جھوٹ کے اعتراف پر مجبور کرنے والے حالات پیدا کرنے پر یا مختلف حیلوں بہانوں سے بچے کے جھوٹ کی تصدیق کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے والدین کیلئے زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ وہ بچے کو آئندہ جھوٹ بولنے سے روکنے کی تدبیر کریں
صوفیہ ‘ لاہور
جھوٹ بولنا بُری عادت ہے اور عموماً بچے اس کا شکار ہوجاتے ہیں تاہم اگر والدین ابتداء سے ہی اپنے بچوں میں جھوٹ بولنے کی عادت کا قلع قمع نہ کریں تو عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ عادت اور بھی پختہ ہوجاتی ہے بلاشبہ بچوں میں جھوٹ بولنے کی ابتدا چھوٹی چھوٹی باتوں اور چھوٹے چھوٹے کاموں سے ہوتی ہے لیکن اگر اس کا انسداد نہ کیا جائے تو یہ وسعت اختیار کرکے بڑے بڑے جرائم اور دیگر سنگین سماجی برائیوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ جن بچوں کو بہتر گھریلو ماحول میسر آتا ہے اور جن کے والدین اخلاقی تعلیم و تربیت پر خصوصی دھیان دیتے ہیں وہ بھی کسی طرح جھوٹ بولنے کی عادت اختیار کرلیتے ہیں‘ ہمارے معاشرے میں اخلاقی اقدار روزبروز مادیت پسندی کے ہاتھوں پامال ہورہی ہیں‘ لوگ مادی آسائش کے حصول میں ناجائز اور جائز ذرائع استعمال کرنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ وہ بچوں کیلئے وقت ہی نہیں نکال پاتے ہیں۔ والدین کی کم توجہی میں بچوں کی پرورش کا ماحول ان پر بہت بُرے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ لہٰذا کوشش کی جائے کہ دنیا کے تمام کاموں کیلئے ہم جس طرح وقت نکال لیتے ہیں اسی طرح بچوں کی تربیت کیلئے بھی وقت نکالیں تاکہ آگے چل کر وہ معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں۔
بعض والدین کا کہنا ہے کہ اگر وہ بچوں پر جبر کریں تو وہ جھوٹ بولنے کا اعتراف کرے گا اور اس کی اصلاح بھی ہوجائے گی لیکن مختلف تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر بچے پر کسی عادت کو چھڑوانے کیلئے جبر کیا جائے تو اس طرح وہ مزید بگڑ سکتا ہے اور اصلاح کی بجائے اس میں مزید بُری عادتیں پیدا ہوتی جائیں گی۔
جھوٹ کے اعتراف پر مجبور کرنے والے حالات پیدا کرنے پر یا مختلف حیلوں بہانوں سے بچے کے جھوٹ کی تصدیق کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے والدین کیلئے زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ وہ بچے کو آئندہ جھوٹ بولنے سے روکنے کی تدبیر کریں۔ مثال کے طور پر بچہ سکول سے گھر تاخیر سے آئے یا دوستوں کے ساتھ کھیلنے میں مشغول ہو یا شام کو گھر دیر سے لوٹے تو آپ کہہ سکتی ہیں کہ ’’چلو! آج تو میں تمہیں معاف کررہی ہوں لیکن آئندہ کوئی بہانہ سننے کو تیار نہیں ہونگی‘ مجھے تمہاری سلامتی کی فکر ہوتی ہے‘ لہٰذا جب گھردیر سے آنے کا امکان ہو تو گھر سے جانے سے پہلے تمہیں اجازت لینا ہوگی۔‘‘ اس طرح بچے کو بھی اعتماد حاصل ہوگا کہ اگر وہ سچ بولے گا تو اسے کوئی سزا نہیں ملے گی اوریوں اس کے جھوٹ بولنے کی عادت بھی آہستہ آہستہ کم ہوجائے گی۔
یہ بات یاد رہے کہ بچے ہمیشہ بڑوں سے اثر لیتے ہیں جب تک بڑے جھوٹ بولنا ترک نہیں کریں گے بچے اپنی یہ عادت کیسے چھوڑ سکیں گے؟
اکثر گھروں میں یہ بات مشاہدہ کی جاسکتی ہے کہ آپ جب کسی سے ملنا نہ چاہ رہے ہوں یا فون پر کسی سے بات کرنا پسند نہ کررہے ہوں تو آپ بہت آرام سے بچوں کو کہہ دیں گے کہ ’’بیٹا! کہہ دو میں گھر پر نہیں ہوں‘‘ یہ بات بظاہر بہت معمولی سی ہے لیکن اس کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ لہٰذا بچوں کی تربیت کیلئے ہمیں خود بھی اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔ جھوٹ کی عادت کو ختم کرنا بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر ہم ذیل کے نکات پر عمل کریں تو بچوں کے لیے جھوٹ بولنا ناممکن ہوجائے گا۔ 1۔ بچوں کو پیار سے سمجھائیں کہ جھوٹ بولنا بُری بات ہے۔ پہلی مرتبہ سمجھانے پر باز نہ آئیں تو انہیں اس بات سے ڈرایا جائے کہ جھوٹ بولنے والے کا منہ کالا ہوجاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ جھوٹ بولنے والے سے سخت ناراض ہوجاتے ہیں‘ اُسے آگ میں ڈال دیتے ہیں یا اس کی زبان جل جاتی ہے۔ بہت چھوٹے بچے اس بات سے ڈر کر جھوٹ بولنا چھوڑ دیتے ہیں۔2۔ اگر جھوٹ بولنے کی عادت بچے میں برقرار رہے تو اسے وارننگ دیں کہ آئندہ ایسی غلطی نہ کرے اگر کی تو سخت سزا ملے گی۔3۔ بچوں کو سچ بولنے پر اور جھوٹ سے بچنے پر ان کی پسندیدہ چیز جیسے ٹافیاں‘چاکلیٹ‘ بسکٹ یا ان کا پسندیدہ کھلونا خرید کر بطور انعام دیں تاکہ وہ خوش ہوجائیں اور یہ سوچ کر ہمیشہ سچ بولیں کہ اس بات پر انعام بھی ملتا ہے۔4۔ جھوٹ بولنا اتنی بُری عادت ہے کہ دنیا کے ہر مذہب نے بڑی سختی سے اس کی مذمت کی ہے‘ خاص طورپر ہمارے مذہب میں اس کی بہت شدید بُرائی بیان کی ہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ نے جھوٹ بولنے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی ہمیشہ لوگوں کو جھوٹ بولنے سے منع فرمایا ہے۔
ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک ایسا شخص آیا جو بڑا گنہگار تھا۔ اس نے آپﷺ سے عرض کی۔ یارسول اللہ ﷺ! میری بخشش کیسے ہوسکتی ہے؟ کیونکہ میں سارے بُرے کام کرتا ہوں اور انہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کرلو‘ اس شخص نے یہ وعدہ کرلیا۔ کہتے ہیں کہ وہ شخص بڑا نیک اور پرہیز گار بن گیا اور اس نے تمام بُرے کام بھی چھوڑ دئیے۔
عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جھوٹے کا کوئی اعتبار نہیں کرتا اور اگر کبھی سچی بات بھی بولے تو بھی لوگ اس کو درست نہیں مانتے۔ جھوٹے آدمی کو فریبی‘ دھوکہ باز اور مکار سمجھا جاتا ہے۔ کوئی اس کی عزت نہیں کرتا ہر کوئی اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ وہ اپنا اعتبار کھوبیٹھتا ہے۔ اس طرح بچے کو بتائیں تو بچہ سمجھ جائے گا اور آئندہ توبہ کرے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں