میرے خدایا۔۔۔! ہم سے ایسی کون سی خطا ہوگئی کہ ہمیں چاروں طرف سے غم کی آندھی نے گھیرلیا‘ میں نماز میں روتے روتے اونچی آواز سے اللہ سے پوچھ رہی تھی‘ ذات کریم سے شکوہ کناں تھی‘ ذہن میں ایک خیال دھماکےکی طرح پھٹا
جاوید چوہدری‘ اسلام آباد
ایک لیڈی ڈاکٹرمقامی ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں‘ دل کی انتہائی سادہ اور ذہین ڈاکٹر ہیں‘ یہ ان کی زندگی کا واقعہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے سسٹم کا عکاس ہے‘ یہ بتاتی ہیں: میرے والد صاحب نےدوسری شادی اس وقت کی جب میں ڈاکٹری کے تیسرے سال میں تھی اور میرے دونوں بھائی کالج اور سکول کے آخری سال میں تھے‘ اباجی نے یہ فیصلہ نہ جانے اچانک کس طرح کرلیا‘ امی سمیت ہم سب گھر والوں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی تھی اور ابو نوبیاہتا بیوی کو گھر لے آئے تھے‘ وہ لڑکی عمر میں مجھ سے چند سال ہی بڑی ہوگی‘ ابو کے اس اقدام سے ہم اندر سے جیسے ہل کر رہ گئے۔ امی جیسے چپ تھیں ویسے چپ ہی رہیں‘ اباجی اپنی دلہن کے ساتھ اوپر کمرے میں شفٹ ہوگئے۔ ہم بچوں کے ساتھ اباجی کا رویہ پہلے کی طرح شفیق اور مہربان تھا لیکن ہمیں اباجی سیڑھیوں پر چڑھتے اور اترتے بیگانے لگتے تھے مگر یہ حادثہ رفتہ رفتہ ہم نے قبول کرلیا۔ ہماری سوتیلی ماں اکثر نیچے اتر آتی اور ہم بچوں کے ساتھ خوب مزے مزے کی باتیں کرتی ‘وہ عورت حسن اخلاق سے آراستہ تھی‘ ہمارا غصہ‘ رنج اور کوفت اس سے مل کر دور ہونے لگی تھی اور ہم بہن بھائی مل کر کبھی اس واقعے کو ڈسکس کرتے تو سوچتے پتہ نہیں اس سانحےکے پیچھے زیادہ قصور وار کون تھا؟ اباجی! جو بغیر بتائے چپ چاپ نئی بیوی لے آئے تھے یا اپنی امی جنہوں نے کبھی اباجی سے گھر ہوتے بات تک نہ کی تھی ہم نے دونوں کے درمیان ہمیشہ سرد جنگ ہی محسوس کی تھی۔ہم چند سال میں تعلیم سے فارغ ہوگئے‘ اباجی ریٹائر ہوگئے‘ ریٹائرمنٹ کے جمع جتھے سے اباجی نے ہم تینوں کی شادیاں کردیں اور ہم سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوگئے‘ اباجی کو اس دوران اللہ تعالیٰ نے دوسری بیوی سے مزید تین بچوں سے نوازا‘ ہماری سگی ماں نے اپنے سینے پر صبر کی سل رکھ لی اور اپنی زبان پر خاموشی کے تالے لگالیے۔ اباجی ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی لحاظ سے خوشحال نہیں رہے تھے‘ اوپر سے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی کفالت کا بوجھ آن پڑا تھا‘ میں چونکہ اس وقت برسروزگار تھی‘ میری پریکٹس بھی خوب چل رہی تھی‘ میری تنخواہ اور مراعات چھوٹے بھائیوں سے زیادہ تھیں‘ میرے شوہر پیشے کے لحاظ سے انجینئر تھے‘ لیکن جدی پشتی گاؤں میں کافی زمین کے مالک تھے‘ اباجی نے ایک دن اپنی معاشی پریشانی سے مجھے مطلع کیا‘ ان کا کہنا تھا ان کی تنخواہ بہت قلیل ہوچکی ہے‘ کٹ کٹا کر محض چند ہزار روپے بچتے ہیں جس سے پانی‘ بجلی‘ گھر کا ٹیکس اور دوسرے اخراجات کا بار اٹھانا ممکن نہیں رہا۔ ایک باپ بیٹی سے مانگتے ہوئے جس طرح شرمسار اور معیوب اور دکھی سا ہوجاتا ہے وہ دکھ میں نے اس دن اباجی کی لرزتی ہوئی آواز میں محسوس کیا۔ میں نے ان سے کہا آپ فکر نہ کریں! آپ نے مجھے اعلیٰ تعلیم دلوائی‘ اتنے اخراجات اٹھائے‘ مجھے آپ کی خدمت کرکے خوشی ہوگی اور یوں میں ہر ماہ پانچ یا چھ ہزار روپے اپنی بچت کے مطابق انہیں بھجوانے لگی۔ میرے شوہر نے میرے رقم بھجوانے پر ذرا برابر بھی احتجاج نہیں کیا۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا۔ اباجی ہارٹ فیل ہوجانے کے سبب انتقال کرگئے‘ اس وقت میرے سوتیلے بہن بھائی بہت چھوٹے تھے‘ میرا سوتیلا بھائی صرف آٹھ سال کا تھا‘ میرے دل میں نہ جانے کیا آیا‘ وہ رقم جو اباجی کی زندگی میں شروع کی تھی میں نے وہ رقم روک لی۔ شاید یہ سوچ کر یہ وعدہ تو اباجی کے ساتھ تھا ‘ان کے بچوں کے ساتھ تو نہیں تھا اور پھر یہ رقم میری محنت کی کمائی ہے چھ سات ہزار کم تو نہیں ہوتے میں کیوں سوتیلے بچوں پر اپنی رقم خرچ کروں؟ آخر سوتیلی ماں کے اپنے خاندان والے بھی تو ہیں وہ اب ان بچوں کی کفالت کریں۔ میری اپنی امی بڑے بیٹے کے پاس رہنے کیلئے چلی گئی تھیں۔ گویا اس گھر کی ذمہ داری کا مجھ پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔
دوسرا مہینہ شروع ہوگیا‘ قدرت شاید میری نیت اور عمل کو دیکھ رہی تھی اس بار بھی میرا رقم بھجوانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا‘ میں نے گھر کے اخراجات کیلئے چیک کاٹا اور بیٹ مین کو بینک بھجوادیا‘ میرا بیٹ مین واپس آیا اور مجھے بتایا میرے اکاؤنٹ میں تنخواہ کریڈٹ نہیں ہوئی‘ میں نے دفتر سے پوچھا تو معلوم ہوا میں پچھلے کئی مہینوں سے ہاؤس رینٹ کی مد میں اوورڈرا کرتی رہی ہوں اس لیے تنخواہ کئی ماہ کٹتی رہے گی‘ یہ آفس والوں کی غلطی تھی لیکن اس کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا‘ میں گھر لوٹی تو ایک اور بُری خبر میری منتظر تھی میرے شوہر جو زمینوں پر گئے ہوئے تھے ان کا وہاں کسی سے جھگڑا ہوگیا‘ جھگڑے کے دوران ان کے ہاتھ سے مخالف پارٹی کے آدمی کو چوٹ لگ گئی اور چوٹ ایسی لگی کہ وہ زندگی اور موت کی دہلیز پر پہنچ گیا‘ مخالف گروپ بھی تگڑے لوگ تھے‘ انہوں نے ایف آئی آر کٹوادی اور پولیس میرے شوہر کو پکڑ کر تھانے لے گئی۔ یہ خبر سن کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ لاکھوں روپے ضمانت کروانے اور پولیس کو کیس خارج کرنے اور مخالف پارٹی کے ساتھ صلح نامے اور علاج معالجے پر لگ گئے‘ میرے شوہر کی نوکری الٹی خطرے میں پڑگئی۔ میرے گاؤں میں پندرہ دن لگ گئے‘ میں گھر لوٹی تو میری چھوٹی بیٹی تیز بخار میں مبتلا ہوگئی‘ میں خود ڈاکٹر تھی‘ اسے سی ایم ایچ لے جاکر سپیشلسٹ کو دکھایا لیکن بچی کا بخار نہیں ٹوٹ رہا تھا‘ ڈاکٹر نے کچھ دوائیاں دیں اور بچی سوگئی اگلی صبح مجھے ڈیوٹی جوائن کرنی تھی‘ بچی کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں ملازمہ تھی‘ پھر بھی میں فون کرکے خیریت دریافت کررہی تھی‘ میں ڈھائی بجے ڈیوٹی سے واپس لوٹی تو بچی ’’ماما ماما‘‘ کہتی میری آنکھوں کے سامنے بے ہوش ہوکر گرپڑی‘ میں اسے لے کر ہسپتال پہنچی اس وقت اس کا بخار 104 ڈگری کراس کرچکا تھا‘ اسے جلدی جلدی انجکشن لگائے گئے‘ سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھی گئیں‘ بخار اترگیا لیکن شام کو پھر شوٹ اپ کرگیا اور اسے مرگی کے دورے پڑنے لگے‘ میرے خدایا۔۔۔! ہم سے ایسی کون سی خطا ہوگئی کہ ہمیں چاروں طرف سے غم کی آندھی نے گھیرلیا‘ میں نماز میں روتے روتے اونچی آواز سے اللہ سے پوچھ رہی تھی‘ ذات کریم سے شکوہ کناں تھی‘ ذہن میں ایک خیال دھماکےکی طرح پھٹا اور میری روح تک زخموں سے چور ہوگئی۔
میں نے ایک خطا کی تھی‘ مجھ سے ایک جرم سرزرد ہوا تھا میں نے اپنے والدصاحب سے کیے وعدے سے انحراف کیا‘ میں نے اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کو پیسے نہیں بھجوائے‘ دودھ پیتے بچے جانے کیسے بلکتے ہوں گے؟ وہ عورت ان کے کھانے کا خرچہ کیسے پورا کرتی ہوگی؟ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے احساس نے مجھے جھنجھوڑ ڈالا تھا‘ میں معافی کے لیے دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک گئی‘ میں نے یتیم بچوں کے آٹھ دس ہزار روکے تھے اوراللہ نے میرے پانچ چھ لاکھ روپے ضائع کردئیے تھے‘ میری بیٹی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوگئی تھی‘ میاں کی نوکری جانے لگی تھی‘ وہ بندہ اگر مرجاتا تو سیدھا قتل کا کیس بن جاتا۔ ایک کے بعد ایک دکھ اور آزمائش کے سلسلے نے میرے اوسان خطا کردئیے تھے‘ میں نے اگلی صبح سب سے پہلے اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کو رقم بھجوائی بلکہ پچھلے ماہ کا بھی حساب کرکے ڈبل پیسے بھجوا دئیے‘ چند دن بعد مجھے دفتر سے اطلاع آگئی کہ آپ کی تنخواہ بحال کردی گئی ہے‘ بیٹی کو اللہ تعالیٰ نے شفایاب کردیا اور اسے دوبارہ کبھی مرگی کے دورے نہیں پڑے‘ شوہر کے ساتھ مخالف پارٹی کی صلح پائیدار ثابت ہوئی۔)
آج میں جو بھی کماتی ہوں اس میں میرے سوتیلے‘ بہن بھائیوں کے علاوہ ناداروں‘ غریبوں اور ضرورت مندوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری کمائی میں بہت برکت ہے اور میں سوچتی ہوں یہ برکت‘ یہ فضل و کرم اور یہ ریل پیل صرف اس وجہ سے قائم ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے بندوں پر خرچ کررہی ہوں۔ میرے سوتیلے بہن بھائی بہت اچھے ہیں‘ سوتیلی والدہ بہت نیک اور باہمت خاتون ہیں‘ میں ان کی زندگی کے ہر مرحلے پر ان کی مدد کرتی رہوں گی جیسے کہ ایک سگا باپ بچوں کی کرتا ہے‘ یہ میری ڈیوٹی اباجی لگاگئے تھے اور اس ڈیوٹی کی انجام دہی میں ہی میری نجات اور میری ساری خوشیاں مضمر ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں