ اس سکیم میں آرہا تھا اس میں تقریباً تین ہزار قبریں آرہی تھیں اس ادارے کی انتظامیہ نے متاثرہ قبروں کے ورثاء سے رابطہ کیا اور جن سے رابطہ ہوا ان کو ہدایت دی کہ وہ فلاں تاریخ کو اپنے مردوں کو باقیات یعنی ہڈیاں وغیرہ جمع کرکے انکو عیسیٰ نگری میں پہلے سے متعین جگہ پر منتقل کردیں اور اس کیلئے وہ مناسب کپڑا لیتے آئیں تاکہ ان کی منتقلی کی جاسکے۔ اس کیلئےعیسیٰ نگری میں سکیم والے علاقے کے قریب ایک جگہ مختص کردی گئی تھی۔چنانچہ محمود غوری صاحب کے ورثاء کو بھی اطلاع کی گئی‘ بعض ورثاء نے اس منتقلی کیلئےعلماء حضرات سے رجوع کیا کہ ایسا کرنا ناجائز ہے یا نہیں۔ بعض علماء نے کہا کہ اب گیارہ سال بعد ان کو منتقل کرنا ضروری نہیں ہے اس علاقے کو سڑک میں آنے دیا جائے۔
قبر کھولی تو۔۔۔!محمود غوری صاحب مرحوم کے دو بیٹے نعمان غوری اور عقیل غوری بھی مقررہ تاریخ پر وہاں پہنچ گئے‘ باپ اور بیٹے کی قبروں میں تھوڑا فاصلہ تھا۔ تقریباً تین چار قبریں درمیان میں تھیں جب گورکن نے والد کی قبر کھودی تو فوراً ان کے ورثاء سے کہا کہ آپ بڑی چادریں لائیں۔ یہ کپڑے کافی نہیں ہیں اور اس نے اس وقت کوئی تفصیل نہیں بتائی‘ ان سے اصرار کیا۔ آخر یہ لوگ بڑی چادریں لے کر آئے۔ قبر کو احتیاط سے کھودا گیا۔ کفن جوں کا توں موجود تھا‘ اس میں لپٹی ہوئی نعش کا ابھار بھی واضح تھا‘ کفن میلا ضرور ہوگیا تھا‘ گورکن نے منہ کی طرف سے کفن ہٹایا تو چہرہ بالکل ایسا تروتازہ تھا جیسے آج ہی انہیں دفنایا گیا ہو۔ بڑی چادر کو کفن پر ڈال دیا گیا تھا ان کے بیٹے عقیل کا بیان ہے کہ ان کے والد کا چہرہ اور جسم بالکل محفوظ تھا یہاں تک کہ کمر باندھنے کے لیے جو کتر باندھی جاتی ہے وہ بھی گرہ کھلی ہوئی موجود تھی۔اس کے بعد بیٹے عامر محمود غوری کی قبر کھولی گئی‘ حیرت انگیز طور پر اس کا جسم بھی پوری طرح صحیح و سالم اور محفوظ تھا‘ چنانچہ اس پر بھی چادر ڈال دی گئی اور جسم کو اٹھا کر باپ کی قبر کے برابر دفنا دیا گیا اس طرح دونوں باپ بیٹوں کے درمیان جو ظاہری تھوڑا سا فاصلہ تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔
یہ تو تمام مسلمانوں کا عقیدہ بھی ہے اور قرآن کریم کی بیان کردہ حقیقت بھی کہ شہیدوں کو عالم برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات دی جاتی ہے اور اس قسم کے واقعات اکثر علم میں آتے رہتے ہیں کہ کسی کی قبر کھولی گئی تو جسم قبر میں محفوظ پایا گیا۔ اس واقعے میں راقم کو جس بات پر زیادہ حیرت ہوئی اور راقم کو اپنی زندگی میں پہلی بار کسی مشاہدے کا علم ہوا وہ بات یہ نہیں کہ زمین نے ان جسموں کو کیوں محفوظ رکھا‘ بلکہ وہ بات یہ ہے کہ جب والد کے جسم کو منتقل کیا جارہا تھا تو اچانک کفن ان کے ہاتھ سے ہٹ گیا اور ہاتھ نظر آیا تو دیکھا کہ ان کے ناخن تقریباً ڈیڑھ انچ کے بڑھےہوئے تھے جبکہ انتقال کے وقت ناخن بہت چھوٹے اور کترے ہوئے تھے اسی طرح بیٹے کے چہرے پر جو خشخشی ڈاڑھی تھی وہ کئی انچ زیادہ بڑھ گئی تھی۔
آئیے قارئین! دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے ہمیں شہیدوں کے بارے میں کیا بتایا ہے: ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو دراصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو ان کی زندگی کا احساس (شعور) نہیں ہوتا۔‘‘ (البقرہ)
اس آیت میں اللہ کے راستے میں قتل ہونے والوں کو شہید قرار دیا گیا ہے جبکہ ان دونوں (باقی صفحہ نمبر44)
(بقیہ:قبر کھولی توناخن بڑھےہوئے تھے)
باپ بیٹوںکی موت کی وجہ ’’ناگہانی موت‘‘ ہے۔ اس کے بارے میں آگے عرض کروں گا اب قرآن کریم کی دوسری آیت ملاحظہ کیجئے:۔
ترجمہ: اور (اے پیغمبر!)جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں انہیں اپنے رب کے پاس سے رزق ملتا ہے اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ دیا ہے وہ اس پر مگن (خوش ہیں) اور ا ن کے پیچھے (بعد میں) جو لوگ ابھی ان کے ساتھ شامل نہیںہوئے ان کے بارے میں اس بات پر خوشی مناتے رہیں کہ (جب وہ ان سے آکر ملیں گے تو)نہ ان پرکوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (آل عمران 170,169)ان دونوں آیات میں اللہ کے راستے میں قتل ہونے والوں کو زندہ قرار دیا گیا ہے سوال یہ ہے کہ مذکورہ واقعے میں دونوں باپ بیٹے ایک حادثاتی موت میں مرے ہیں‘ نہ وہ فی سبیل اللہ جہاد کیلئے نکلے تھے اور نہ قتل ہوئے پھر ان کو شہادت کا یہ اعلیٰ مرتبہ کیسے حاصل ہوگیا؟ ایک بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ شہادت کے درجات کی تعداد بہت زیاد ہ ہے‘ ایک غزوے سے واپسی پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ چھوٹے جہاد کی طرف سے بڑے جہاد کی طرف چلو یعنی نفس امارہ سے جنگ کرو۔ تزکیہ نفس اور مجاہدے میں مرنے والے بھی بڑے شہید ہیں۔ حتیٰ کہ کنوری لڑکی کی موت کو بھی شہادت کا ایک درجہ دیا گیا ہے اگر مجھے غلط یاد نہیں تو ناگہانی موت کو بھی شہادت کا ایک درجہ دیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر شخص کامعاملہ اللہ کے ساتھ جدا ہوتا ہے ہوسکتا ہے ان کا کوئی خفیہ عمل ایسا ہو جس کی وجہ سے وہ شہید ہوئے۔ گورکن نے بتایا کہ تین ہزار قبروں میں سے سات قبریں ایسی ملیں جن کے جسم محفوظ تھے۔ واللہ اعلم۔ (ماہنامہ البلاغ‘ص49تا53

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 443 reviews.