میں اپنے بیوی بچوں اور معاشرے سے پوچھنا چاہتا ہوں آخر میرا قصور کیا ہے؟ بچوں نے آج تک جو منہ سے بات نکالی میں نے پوری کی‘ حلال کمایا اور حلال ہی کھلایا۔ کیا اولاد ایسی ہوتی ہے؟ شاید یہ میرے کسی گناہ کی مجھے سزا مل رہی ہے
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں عبقری رسالہ بڑے شوق سے پڑھتا ہوں‘ عبقری رسالہ میرے غموں کا مداوا ہے‘ میں ہر ماہ بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کرتا ہوں۔ عبقری رسالے سے لے کر بہت سے نسخہ جات میں نے لوگوں کو استعمال کروائے جس سے سینکڑوں نہیں ہزاروں مریض صحت یاب ہوئے۔ اللہ آپ کو اس کا اجر عطا کرے گا‘ اللہ آپ کو ایمان والی زندگی عطا کرے آپ سدا اسی طرح مخلوق خدا کی خدمت کرتے رہیں اور یونہی ہم سب آپ کو دعاؤں سے نوازتے رہیں۔محترم حضرت حکیم صاحب! آج میں قارئین کو اپنی آپ بیتی سنانا چاہتا ہوں اور ان سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں جو باتیں کرنے جارہا ہوں کچھ بھی غلط بیانی نہیں کروں گا اور جو کچھ لکھوں گا سچ لکھوں گا کیونکہ سچ کو آنچ نہیں‘ جھوٹ جھوٹ ہے اور سچ سچ ہے۔
محترم قارئین! میرے 7 بچے ہیں‘ چار بیٹے اور تین بیٹیاں‘ میرے کاروباری حالات کبھی بھی یکساں نہیں رہے‘ زندگی میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ میں نے اپنے بچوں کی بہترین پرورش کی‘ بہترین کھلایا ‘ بہترین پلایا‘ بہترین سکول‘ کالجز سے تعلیم دلوائی۔میں نے اپنے بچوں کو اس قابل بنایا کے وہ ملک کے بہترین اداروں میں نوکری کے فرائض انجام دے سکیں۔ میرے دو بیٹے انگلینڈ میں ویل سیٹل ہیں۔ ماہانہ ٹھیک ٹھاک آمدن ہے‘ دو بیٹے پاکستان میں گورنمنٹ جاب کررہے ہیں اور ان کی بھی ٹھیک ٹھاک آمدن ہے۔ دو بیٹیوں کی دھوم دھام سے میں نے شادی کی۔ اپنا سب کچھ اپنی اولاد پر لٹا دیا۔مگر! آج تک میرے بچوں نے مجھ سے سیدھے منہ بات نہ کی‘ جو کمایا اپنی ماں کے ہاتھ پر رکھ دیا‘ میری بیوی نے بھی کبھی میرا ساتھ نہ دیا۔ پچھلے سال میرا ایک بیٹا انگلینڈ سے واپس آیا۔ ان دنوں میری طبیعت سخت خراب تھی۔ میرے بیٹوں اور میری بیوی سب نے مل کر مجھے گھر سے دھکے دے کر نکال دیا۔ میں نے بچوں کو روتے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ ’’میرا قصور تو بتادو‘ میرا قصور کیا ہے؟‘‘ مگر بچوں اور ان کی ماں نے ایک نہ سنی‘ جب مجھے مین دروازے سے باہر دھکا دیا گیا تو میں نے یہ الفاظ ضرور کہے کہ بیٹا آج اپنے بیمار باپ کو گھر سے نکال رہے ہو تو کل کو تمہاری اولاد بھی تم کواسی طرح نکالے گی‘ قدرت کا نظام ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے‘ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔ مگر میرے دوسرے بیٹے نے چلا کر کہا: کل جو ہوگا سو ہوگا‘ وہ بھی ہم دیکھ لیں گے تو فی الحال یہاں سے نکل۔ پچھلے سال سے میں اپنے غریب بوڑھے والدین کے گھر میں رہ رہا ہوں میری خود کی عمر 52 سال ہے۔ میری دو بیٹیوں کی شادی ہوچکی ہے جو کہ بیرون ملک ہیں‘ کبھی انہوں نے باپ کا آج تک فون کرکے حال نہیں پوچھا‘ میں خود رابطہ کرلوں تو بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتیں۔ میری بیوی نے ایک بیٹے کی شادی کی مگر مجھے بلانا تو بڑی دور کی بات پوچھا تک نہیں۔ میں اپنے بیوی بچوں اور معاشرے سے پوچھنا چاہتا ہوں آخر میرا قصور کیا ہے؟ بچوں نے آج تک جو منہ سے بات نکالی میں نے پوری کی‘ حلال کمایا اور حلال ہی کھلایا۔ کیا اولاد ایسی ہو تی ہے؟ شاید یہ میرے کسی گناہ کی مجھے سزا مل رہی ہے‘ ہاں! ایک غم مجھے اندر سے کھائے جارہا ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو دنیا
کی ڈگری تو دلا دی اے کاش میں اُن کو آخرت کی ڈگری بھی دلادیتا‘ اے کاش! میں اپنے بچوں کو دین بھی سکھادیتا۔ میری قارئین سے گزارش ہے کہ میرے لیے دعا کریں کہ مجھے کسی طرح سکون مل جائے‘ میرے بچے مجھے واپس مل جائیں۔ محترم حضرت حکیم صاحب میرا یہ پیغام عبقری کے قارئین تک پہنچادیں کہ اپنے بچوں کو دنیاوی ڈگری کے ساتھ ساتھ آخرت کی ڈگری بھی ضرور دلائیں ایسا نہ ہو کہ کہیں میری طرح بڑھاپے میں در در کی ٹھوکری کھاتے رہیں۔ ابھی بھی وقت ہے سوچ لیں!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں