السلام علیکم ! آپ کا رسالہ پڑھنے کا اتفا ق ہوا ۔ آپ نے نئے لکھنے والو ں کو دعوت دی ہے کہ وہ کوشش کریں ،نو ک پلک ہم سنواریں گے ۔ ادنیٰ سی کو شش حاضر ہے ۔ گو میں مستقل لکھنے والی نہیں ہو ں مگر ایک سچے واقعہ نے مجھے قلم اُٹھانے پر مجبور کردیا ہے ۔ہما رے علا قے میں ایک طا ہر ہ نام کی عورت رہتی تھی ۔ اس کے بیٹے کی منگنی بڑی دھوم دھام سے ہوئی ۔ لڑکی بہت پیا ری تھی ۔ سب طا ہر ہ کی قسمت پر رشک کر رہے تھے ۔ ایک ما ہ بعد طا ہر ہ مجھے ملنے آئی ۔ میں نے پو چھا بیٹے کی کب شا دی کر رہی ہو ؟کہنے لگی میں تو منگنی توڑنے کا سو چ رہی ہو ں ۔ بہت پریشان ہو ں۔ میں نے کہا ایسا کیو ں کر رہی ہو ؟ اس نے بتا یا کہ لڑکی کی ما ں جو اپنے بھا ئیو ں کے گھر میں رہتی ہے اس نے کہاتھا کہ لڑکی کے با پ نے امریکہ جا کر شا دی کر لی ہے اور مجھے طلا ق دے دی ہے لیکن اب پتہ چلا ہے کہ لڑکی کی ما ں نے خلع لیا ہے ۔ معمولی سی بات پر لڑکی کی ما ں نے یہ قدم اٹھا یا تھا ۔ لڑکی کا با پ نہایت شریف اور عزت دار آدمی تھا ۔ اس عورت کا مطالبہ تھا کہ میں علیحدہ رہونگی جبکہ اس کے ساس سسر بوڑھے تھے اوراس کا خاوند اس کو علیحدہ گھر مہیا نہیں کر سکتا تھا ۔ لڑکی کی نا نی نے اپنی ضداور انا کی بنا پر اس سے طلا ق لے لی ۔ اُ س کے خاوند نے اسے طلاق نہیں دی تھی بلکہ اس نے خود جا کر عدالت سے خلع لے لیا تھا۔ پھر طا ہرہ کہنے لگی اگر ما ں کا یہ کر دار ہے تو بیٹی کا بھی یہی کر دار ہو گا ۔ مجھے تو اپنا بڑھا پا نظر آرہا ہے اور میں نے اس عمر میں ایدھی ہو م نہیں جا نا ہے ۔ میرا دل بہت خرا ب ہو ا ۔ لڑکی کی معصوم شکل یکا یک میرے تصور میںگھومنے لگی۔ میں نے طا ہر ہ سے کہا ” ما ں کی سزا بیٹی کو “یہ کہا ں کا انصا ف ہے؟خلع تو آج کل عدالتوں میں جج یو ں با نٹ رہے ہیں جیسے ریوڑیا ں بٹ رہی ہو ں۔ پہلے والدین لڑکی کو بٹھا لیتے تھے مگر طلا ق یا خلع اُن کے لیے ایک نا سور سے کم نہیں ہو تا تھا۔ مائیں رخصتی کے وقت یہی کہتی تھیں، بیٹی سسرال کے ہا ں سے اب تمہا را جنا زہ ہی نکلے گا ۔ بیٹی وہ بات پلے باندھ لیتی تھی ۔ وہ اپنا تن من دھن سسرا ل والو ں کی خدمت میںلگا دیتی تھی اگر بیٹی رو بھی رہی ہو تی اور والدین آجا تے تو فوراً وہ سر درد کا بہانہ بنا لیتی تھی ۔ جب لڑکی کی شا دی ہو تی ہے تو میکہ پیچھے رہ جا تا ہے ، سسرال آگے آ جاتاہے ۔ سسرال کسی جنت کا نام نہیں ہے، جنت بنانا پڑتا ہے ۔ ایک وقت آتا ہے کہ لڑکی سب پر را ج کرتی ہے ۔ صبر ، شکر اور قنا عت سے عزت ملتی ہے اگر ما ں باپ نے تحفظ کا سگنل دیا تو لا ل بتی جلنے سے پہلے لڑکی گھر کی دہلیز پا ر کر کے میکہ آبا د کر لیتی ہے ۔ لڑکی کی آنکھ اس وقت کھلتی ہے ۔ جب ما ں با پ رخصت ہوجا تے ہیں ۔ بھا بھیا ں آجا تی ہیں پھر وہ سو چتی ہے با پ کے محل سے تو خاوند کی جھونپڑی اچھی تھی ۔ جب ایک عورت ما ں بنتی ہے اس کا سارا غرور ، ضد اور انا سب ختم ہو جا تی ہے اگر وہ اس کو بر قرار رکھتی ہے تو اس کا گھرمشکل سے ہی آبا درہ سکتاہے ۔
شا دی کا مقدس بندھن اتنا کمزور ہے کہ جب مر د کا دل چاہے طلا ق دے دے یا عورت چاہے خلع لے لے ۔ جو اس رشتے کو توڑنے میں پہل کر ے ، اسے اسی دنیا میں (چاہے مر د ہو یا عورت )سزا ملتی ہے ۔ نبھانے والی عورتیں تو سوکنو ں کے ساتھ بھی نبھا جا تی ہیں ۔ چھ چھ نندو ں کو اپنی قربانیو ں سے رخصت کر تی ہیں ۔ مر د کا بو جھ بٹانے کے لیے اپنی زندگی قر بان کر دیتی ہیں ۔
بڑے سچ کہتے ہیں کہ لڑکی سے زیا دہ ما ں کو دیکھو۔ میں نے طاہر ہ کے آگے ہا تھ جو ڑ کر کہا کہ ما ں کی سزا بیٹی کو نہ دو ۔ ہو سکتا ہے وہ لڑکی ما ں کی اس جلد با زی سے سنبھل گئی ہو ۔ اس میں قوت بر داشت آگئی ہو ، ایسی لڑکیاں زیادہ اچھا گزارہ کرتی ہیں ۔وہ اس لیے ایسا کر تی ہیں کہ وہ ما ں کا داغ دھونا چا ہتی ہیں۔ شکر ہے کہ میری یہ بات طا ہر ہ کے دل کو لگی ۔ شادی ہو گئی ! طاہر ہ کے بیٹے کی شا دی ہو نے کے کچھ عرصہ بعد میری طاہر ہ سے ملا قات ہوئی تومیں نے پو چھا سنا ﺅ ! کہنے لگی میری بہو بہت تابعدار ہے ۔ میں تو ایسے زندگی گزار رہی ہو ں ، جیسے جنت میں میرے بقیہ دن گزر رہے ہوں حالانکہ میری بہو ما ں کے گھر کوئی کام نہیں کر تی تھی۔ اس نے آتے ہی کچن سنبھال لیا ہے۔ میری بہو تو کنواری نندو ں کو بھی کا م نہیں کرنے دیتی کہتی ہے کہ تم مہمان ہو حتیٰ کہ دیور وں کے کپڑے استری کر تی ہے ۔ صبح کے وقت اگر کسی دیور نے جلدی میں نیند سے بیدار کر کے نا شتہ ما نگ لیا تو ذرا بھی ناگواری کا اظہا ر نہیں کر تی ۔ میر ی بیٹی کی شا دی پر میرے حالات بہت تنگ تھے ،اپنا ایک سونے کا سیٹ بیچ دیا اور میری بیٹی کو عز ت سے رخصت کیا ، کبھی اپنی والدہ سے میری بہو نے کوئی شکایت نہیں کی ۔ اول تو میری بہو والدہ کو فون کرتی نہیں اگر میں کہو ں تو بڑے ادب سے جواب دیتی ہے کہ میری نانی کے ہر وقت فون اور دخل اندازی سے میری ماں پر خلع کا دھبہ لگا ہے ۔ میری سب سے التجا ہے کہ رشتے کر تے وقت ماں کی سز ابچیو ں کو نہ دیا کریں ورنہ وہ کٹی ہوئی پتنگ بن جائیں گی۔ بیٹیوں کو 3 زیور وں سے ضرور آراستہ کردیں ۔ صبر ، شکر ، قناعت ۔عور ت میں اگر وفا ہو تو پھر اللہ کے فضل سے ہر آزما ئش سے نکل جا تی ہے پھراللہ پا ک اس کی با گ دوڑ سنبھال لیتا ہے ۔ وہی اس کا حامی و نا صر ہو جا تاہے ۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 613
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں