میں رات کو پیشاب کیلئے نکلا، پیشاب کررہا تھا کہ نیچے سے کسی چیز کی حرکت سنی دیکھا تو وہ اونٹ کے چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا، میں نے اسے اٹھالیا اور دھوکر پھر اسے جلایا پھر اسے دو پتھروں کے درمیان رکھ کر پیسا اور اسے پھانک لیااور اس پر پانی پی لیا تین دن میں نے اسی پر گزارا کیا۔
حضور ﷺ کیساتھ تنگی اور فاقوں پر صبر:حضرت قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں میں نے حضرت سعد بی ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمیں حضور ﷺ کے ساتھ اپنا وہ وقت یاد ہے کہ جب ہمارے پاس کوئی کھانا نہیں تھا سوائے درخت کے پتوں کے حتیٰ کہ ہم میں سے کوئی ایسے بیٹھتا تھا جیسے بکری بیٹھتی ہے۔
فاقہ و تنگدستی کا یہ عالم:حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے گھر والوں میں سے کسی نے بتایا کہ مکہ میں ہم لوگوں پر حضور ﷺ کے ساتھ زندگی کی تکالیف و سختیاں آئیں پس جب ہم پر آزمائش آئی تو ہم نے اس کو برداشت کیا اور صبر کے ساتھ اس سے گزر گئے‘ میں نے مکہ میں حضور ﷺ کے ساتھ ہوتے ہوئے اپنی یہ حالت دیکھی کہ میں رات کو پیشاب کیلئے نکلا، پیشاب کررہا تھا کہ نیچے سے کسی چیز کی حرکت سنی دیکھا تو وہ اونٹ کے چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا، میں نے اسے اٹھالیا اور دھوکر پھر اسے جلایا پھر اسے دو پتھروں کے درمیان رکھ کر پیسا اور اسے پھانک لیا اور اس پر پانی پی لیا تین دن میں نے اسی پر گزارا کیا۔
حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
جھوٹی دعویدار کیلئے بددعا: ہشام بن عروۃ رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ اروی بنت اویس نے مروان کے پاس حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے خلاف دعویٰ کیا اور کہا کہ اس نے میری زمین چرا لی ہے‘ پس آپ اسے اپنی زمین میں داخل کریں۔ اس کے جواب میں حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ سے یہ سننے کے بعد میں چوری نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺ فرمارہے تھے ’’جس نے ایک بالشت زمین چرائی تو ساتوں زمینوں کی اتنی مقدار کا اس کے گلے میں طوق ڈالا جائے گا‘‘ تو مروان نے کہا اس کے بعد میں تم سے مطالبہ نہیں کروں گا۔ حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے کہا اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اسے اندھا کردے اور اسے اس کی زمین میں موت دے‘‘ چنانچہ اروی کی بینائی چلی گئی اور اپنی زمین میں ایک گڑھے میں گری اور مرگئی۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ
سات سو سواریوں کا قافلہ سامان سمیت صدقہ: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے گھر میں تشریف رکھتی تھیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک آواز سنی جس سے پورا شہر مدینہ لرز اٹھا تو دریافت کیا یہ کیا ہے؟ بتایا گیا یہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا قافلہ ہے جو شام سے آیا ہے اور وہ سات سو سواریاں تھیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میں نے رسول کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے عبدالرحمن بن عوف کو گھسٹتے ہوئے جنت میں داخل ہوتے دیکھا ہے۔ یہ بات حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو پہنچی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں جو بات پہنچی تھی اس کے بارے میں سوال کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان سے یہ حدیث بیان فرمادی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے کہا میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی کو گواہ بناتا ہوں کہ (یہ قافلہ تمام) سامان‘ کجاؤوں اور زین پوشوں سمیت اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ ہے۔
بے شمار مال کا صدقہ: حضرت زہری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضور ﷺ کے عہد میں اپنے آدھے مال کا صدقہ کردیا پھر چار ہزار درہم کا صدقہ کیا پھر چالیس ہزار کا پھر چالیس ہزار دینار کا صدقہ کیا اور پھر پانچ سو سواریوں پر سامان لاد کر اللہ تعالیٰ کے راستہ میں دیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا مال عموماً تجارت سے حاصل کیا ہوا تھا۔ حضرت جعفر بن برقان سے مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تیس ہزار گھر آزاد (وقف) کیے۔
فکر آخرت:حضرت نوفل بن ایاس ہذلی فرماتے ہیں‘ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہمارے ساتھ مجلس کرتے تھے اور آپ بہترین ہم نشین تھے تو ایک دن آپ ہمیں واپس لے گئے حتیٰ کہ ہم آپ کے گھر پہنچ گئے اور آپ گھر میں چلے گئے‘ غسل کیا پھر ہمارے ساتھ روانہ ہوئے اور ہمیں ایک رکابی پیش کی گئی جس میں گوشت روٹی تھی جب وہ رکھی گئی تو عبدالرحمن بن عوف رونے لگے ہم نے پوچھا کیوں اے ابو محمد آپ کو کس چیز نے رلایا؟ کہا رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے کوچ فرماگئے اور آپﷺ اور آپﷺ کے گھر والوں نے کبھی جو کی روٹی بھی سیر ہوکر نہیں کھائی اور ہم اپنی حالت کو دیکھتے ہیں کہ (شاید) ہم اس جہان کیلئے کچھ نہیں چھوڑتے جو اس دنیا سے بہتر ہے۔
خوشحالی کے فتنہ کی فکر:حضرت ابراہیم جو کہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے صاحبزادہ ہیں‘ فرماتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا ہمیں تنگ حالی سے آزمایا گیا تو ہم نے صبر کیا اور ہم پر خوشحالی کی آزمائش آئی تو ہم صبر نہ کرپائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کا خراج تحسین:حضرت سعد بن ابراہیم اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ جس دن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا انتقال ہوا تو میں نے سنا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرما رہے تھے یقیناً تم نے تو دنیا کا خالص زمانہ پایا اور اس کا گدلا حصہ پیچھے چھوڑ گیا۔ (حلیۃ الاولیاء)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں