Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

اللہ سے باتیں کرنے کا انعام

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2015ء

اللہ سے باتیں کرنے کا انعام:ایک اللہ والے خط میں لکھتے ہیں اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے متاثرین کو مفت معاوضے کی ادائیگی کیلئے حکومت نے یونین کونسل کی وساطت سے سرکاری ملازمین پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دیں جو آرمی کی معاونت سے زلزلہ سے متاثرہ گھرانوں کو معاوضہ اور DeathClame جاری کرتی تھی۔راقم بھی ایک ایسی ٹیم کا چیئرمین مقرر ہو ا۔ ٹوٹے ہوئے مکانات کے معاوضے کی ابتدائی قسط پچیس ہزارروپے اور ایسے گھرانے جن کے ہاں اموات ہوئی تھیں ان کے لیے فی آدمی ایک لاکھ روپے DeathClame مقرر ہوا۔ ایک دن DeathClame کا ایک لاکھ روپے والا چیک گم ہو گیا۔ میں بہت پریشان ہوا کیونکہ وہاں توجعلسازی کا خطرہ تھا۔ تمام نظام ڈسٹرب تھے۔ زلزلے نے سب کچھ تہہ و بالا کر دیا تھا۔ ایسا چیک کوئی بھی کیش کروا سکتا تھا ۔میں سوچ رہا تھا کہ کل ڈپٹی کمشنر کو مکتوب لکھوں گا کہ فلاں نمبر کاچیک منسوخ کر دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بندہ اس چیک کو کیش کروا لے۔ دو تین روز کے بعد اچانک میں نے واسکٹ چیک کی تووہ چیک میری جیب میں موجودتھاحالانکہ میں پہلے چیک کرچکا تھا۔کوئی بندہ ڈال گیاتھا۔ اللہ جل شانہٗ نے کسی جن کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ جائو وہ چرا کر لے گیا تھا اس چور کی واسکٹ سے اس کی واسکٹ میں ڈال دیں۔ رب آقا ہے۔ساری خدائی اس کے ماتحت ہے۔ رب کچھ بھی کرسکتاہے ‘رب سب کچھ کرسکتاہے اس کے بعد وہ صاحب خط میں لکھتے ہیںکہ ’’میں نے اپنی سوچ کے دھارے بدل دیئے۔‘‘
غیبی امداد کادوسرا واقعہ:پہلی قسط تقسیم ہونے کے بعد دوبارہ ڈی سی آفس مظفر آباد گیا تاکہ مزید رقم، چیک لا کر فہرست کے مطابق تقسیم کروں، مظفر آباد ڈی سی آفس سے پچیس لاکھ روپے کیش اور پندرہ لاکھ روپے کے DeathClame چیک لے کر میں نے اپنے کپڑے کے تھیلے میں پیک کر کے اپنی موٹرسائیکل کے پیچھے رکھ دیئےتاکہ نیشنل بینک سے وہ DeathClame کے چیک کیش کرالوں جب میں اپنے چچا کے گھر پہنچا ،تو دیکھا کہ موٹرسائیکل سے تووہ تھیلا جو پیچھے باندھاہوا تھا غائب تھا۔جس تھیلے میںپچیس لاکھ روپے نقد اور پندرہ لاکھ روپے کے چیک تھے۔
گمشدہ 25لاکھ نقداور 15لاکھ کے چیک کی تلاش: اب میں اسی راستے سے واپس ڈی سی آفس کی جانب سے روزانہ ہوا جہاں سے آرہا تھا۔راستے میں جگہ جگہ موٹرسائیکل کھڑی کر کے بازار میں، دکانداروں سے اور دیگرپیدل چلنے والے افراد سے پوچھتا رہا کہ آپ نے یہاں روڈ پرکوئی گرا ہوا تھیلا تو نہیں دیکھا؟ سب نے انکار کیا ۔
حواس باختہ کی رب سے فریاد: ایک لمحے کیلئے ایسے محسوس ہوا کہ میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں کیونکہ اتنی بڑی گمشدہ رقم نے مجھے حواس باختہ کر دیاتھا۔ میں کافی پریشان ہو گیا ۔میں جب تلاش بسیارکے باوجود مکمل مایوس ہواتو ہجوم سے ذرا ہٹ کر کھڑے ہو کر رب سے باتیں کیںکہ’’ اے اللہ اگر میں نے زندگی میں کوئی ایسا کام کیا جو تجھے پسند ہو تومجھ پر رحم کر کیونکہ میں اب مجبور ہوںاور میری ساری جائیداد بھی اتنی نہیں کہ میں رقم کی ادائیگی کرسکوںاور پھر بات یہ ہے کہ مجبور لوگوں کا مال ہے اوررقم کی گمشدگی پرمیرا کوئی یقین بھی نہیں کرے گا۔ یا اللہ تو ہی میرامولا ہے ۔بس تو ہی مجھ پر کرم فرما۔‘‘ (اللہ والو! اللہ سے باتیں کرنا سیکھ لو۔ )
اور میری رقم مجھے مل گئی!:وہ صاحب خط میں مزید لکھتے ہیں کہ دعا مانگ کر میں اسی راستے پر ایک بار پھر موٹرسائیکل لے کر نکلا جس راستے پر پہلے ڈھونڈ ڈھانڈ کرآیا تھا۔اسی راستے میں لڑکوں کی ایک ٹولی کے پاس رکا ،ان سے پوچھا یہاں اس رنگ کا کوئی تھیلا تو نہیں دیکھا ؟تو ان میں سے کسی نے کہاہاں دیکھا ہے ۔ابھی کوئی 30 منٹ پہلے ایک لڑکا وہ تھیلافلاں خیمہ بستی میں لے کرگیا ہے۔ میں اس لڑکے کی نشاندہی پر اس بچے کے ساتھ خیمہ بستی گیا۔ متعلقہ خیمے کے باہر کھڑے ہو کر آواز دینے لگا کہ وہ میرا تھیلاجو تمہارے بچے کو ملا ہے مجھے واپس دو اور وہ تھیلااس رنگ کا ہے۔ اندر خاتون موجود تھی ،میں نے اس خاتون سے کہا کہ ابھی کچھ دیر پہلے تمہارا بچہ جو تھیلالے کر آیا ہے وہ میرا ہے وہ مجھے دے دو ۔
رقم صحیح سلامت تھی:کوئی30 سیکنڈ کے انتظار کے بعد دوبارہ اس خاتون کے ہاتھ میں وہی تھیلا تھا اور بالکل کھلا ہوا نہیں تھا اور اس میںوہ سب کچھ موجود تھا جو میرا تھا اور جس کا میں امین تھا اور جو مجھے زلزلہ سے متاثر ہ بے گھر لوگوں تک پہنچانا تھا۔ آگے لکھتے ہیںکہ’’ تھیلا دیکھ کر بے اختیار میری آنکھوں سے شکر کے آنسو نکلے ۔‘‘سبحان اللہ! سچے دل سے اور رزق حلال کھا کر مانگی ہوئی دعا کبھی رد نہیں ہوتی ۔آگے لکھتے ہیں میری امانت مجھے مل گئی ۔ وہ لڑکا جس نے تھیلے کی نشاندہی کی تھی پہلے اس سے جب میں پہلے چکر پر آیا تھا تب بھی میں نے اس سے پوچھا تھا اس نے تب بھی انکار کیا تھا ۔لیکن دعا کے بعد اس نے نشاندہی کی۔
مولانا ظہور احمد بگھوی رحمۃ اللہ علیہ کا خادم ’’منیر احمد‘‘
سرگودھا کے ساتھ بھیرہ کا مقام ہے وہاںمولانا ظہور احمد بھگوی صاحب رحمتہ اللہ علیہ بڑےعالم گزرے ہیں۔ ان کا ایک سفیر تھا جو ان کا خادم بھی تھا، اس کا نام منیر احمد تھا۔ بڑا مزاحیہ تھا ۔بعض بندے ایسے مزاحیہ ہوتے ہیں کہ بات سے بات نکالتے ہیں۔ عقل کو دیوانہ اور حیران کر دیتے ہیں۔ وہ مزاح کرتا تھا۔ ایک دفعہ کہنے لگا ’’مُڑ ظہور احمدا‘‘ ان کو مولانا ظہور احمد کی بجائے ظہور احمدا کہتا تھا بڑابے تکلف تھا۔ کلکتہ اور ممبئی کے اتنے بڑے بڑے سیٹھ تیرے مرید ہیں کسی کو کہہ کر حج کروا’’ فقیر نوں سوہنےﷺ دا روضہ تے وِکھاں‘‘۔’’ میں وی اللہ دے گھر دا دیدار کراں‘‘ مولانا ظہور احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ ’’تے مُڑ بکواس بند کریسیں‘‘ حتیٰ کہ طے ہوا کہ اسٹامپ پیپر پر اسٹام لکھ کر دے کہ اب تو مذاق نہیں کرے گاتو میں تیرے حج کا بندوبست کرتاہوںاس پر باقاعدہ اسٹامپ لکھا گیامنیر احمد نے اس پر انگوٹھا لگایا ان پڑھ تھا۔ (جاری ہے(
اب حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مرید کو حج کاکہہ دیا انہوں نے سعادت سمجھی کہ ہمارے مرشد کا حکم ہے اس لیے انہوں نے حج کا انتظام کیا۔اس وقت حج کیلئے مکہ بحری جہاز سے جانا ہوتا تھا۔ حضرت کیساتھ دو تین خدام اوربھی تھے، منیر احمد بھی حضرت کے ساتھ تھے، اب حج کیلئے گئے حج کیا،حلق کرایا، حلق سر منڈوانے کو کہتے ہیں اس کے بعد احرام کھولا احرام کھول کر پھر طواف زیارت کرنے گئے، رمی کی، رمی کہتے ہیں شیطان کو کنکریاں مارنا۔
ہن رب نال گلاںکرن دے
واپسی میں اسوقت ٹرانسپورٹ نہ ہونے کیوجہ سے گدھوں اور خچروں پر سفر کرتے تھے ۔ توجب منیر احمد گدھے پر سوار ہوا توکہنے لگا’’مڑ ظہور احمدا۔۔۔!! ہن رب نال گلاں کرن دے‘‘ مولانا ظہور احمدرحمتہ اللہ علیہ کہنے لگے:’’تو پھر مذاق کر رہا ہے؟‘‘منیر احمد کہنے لگاناں! ناں! پھر اللہ سے کہنے لگا یا اللہ ساڈے جھنگ دا اک رواج ہے۔ جیڑھا جنھاوڈا خبیث ہوندااے ‘‘جتنا بڑا مجرم ہوتا ہے جتنا بڑا چور ہوتا ہے اتنا اس کا منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھا دیتے ہیں اور سر مونڈ دیتے ہیں۔ ’’اللہ پاک سر دے وال وی گئے تے کھوتے اُتے وی بہہ گیا، تے مڑ ہن بخشش نہ ہوئی تے گل نہ بنی ۔‘‘مولانا ظہور احمدرحمتہ اللہ علیہ کہنے لگے ’’تو مڑ بکواساں شروع کردیتیاں نے ‘‘منیر احمد کہنے لگا ناں! ناں! ظہور احمدا’’ ہن رب نال گلاں کرن دے ‘‘
بس اب یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں ایک صاحب کمال درویش، وقت کے ابدال وہاں سے گزر رہے تھے کیونکہ جتنی بھی باکمال ہستیاں ہوتی ہیں حج پر مکہ میںضرور ہوتی ہیں۔ وہ وہاں سے گزرنے لگے توکہنے لگے ’’بھئی کیا کر رہے ہو؟ اس کو باتیں کرنے سے نہ روکو ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ جس کیفیت کیساتھ یہ رب سے باتیں کر رہا ہے اور رب کی رحمتیں اس پر اتر رہی ہیں۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو مولانا ظہور احمدرحمتہ اللہ علیہ فرمانے لگے:’’ بس ہن گلاں کر بس چھوڑ تو جان تیرا رب جانے‘‘ جس کو رب سے باتیں کرنے کا سلیقہ آ گیاوہ پاگیا اس کا کام بن گیا۔
؎ مجھے روز اس کے غم میں یونہی ساری رات جگنا
کبھی چپکے چپکے رونا کبھی دل سے بات کرنا

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 245 reviews.