من میں چنتا رہتی ہے تو چنتا یا فکر انسان پر سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ہی بڑھاپا لے آتی ہے۔ فکر اور خوف کے لاحق ہونے پر انسان رات ہی رات میں سیاہ بال بھی سفیدی میں بدل لیتا ہے۔ فکرمند انسان اگرچہ چلتا پھرتا ہے لیکن حقیقت میں ایک لاش چلتی پھرتی ہے
بڑھاپے کی ماں:یہ عنوان پڑھ کر آپ حیران ہونگے کہ بڑھاپے کی ماں بھی ہوتی ہے۔ بلاشبہ بڑھاپے کو جنم دینے والی بھی ایک ماں ہے اور وہ ہے قبض… عارضی قبض کی بابت تو نہیں کہہ سکتے لیکن دائمی قبض حقیقی طور پر بڑھاپے کو نزدیک لاتی ہے۔ قبض کو ام الامراض کہا گیا ہے۔ یعنی وہ دیگر بے شمار بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ اس طرح یہ بڑھاپے کی ماں بھی ہے۔ جنگلی جانور‘ جنگلی پرندے اور جنگلوں میں رہنے والے وحشی قبض کی تکلیف نہیں اٹھاتے۔ کیونکہ وہ قدرتی غذا اور خوراک کھاتے ہیں۔ بھوک سے کھاتے ہیں اوربھوک نہ ہونے پر سامنے پڑے کھانے کی طرف دیکھتے تک نہیں لیکن آج کل کا تہذیب یافتہ آدمی بھوک ہو یا نہ ہو۔ بستر پر پڑا چائے لے گا‘ پھر ناشتہ کرے گا‘ پھر دوپہر کا کھانا بعد میں کوئی لذیذ چیز مل جائے تو وہ نابود کرے گا اور رات کو پرلطف کھانا کھائے گا۔ اب انتڑیاں اور معدہ اتنا بوجھ کیسے سہار سکے گا اور اس سے فاسد مادہ بننا شروع ہوجائے گا جو انتڑیوں میں جم جاتا ہے۔ انتڑیاں کمزور ہوجاتی ہیں اور فضلہ ٹھیک طور پر نہیں خارج کرسکتیں۔ اسی کا نام قبض ہے۔
ڈاکٹر جارج ریلے سکاٹ نے اپنی کتاب ’’تندرست رہو‘‘ میں قبض سے بچنے کی بابت تاکید کرتے ہوئے لکھا کہ آدمی کے رکے ہوئے فضلے میں کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں وہ کیڑے حرکت کرتے ہوئے خون میں جاملتے ہیں اور اس طرح تمام جسم کو زہریلا بنادیتے ہیں اور مختلف امراض پیدا کرتے ہیں۔ قبض سے بچاؤ اور اس کے دفیعہ کیلئے ڈاکٹر مذکور نے اس کتاب میں تدابیر لکھیں جن سے قبض نہیں ہوتی۔
٭ سفید روٹی‘ کیک‘ میدے سے بنی ہوئی دیگر چیزوں کے نزدیک نہ جانا۔ ٭بغیر چھنے موٹے آٹے کی بنی ہوئی روٹی کھاؤ۔ ٭ سفید چینی کی بجائے گُڑ کا استعمال کرو یا اور بھی اچھا ہو کہ اس میں شہد ملالو۔ ٭پالش شدہ چاول نہ کھاؤ۔ ٭مرچ مصالحہ کھٹائی سے پرہیز کرو‘ تمباکو‘ شراب وغیرہ سے پرہیز کرو۔ ٭ حتی الوسع شوربے سے روٹی نہ کھاؤ‘ چبا کر کھانے والی خوراک کھاؤ۔ ٭ آگ پر پکی ہوئی سبزیات کی بجائے بھاپ سے پکی ہوئی کھاؤ۔ ٭کھانے کے ساتھ پانی نہ پئو۔ چبا کر کھانے والی چیزوں کے ساتھ پینے والی غذائیںشامل نہ کرو۔
جوانی کی ماں: اس سے قبل آپ کو بڑھاپے کی ماں کا نام اور کام بتایا جاچکا ہے اس لیے اگر آپ واقعی بڑھاپے کو اپنے آپ سے دور رکھنا چاہتے ہیں یعنی اس کو پیدا ہی نہیں ہونے دینا چاہتے تو اس کو جنم دینے والی ماں کو ہی جہنم واصل کریں۔ اگر وہ حیات رہی تو ضرور اپنے اس پیارے بچے کی پیدائش کا باعث بنے گی۔ جس طرح بڑھاپے کی ماں ہے اسی طرح جوانی کی بھی ماں ہے اور قدرتی طور پر آپ کو اس کے بارے میں جاننے کا بھی شوق ہوگا۔ ہاں ضرور اس کا حسب و نسب معلوم کریں۔ اگر آپ اس کو زندہ رکھیں گے تو لازمی طور پر اپنی ماں کو چھوڑ کر جوانی آپ سے دور نہیں جاسکتی۔ آپ کا اشتیاق جوانی کی ماں سے تعارف حاصل کرنے کیلئے اور بھی بڑھ گیا ہوگا۔ آئیے آپ کو اس سے آگاہ کروں اور وہ ہے ’’ بے فکری‘‘ آپ کتنی ہی اچھی یا احتیاط کی اعتدال کی یا پرہیز کی خوراک کھائیے‘ لیکن اگر دل میں تفکرات موجود ہیں تو سب خوراک بے کار ہے۔ وہ جزو بدن نہیں بن سکتی بلکہ پتھر بن کر جسم کے کسی نہ کسی عضو پر پڑی رہے گی اس لیے بے فکری کا ہونا لازمی ہے۔ دل اور جسم کا اتنا گہرا تعلق ہے اور اتنا نزدیکی ہے کہ ہم نے کبھی اس کا پورا خیال نہیں کیا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ خوش رہنے سے صحت درست اور عمر لمبی ہوتی ہے۔ یہ بات بھی قابل یقین ہے لیکن بے فکری کے بغیر خوشی اورمسرت کہاں… بے فکر انسان ہی راحت اور فرحت محسوس کرسکتا ہے۔ اس لیے خوشی کا انحصار بے فکری پر ہے۔
انسان کی بیرونی صورت اور شگفتگی تب تک پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ ہی قائم رہ سکتی ہے جب تک اس کی ہم آہنگی اندرونی شگفتگی کے ساتھ نہ ہو۔ اگرچہ دور حاضر میں بندر اور دوسرے جانوروں کے غدود انسان کے جسم میں داخل کرنے سے بوڑھوں کو جوان بنانے کے تجربات اور دعوے کیے گئے ہیں لیکن ڈاکٹر اے ایل اور مسنچر جیسے تجربہ کار ماہر کا خیال ہے کہ غدود وغیرہ کا مرکز اس کا دل اور دماغ ہے۔ تمام غدودی نظام کو اعصابی نظام ہی حرکت میں لاتا ہے اور اعصابی نظام کا مرکز انسان کا من یا خیال ہے۔ اس لیے من میں چنتا رہتی ہے تو چنتا یا فکر انسان پر سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ہی بڑھاپا لے آتی ہے۔ فکر اور خوف کے لاحق ہونے پر انسان رات ہی رات میں سیاہ بال بھی سفیدی میں بدل لیتا ہے۔ فکرمند انسان اگرچہ چلتا پھرتا ہے لیکن حقیقت میں ایک لاش چلتی پھرتی ہے لیکن درحقیقت اس کی زندگی‘ زندگی نہیں ہوتی وہ موت سے بھی بدتر ہے۔ فکر ایسی بُری بلا ہے کہ ماں بیٹی سے بیٹا باپ سے جدا کرکے موت کو اپنے پاس بلالیتا ہے اور ناامیدی‘ مایوسی اور غصہ‘ نفرت‘ حسد‘ بغض‘ کینہ‘ کمینگی‘ زندگی سے بیزاری وغیرہ جہاں یہ تمام خاندان موجود ہو وہاں سکون اور آرام کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا۔وہاںتو دکھوں اور تکلیفوں کے شعلے ابھرتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ یہ سب صحت کے بدترین دشمن ہیں۔ اگر صحت نہ رہی تو عمر کہاں ٹھہر سکتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے حالات ہی ایسے ہیں کہ فکر ان کو ہر دم ستاتا رہتا ہے۔ ان کی زبوں حالی ان کو بے فکررہنے ہی نہیں دیتی۔میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آج تک کسی کی بدحالی فکر کرنے سے دور ہوئی ہے؟ کسی بھی تکلیف یا رنج کا علاج بتائیے‘ جب فکر ہماری حالت کو سدھارنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتی تو اس کو جان کیلئے باعث زوال کیوں بناتے ہیں اور سوچنے کا سوال دل سے نکال ہی کیوں نہیں دیتے۔صدیوں پہلے کے ایک پیغمبر فرمانروا حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ شہرۂ آفاق الفاظ تحریر فرمائے کہ دلی مسرت ایک دوا کی طرح کارگر ہوتی ہے۔ آج کی جدید سائنس بھی اس کی تصدیق کرے گی۔ ایک مسرور‘ پرامید زاویہ نگاہ ہر قسم کی تکلیف کاعلاج ہے۔ پس سمجھ لیں بے فکری جوانی کی ماں ہے۔اچھی غذا اس کی بیوی ہے۔ ماں اپنے بچے سے پیار کرتی ہے کیونکہ اس نے جنم دیا ہوتا ہے۔ اس لیے اچھی غذا کی نسبت‘ جوانی قائم رکھنے کیلئے‘ بے فکری کی زیادہ ضرورت ہے۔ایک اور ضروری امر نہ بھولنا چاہیے کہ بڑھاپے کی ماں جس کا ذکر اس سے پیشتر آچکا ہے‘ جوانی کی ماں سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس لیے بڑھاپے کی ماں کی موجودگی میں جوانی کی ماںکو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ قبض کے رہتے ہوئے صحت کی کلی کھل ہی نہیں سکتی اور اس طرح بے فکری یا بشاشت کا حصول قریب ناممکن ہی ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں