(لڑکے، لڑکیوں اور والدین کے لیے)
لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی جنسی جبلت زیادہ نازک اور خطرناک صورت اس حوالے سے اختیار
کرلیتی ہے کہ کوئی لڑکا جب کسی جنسی مرض کا شکار ہوتا ہے تو وہ چوری چھپے اپنے لیے کسی حکیم یا ڈاکٹر سے اپنے لیے دوا حاصل کر لیتا ہے اور تلاش بسیار کے بعد بالآخر اچھے اور مخلص معالج تک پہنچ کر اپنا علاج کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن.... لڑکی اپنے خاندانی‘ روایتی معاشرتی ماحول کی وجہ سے اس مرض کا اظہار نہیں کر پاتی۔ وہ چوری چھپے کسی معالج کے پاس نہیں جا سکتی یہاں تک کہ اپنی ماں اور بہن یا بھابھی تک سے بھی بات کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہے۔ بعض اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر شادی شدہ خواتین اپنے خاوندوں تک سے اپنا مرض پوشیدہ رکھنا ضروری خیال کرتی ہیں۔ اس غیرضروری شرم و حجاب‘ والدین کی تنگ نظری‘ اور شوہروں کی کم فہمی اور لاعلمی عورت میں ڈپریشن کا عنصر پیدا کر دیتی ہے اور بعض اوقات نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ ہر بات کا مطلب الٹ سمجھنے اور لڑنے جھگڑنے لگتی ہے ۔غصے کے عالم میں اپنے کپڑے پھاڑ دینا‘ گھر والوں کے ساتھ بدسلوکی یا بچوں پر بلاوجہ انتہائی تشدد اس کا وطیرہ بن جاتا ہے۔ اہل خانہ اس کی اس حالت سے ہر وقت ہراساں اور خوف زدہ رہنے لگتے ہیں۔ وہ اس سے بات چیت کرنے اور سامنا کرنے سے بھی گھبرانے لگتے ہیں۔ اور مریضہ مزید تنہا رہ جاتی ہے اور اس کا مرض پاگل پن کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میںخصوصاً ہر پانچویں عورت اس مرض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ بعض کی علامات کسی اور نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اس مرض میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ عورت کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے اندر یہ مرض موجود ہے اس مرض کا اثرذہن اور مزاجی کیفیت پر ہوتا ہے۔ روپے پیسے والے مالدار لوگ صرف ذہنی کیفیت کو سامنے رکھ کر سپیشلسٹوں کے چکر میں الجھ جاتے ہیں اور غریب طبقہ تعویذ گنڈوں اور ڈبہ پیروں کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور بعض اوقات تو عزت و ناموس کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اس طرح یہ زنانہ مرض ایک معاشرتی قباحت بن کر رہ گیا ہے۔
مرض عورت کی اندرونی مشینری جسے رحم کہتے ہیں، میں ہوتا ہے۔ ابتداءمیں شادی سے قبل یا بعد میں ہلکا سا بگاڑ ہوتا ہے۔ جسے عورت محسوس نہیں کرتی اور اگر محسوس کرے بھی تو خواتین میں موجود قدرتی طور پر قوت مدافعت کی زیادتی کے سبب پرواہ نہیں کرتیں اور اس کے علاج کی طرف دھیان نہیں دیتیں۔ اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ یہ بگڑ کر ایسی صورت اختیار کر لیتا ہے جس کی علامات کا تعلق براہ راست ذہن سے ہوتا ہے۔ جس کی ابتداءافسردگی‘ پژمردگی اور یاڈپریشن سے ہوتی ہے۔ مریضہ کی شگفتگی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ ہر چیز،ہر بات اور ہر صورت حال کا تاریک پہلو دیکھتی ہے۔ آہیں بھرتی اور ذرا سی بے مزگی ہو جائے تو وہ غصے میں آجاتی ہے۔ جذبات میں ذرا سی بھی اکساہٹ پیدا ہو جائے تو وہ رونے لگتی ہے۔ زندگی سے مایو س ہو جاتی ہے اور اس میں پاگل پن کا رجحان پرورش پانے لگتا ہے۔ اس کے دل سے شوہر‘ بچوں یا والدین اور بہن بھائیوں سے پیار اور محبت کا عنصر غائب ہو جاتا ہے۔ جنسی جذبات مردہ ہو جاتے ہیں اور مزاج مسلسل یاڈپریشن کی گرفت میں رہ کر چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ جواباً ہمارا معاشرہ لڑکی میں موجود مرض پر توجہ دینے اور اس کا علاج کروانے کے بجائے بچی پر شک کرنے لگتا ہے اور الٹے رخ پر اس طرح کی آرا کا اظہار شروع ہوجاتا ہے کہ ”یہ کسی کو دل دے بیٹھی ہے یا اب یہ چاہتی ہے کہ میری شادی کر دی جائے“۔ اور بعض نادان مائیں تو باقاعدہ اپنی لڑکیوں کو طعنے بازی کا شکار بنا کر کہنا شروع کر دیتی ہیں کہ ”اب یہ کھسم مانگتی ہے“۔ جو انتہائی نامعقوم اور غلط رویہ ہے۔ ایسی جملہ بازی سے بہتر ہے کہ اپنی بیٹی پر شک کرنے کی بجائے ہمدردانہ رویہ اختیار کرکے مرض تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تاکہ معصوم اور بھولی بھالی بچی کو اس اذیت سے نجات دلائی جا سکے۔ شادی شدہ لڑکیوں کے سسرالی رشتہ دار اپنی بہو کے مزاج کی ان ناخوشگواریوں کو پسند نہیں کرتے۔ طرح طرح کی خاردار باتوں اور طعنوں سے جلتی پر تیل ڈالتے رہتے ہیں۔ خاوند کو شک پڑ جاتا ہے کہ بیوی کا دھیان اس سے ہٹ کر کہیں اور چلا گیا ہے۔ اگر عورت کے بچے ہیں تو روز روز کے جھگڑوں سے ان پر بہت ہی برا اثر پڑتا ہے۔ سسرال والے بہو کے میکے والوں تک شکایات پہنچاتے ہیں کہ ان کی بیٹی منہ پھٹ اور بدتمیز ہو گئی ہے۔ اکثر میکے والے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہیں۔ جواباً مریضہ فرضی بدمزگیوں کی شکایت کرتی ہے اور بات بگڑتی چلی جاتی ہے۔ خودمریضہ کو بھی علم نہیں ہوتا کہ اس کے اندر تولیدی مشینری میں ایک نقص پیدا ہو گیا ہے جو اس کے ذہن پر اثر انداز ہو رہا ہے اور یہ کہنا کوئی مبالغہ آمیزی والی بات نہیں ہوگی کہ کئی گھرانوں میں اس مرض سے لاعلمی اور کم فہمی کی بدولت نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور بعض واقعات میں خودکشی تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔
اب آئیے اصلاح مرض کی طرف۔ میری اس گزارش کے ایک ایک نقطہ پر توجہ دیجئے کہ اگر آپ کی بیٹی بہو‘ بہن‘ بیوی یا ماں کسی کے بھی مزاج میں بلاوجہ تبدیلی آجائے اور وہ غصہ، چڑے چڑے پن اور اداسی کا شکار رہنے لگے یا پھر کسی بھی وجہ کے بغیر اس کے آنسو نکل آئیں یا معمولی معمولی باتوں پر رونا شروع کر دے تو اس کی اس تبدیلی کو نظرانداز نہ کریں۔ غور سے اسے دیکھتے رہیں۔ اگر اس کے چہرے پر خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ اداسی بھی بار بار حملہ آور ہوتی نظر آئے تو گھر کی خواتین سے کہیں کہ اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیں اور گاہے بگاہے باتوں کے دوران اس سے یہ پوچھنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے اندر کوئی گڑ بڑ تومحسوس نہیں کرتی۔ خیال رہے کہ کچھ عورتیں طبعاً غصیلی ہوتی ہے اور وہ اپنی اس عادت پر قابو پانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتیں لیکن وہ خواتین جو طبعاً تو شگفتہ مزاج ہوں اگر ایسے دوروں کا شکار رہنے لگیں توایسے کیس انتہائی اور پہلی توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔ کیونکہ خوش مزاج اور شگفتہ رہنے والی خواتین کا کسی ظاہری وجہ کے بغیر اداس یا غصیلا ہو جانا رحم کی کسی خرابی کی طرف واضح اشارہ ہوتا ہے۔
رحم کی خرابیوں کے چند ایک اسباب ہوتے ہیں جن میںغیر ضروری شرم و حجاب پہلے نمبر پر آتا ہے اور بے احتیاطی دوسرے نمبر پر۔ دراصل یہی وہ دو اہم خرابیاں ہیں جنہیں اتائیوں اور اشتہاری حکیموں نے ”پوشیدہ امراض“ کا نام دے کر مزید پراسرار بنا ڈالا ہے۔ اس سے عام طور پر یہ خیال مزید جڑ پکڑ لیتا ہے کہ عورت کے امراض ایک بھید اور ایسا شرمناک راز ہے جسے زبان پر لایا نہیں جاسکتا اور بقول بعضے ایسے شرمناک راز کے بارے میں زبان نہ کھولنے کے سبب ہماری خواتین مختلف امراض کا شکار ہو کر چڑچڑی‘ بدمزاج اور غصیلی ہو کر پاگل پن کی حدود تک پہنچ جاتی ہیں اور جو پاگل نہیں ہوتیں وہ دراصل اندر ہی اندر اذیتیں سہہ رہی ہوتی ہیں۔ لیکن نام نہاد اتائیوں کے پھیلائے زہریلے لفظ ”پوشیدہ امراض“ کی وجہ سے اپنی تکلیف زبان پر نہیں لاتیں۔ میں ایک معالج کی حیثیت سے لڑکی کے والدین اور سسرالیوں سے درخواست کروں گا کہ آپ لوگ حقائق سے چشم پوشی کرکے اپنے گھر کا سکون تباہ نہ کیجئے اگرآپ میں حقیقت پسندی کو قبول کرکے اپنی خاتون سے بات کرنے کی جرا ¿ت نہیں تو یہ مضمون اسے پڑھنے کیلئے دیجئے تاکہ وہ ان سے روشنی حاصل کرکے اپنی والدہ‘ بہن‘ یا سہیلی سے اپنے مرض کے بارے میں کھل کر بات کر سکے اور افسردگی‘ یاڈپریشن‘ اداسی‘ چڑچڑے پن اور غصیلی طبیعت پر قابو پا سکے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں