خصیوں کا طبعی انداز پر ہونا ڈاڑھی کا سبب پیدائش ہے غرض یہ اور اس جیسے بہت سے شواہد اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ ڈاڑھی اور خصیے کے مابین ایک ایسا مخفی تعلق ہے جس سے انکار ناممکن ہے اب اگر ڈاڑھی کو منڈایا جائیگا تو اس مخفی تعلق کی بنا پر یہ مونڈنا ضعف خصتیں اور ضعف باہ کا سبب بن سکتا ہے
مذہبی لحاظ سے ڈاڑھی رکھنا ضروری ہے اور معتبر دلائل سے ثابت ہے کہ ڈاڑھی رکھنا تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور طریقہ ہے۔ نبی آخر الزمان ﷺ نے فرمایا’’دس چیزیں فطرت (یعنی سنت انبیاء) میں سے ہیں (جن میں مونچھوں کا کٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا شامل ہے۔) نیز احادیث میں ڈاڑھی کی بڑی تاکید آئی ہے ایک جگہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’مشرکین کی مخالفت کرو‘ ڈاڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھیں کتراؤ۔‘‘اس طرح ڈاڑھی رکھنا مذہبی لحاظ سے ایک افضل عمل ہے لیکن اس کے ساتھ میں ڈاڑھی رکھنے کے بہت سے طبی مصالح اور فوائد بھی ہیں چند فوائد درج ذیل ہیں:۔بدن انسانی میں تین اعضاء ایسے ہیں جو اطباء کے نزدیک متفقہ طور پر اعضاء رئیسہ و شریفہ کہلاتے ہیں۔ علامہ علاؤالدین قرشی رقمطراز ہیں:۔
’’ضروری قوتوں کا منبع دو تین عضو ہیں جن کو اعضاء رئیسہ کہا جاتا ہے۔ ایک قلب‘ دوسرا دماغ‘ تیسرا جگر‘ (موجز القانون صفحہ نمبر 12) بقاء جسم کا دارومدار انہی پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر ان تینوں میں سے کوئی مبتلائے مرض ہو تو جسم انسان کا سارا نظام بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے اطباء کے نزدیک ان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ ان تینوں اعضاء میں ڈاڑھی سے قریب ترین عضو دماغ ہے۔ اگر ڈاڑھی کا حلق کیا جائے (استرہ یا بلیڈ پھیرا جائے) تو ظاہر ہےکہ اس سے دماغ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ جب دماغ متاثر ہوگا تو اس کا اثر پورے جسم پر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ دماغی قوی اگلے لوگوں کی نسبت بہت کمزور ہیں۔
جناب حکیم شمیم احمد رقمطراز ہیں’’ڈاڑھی سے قربت رکھنے والا ایک عضو آنکھ بھی ہے جو اعضائے ضروریہ میں سے ہے۔ ڈاڑھی منڈانے سے آنکھ ضرور متاثر ہوتی ہے۔‘‘
ایک امریکی ڈاکٹر لکھتا ہے کہ ’’ڈاڑھی پر بار بار استرہ چلانے سے آنکھوں کی رگوں پر اثر پڑتا ہے اور ان کی بینائی کمزور ہوجاتی ہے‘‘ ’’بدن میں کچھ رخیانیت کے سمی اثرات ہوتے ہیں‘ قدرت نے ڈاڑھی وغیرہ کے بالوں کو اندر سے مجوف اور نالی دار بنادیا ہے تاکہ یہ اثرات اس نالی کے ذریعہ خارج ہوتے رہیں اور بدن میں جذب نہ ہونے پائیں۔ اب اگر ڈاڑھی کے بالوں کو مونڈ دیا جائے گا تو اس نالی کا رہانہ جس سے دخانیت خارج ہوتی تھی بالکل جلد کے محاذ میں آجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ سمی اثرات بدن سے خارج ہونے کی بجائے جلد کی سطح پر پھیل جاتے ہیں اور اس سے چہرے کا چمڑا ضرور متاثر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاڑھی مونڈنے والے لوگوں کے چہروں پر کیل مہاسے رونما ہوتے رہتے ہیں۔
حکیم رضوان احمد لکھتے ہیں ’’ڈاڑھی اور خصتین میں اندرونی طور پر ایک مخصوص تعلق ہے مثلاً اگر کسی شخص کے پیدائشی خصیے نہ ہوں تو اس کی ڈاڑھی بھی نہیں نکلتی۔ گویا کہ خصیوں کا طبعی انداز پر ہونا ڈاڑھی کا سبب پیدائش ہے غرض یہ اور اس جیسے بہت سے شواہد اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ ڈاڑھی اور خصیے کے مابین ایک ایسا مخفی تعلق ہے جس سے انکار ناممکن ہے اب اگر ڈاڑھی کو منڈایا جائیگا تو اس مخفی تعلق کی بنا پر یہ مونڈنا ضعف خصتیں اور ضعف باہ کا سبب بن سکتا ہے۔ (منافع الاعضاء‘ ازحکیم رضوان احمد صفحہ 789)
امریکی ڈاکٹر چارلس ہوم رقم طراز ہیں ’’مجھے سمجھ نہیں آتا آخر ڈاڑھی کے نام سے لوگوں کو لرزہ کیوں چڑھتا ہے۔ لوگ جب اپنے سروں پر بال رکھتے ہیں تو پھر چہرے پر ان کے رکھنے میں کیا عیب ہے۔ کسی کے سر پر اگر کسی جگہ سے بال اڑ جائیں تو اسے گنج کے اظہار سے شرم آتی ہے۔ لیکن یہ عجیب تماشا ہے کہ اپنے پورے چہرے کو خوشی سے گنجا کرلیتے ہیں اور اپنے آپ کو ڈاڑھی سے محروم کرلیتے ہیں ذرا بھی نہیں شرماتے جو کہ مرد ہونے کی سب سے واضح علامت ہے۔ لمبی اور گھنی ڈاڑھی گلے کو سردی کے اثرات سے بچائے رکھتی ہے۔ ڈاڑھی والا انسان اپنی ڈاڑھی کی ہمیشہ لاج رکھتا ہے اس میں ایک آن ہوتی ہے جومرد کی شان ہے جو لوگ ڈاڑھی کا مذاق اڑاتے ہیں وہ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہیں اس لیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ڈاڑھی رکھتے تھے۔‘‘
الغرض ڈاڑھی کا مسئلہ صرف شریعت کا نہیں فطرت سلیم کا بھی مسئلہ ہے اس میں بہت سی عقلی مصلحتیں اور طبی فوائد ہیں لہٰذا اس کی خلاف ورزی صرف شریعت سے منہ موڑنا نہیں بلکہ فطرت انسانی اور عقل سے بھی منہ موڑنا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں