Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

میرے قبر میں گزرے چار گھنٹے

ماہنامہ عبقری - مئی 2013ء

صبح چار بجے تک ہم نے بڑی بے چینی سے انتظار کیا اور صبح چار بجے ہم نے جب قبر کھودی تو دیکھا کہ میاں نذیرچشتی بے ہوش تھا اور اس کا رنگ جو کہ پہلے سرخ گولڈن سیب کی طرح تھا اب بالکل کالا سیاہ ہوچکا ہے۔ہم نے جلدی سے اس کو نکالا

(میاں منظور چشتی‘ کمالیہ)


محترم حکیم صاحب السلام علیکم! آپ کا رسالہ عبقری لاجواب ہے‘ اس میں ہر طرح کی رہنمائی ملتی ہے‘ ہمارا سارا گھرانہ بڑے شوق سے یہ رسالہ پڑھتا ہے بلکہ پورا ماہ ہمیں عبقری کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔ میں پہلی مرتبہ کسی رسالے میں اپنی زندگی کا ایک یادگار واقعہ لکھ رہا ہوں امید ہے قارئین کو پسند آئے گا۔ یہ1967ء کا واقعہ ہے میرا ایک بہت اچھا دوست میاں نذیرچشتی ہے‘ بہت ہی امانت دار مستری تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے شرط لگائی کہ قبر میں چار گھنٹے گزارنے ہیں۔ رات 12 بجے سے صبح 4 بجے تک۔ میاں نذیرچشتی مان گیا اور ایک قبر کھودی گئی اس میں 13 انچ کے سوراخ والے پائپ لگائے ہوا کیلئے۔۔۔۔ پھر میاں نذیرچشتی صاحب رات بارہ بجے اس میں لیٹ گئے اور ہم نے اوپر سے قبر بندکردی۔۔۔۔صبح چار بجے تک ہم نے بڑی بے چینی سے انتظار کیا اور صبح چار بجے ہم نے جب قبر کھودی تو دیکھا کہ میاں نذیرچشتی بے ہوش تھا اور اس کا رنگ جو کہ پہلے سرخ گولڈن سیب کی طرح تھا اب بالکل کالا سیاہ ہوچکا ہے۔
ہم نے جلدی سے اس کو نکالا اور ایک سائیڈ پر لے جاکر اس کے منہ میں پانی وغیرہ ڈالا کچھ دیر بعد اس کو ہوش آگیا‘ وہ بالکل بوکھلایا ہوا تھا‘ پھر ہم اس کو اس کے گھر چھوڑ آئے اس کے گھر والوں نے اس کو پہچاننے سے انکار کردیا دوست وغیرہ کے بتانے پر گھر والے اسے پہچان گئے۔ تین چار دن گزرنے کے بعد جب اس کی حالت سنبھلی تو ہم نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ قبر میں تمہارے ساتھ کیا ہوا۔ میاں نذیر کہنے لگا:۔جب آپ لوگوں نے قبر بند کی تو میں اپنے ساتھ سگریٹ لے کر گیا تھا میں نے سگریٹ نکالا اور جیسے ہی جلانے لگا کہ اچانک ایک طرف سے بہت تیز آگ میری طرف آئی تو دوسری طرف سے ایک روٹی آئی اور اس روٹی نے اس آگ کو ایک طرف دھکیل دیا‘ ابھی یہ واقعہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ایک اور طرف سے آگ آئی اور اسی روٹی نے اس آگ کو بھی دھکیل کر ختم کردیا اس کے بعد میں بیہوش ہوگیا اور جب ہوش آیا تو آپ لوگوں کے پاس تھا۔پھر اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے کسی مسافر کو کھانا کھلایا تھا اسی روٹی نے مجھے اس آگ سے بچالیا۔ اس کے بعد میاں نذیر اپنی آمدن کا سترفیصد سے بھی زائد اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا۔
ایک قیدی کی پھانسی کا منظر
(ڈاکٹر رشید حسین‘ اسلام آباد)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! میں آپ کا رسالہ کافی عرصے سے پڑھ رہا ہوں میں نے اپنی پوری زندگی میں اس سے بہتر رسالہ نہیں دیکھا۔ محترم حکیم صاحب! میں ایک ڈاکٹر ہوں اور میری ساری زندگی جیلوں میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے گزری ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو پھانسی ہوتے دیکھا ہے لیکن ایک واقعہ جو مجھے آج تک نہیں بھولتا وہ درج ذیل ہے:۔
اس وقت میری پوسٹنگ مچھ میں تھی میرا وہاں کی سنٹرل جیل میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس جیل میں سزائے موت کا ایک قیدی حمیدبلوچ تھا جس کا تعلق قلات سے تھا‘اس کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کرکے لایا گیا تھا‘ قد آور جسم‘ کشادہ سینے والا خوبرو نوجوان تھا‘ شریف النفس آدمی تھا‘ اس کے مخالفین کافی مضبوط پارٹی تھی انہوں نےصرف ذاتی عناد میںاس کوقتل کا مجرم ثابت کروادیا۔ میری کچھ دیر ہی اس سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ اس کو دکھی انسانیت کی خدمت سے بہت لگاؤ تھا۔ اس کی پھانسی سے ایک دن پہلے میں جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے ملنے گیا تو دیکھا کہ حمید بلوچ کے بلوچی قیدی ساتھی اسے کہہ رہے تھے کہ دیکھو تم جب صبح پھانسی کیلئے جانے لگو تو نعرہ لگانا ’’انقلاب‘‘ ہم کہیں گے زندہ باد۔۔۔
میں نے جب یہ باتیں سنیں تو حمیدبلوچ سے کہا کہ بیٹا! تم اللہ کے پاس جارہے ہو‘ تمہارے نعرے لگانے سے نہ تو کوئی زندہ ہوگا نہ ہی مردہ۔۔۔ ہاں اگر کلمہ پڑھتے ہوئے جاؤگے تو انشاء اللہ اس میں بہتری ہوگی‘ میری اس درخواست پر غور کرنا۔ اگلی صبح 4 بجے میں بھی پھانسی گھاٹ پر چلا گیا۔ حمیدبلوچ کو مقتل میں لایا گیا جب اسے نقاب پہنانے لگے تو معمول کے مطابق اس سے آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا کہ میری آپ سب حضرات سے درخواست ہے کہ اللہ سے اپنا تعلق جوڑو‘ نمازیں ادا کرنا شروع کردو‘ اس کے بعد وہ کلمہ پڑھتا رہا اور اسے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
میں اس وقت سورۂ یٰسین پڑھ رہا تھا اکثر ایسے ہوتا تھا کہ پھانسی ہونے کے بعد آدھے آدھے گھنٹے تک آدمی تڑپتا رہتا اور جب اس سے نقاب ہٹایا جاتا تو آنکھیں باہر نکلی ہوتیں اور زبان بھی دانتوں میں پسی ہوتی لیکن میرے سورۂ یٰسین مکمل کرنے سے پہلے ہی حمیدبلوچ کی روح نکل گئی اور جب نقاب ہٹایا گیا تو اس کی آنکھیں بھی بالکل نارمل حالت میں تھیں اور زبان بھی۔۔۔۔۔ اور اس کا چہرہ ایسے تھا جیسے کوئی معصوم بچہ سورہا ہے۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 691 reviews.