Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

حضرت حکیم صاحب کی اندرون سندھ آمد

ماہنامہ عبقری - مئی 2016ء

26 فروری بروز جمعۃ المبارک حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم روحانی اجتماع سکھر کیلئے لاہور سے صبح چھ بجے پی آئی اے کی فلائٹ سے تشریف لے گئے۔ لاہور ایئرپورٹ آمد پر مخلصین اور عقیدت مندوں نے حضرت حکیم صاحب کا پرتپاک استقبال کیا اور بڑے خلوص کے ساتھ حضرت حکیم صاحب کو لاہور ایئرپورٹ کے اندر لے کر گئے۔ لاہور ایئرپورٹ کےسٹاف نے حضرت دامت برکاتہم سے مصافحہ کیا اور دعا کی درخواست کی۔ فلائٹ چونکہ کچھ لیٹ تھی تو ویٹنگ ایریا میں انتظار فرمایا۔ وہاں پر حضرت حکیم صاحب نے ساتھ جانے والے احباب کو متوجہ کیا کہ فارغ بیٹھنے کی بچانے لوگوں کو روحانیت کی طرف متوجہ کریں۔ وہاں پر سب سے پہلے حضرت حکیم صاحب نے خود بیٹھے ہوئے مسافروں سے باتیں شروع کیں اور انہیںروحانی اعمال کے فوائد بتانے شروع کیے‘ جس پر بہت سارا مجمع متوجہ ہوگیا اور بڑا پرنور ماحول بن گیا اور لوگ حضرت حکیم صاحب کی شخصیت سے خوب متاثر ہوئے کیونکہ آج سے پہلے شاید کسی نے لاہور ایئرپورٹ کے ویٹنگ روم میں وقت کو اتنا قیمتی نہ بنایا ہو۔فلائٹ ڈائریکٹ نہ ہونے کی وجہ سے حضرت حکیم صاحب کو پہلے اسلام آباد اترنا‘ کچھ دیر اسلام آباد میں قیام کیا‘ اسلام آباد کے عقیدت مند تعلق والے ساتھیوں نے وہاں بھی حضرت حکیم صاحب کو خوب ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ کا بہت زیادہ سٹاف تسبیح خانہ سے تعلق رکھنے والا تھا جس کی وجہ سے وہاں پر بھی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا کیونکہ حضرت حکیم صاحب کی طبیعت پروٹوکول کی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی عقیدت مندوں نے والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ کی وی وی آئی پی ویٹنگ میں انتظار کرتے ہوئے حضرت حکیم صاحب کی ملاقات‘ عطا الحق قاسمی (سینئر صحابی‘ چیئرمین پی ٹی وی) اور چیئرمین واپڈا ظفرمحمود سے بھی ملاقات ہوئی۔ عطاالحق قاسمی سے ملاقات کے دوران جب عبقری کی سرکولیشن کی جب بات آئی تو عطاالحق قاسمی نے بڑے تعجب کا اظہار کیا کہ اس دور میں بھی کوئی رسالہ اتنا پڑھا جاتا ہے۔ وقت کی قلت کی وجہ سے ملاقات کو بڑا مختصر کرنا پڑا۔ پھر حضرت حکیم صاحب نے پاکستان کے بڑے پبلشر جو اس وقت عبقری بھی پرنٹ کررہے ہیں ابن الحسن سے موبائل پر بات کرائی ان کی بات سن کر عطاالحق قاسمی نے تسلی اور حیرت کا اظہار کیا
اور دعاؤں سےنوازا۔وہاں سے سکھر کیلئے جہاز میں بیٹھے تقریباً 12:30 پر حضرت حکیم صاحب کی سکھر آمد ہوئی۔ آپ سیدھا دارالعلوم سکھر تشریف لے گئے۔ سکھر آمد پر جامعہ دارالعلوم سکھر کے مہتمم مولانا نذیراحمدنے حضرت حکیم صاحب کا پرخلوص استقبال کیا اور حضرت حکیم صاحب کی سکھر آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا‘ ان کایہ کہنا تھا کہ سکھر اور اندرون سندھ کی عوام آپ کی آمد کیلئے بہت منتظر ہوتی ہے اور انہوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے حضرت حکیم صاحب سے ہر ماہ سکھر آنے کی پرخلوص درخواست کی۔ وہاں پر موجود مجمع کی طلب اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے حضرت حکیم صاحب نے مختصر کھانے کے بعد درس شروع فرمادیا۔ اندرون سندھ اور کراچی سے ایک کثیرمجمع بشمول خواتین آیا ہوا تھا۔ (خواتین کیلئے علیحدہ باپردہ انتظام تھا‘ کیونکہ جگہ کی کمی ہونے کی وجہ سے خواتین کو قیام کی اجازت نہیں تھی ان کیلئے خصوصی بسوں کا فری انتظام کیا گیا تھا جو انہیں لے کر جاتیں اور آتیں تھیں) مردوں کیلئے تین دن کے وسیع قیام و طعام کا بہترین انتظام تھا۔ تقریباً سوا دو گھنٹے کے درس، دعا اور ذکر کے بعد دوپہر کا لنگر کھلایا گیا۔ آئے ہوئے مجمع کے اوقات کو قیمتی بنانے کیلئے عصر کی نماز کے بعد ختم خواجگان (ذکرخاص) اور خصوصی دعا حضرت حکیم صاحب کے جانشین حضرت مولانا مفتی محمدولیدالرشیدی (استاذ الحدیث جامعہ مدنیہ قدیم، لاہور) نےکروائی۔
دعا کے بعد مجمع کو انفرادی مسنون اعمال میں لگا دیا‘ لوگ مختلف علاقوں سے مسلسل آرہے تھے‘ نماز مغرب کے فوری بعد حضرت حکیم صاحب کے درس کی دوسری نشست شروع ہوگئی جس میں حضرت حکیم صاحب نے وضو اور وضو کے بچے ہوئے پانی کی روحانی اور جسمانی برکات بڑی تفصیل کے ساتھ بتائیں جس پر وہاں موجود مجمع بہت زیادہ متاثر ہوا کہ آج تک وضو کی اتنی برکات کسی نے نہیں بتائیں اور اس انداز میں کسی نے بھی وضو کو نہیں بیان کیا۔ مجمع نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دور حاضر کی ایک بہت بڑی پریشانی ’’رشتوں کا نہ ہونا‘‘ کے بارے میں حضرت حکیم صاحب سے سوال کیا؟ حضرت حکیم صاحب نے بارہا کا آزمودہ ایک روحانی ٹوٹکہ ان کو دیا۔روحانی ٹوٹکہ درج ذیل ہے۔
جس لڑکے یا لڑکی کی شادی نہ ہورہی ہو یا کوئی کسی بھی قسم کا مسئلہ ہو اس کے وزن کے برابر چاول لیں‘ چاول کچے ہوں‘ ٹوٹا چاول سستے لیں‘ ان چاولوں میں سےایک مٹھی چاول علیحدہ کرلیں۔ اس کے ہر دانہ پر اَللہُ الصَّمَدْ پڑھیں۔ صرف گھر کے افراد پڑھیں۔ایک فرد پڑھیں یا چند افراد‘  لیکن ہرچاول پر پڑھنا ضروری ہے۔ اس مٹھی کو تمام باقی چاولوں میں مکس کرلیں پھر یہ تمام چاول دریا‘ نہر‘ تالاب جہاں مچھلیاں ہوں وہاں ڈال دیں۔نوٹ: گندے پانی میں ہرگز نہ ڈالیں‘ شفاف اور ایسا پانی جہاں مچھلیاں ہوں۔ یہ عمل ایک بار‘ تین بار‘ پانچ بار‘ سات بار اس سے زیادہ بار بھی کرسکتے ہیں۔ تجربات بتاتے ہیں کہ زیادہ بار کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ مجبوراً ضرورت پڑے تو کرسکتےہیں۔اس وظیفے کے پڑھنے کی بدولت بڑی عمر کی لڑکیاںجو اپنی شادی سے ناامید ہوگئی تھیں اللہ کے فضل سے ان کی بھی شادیاں ہوگئی ہیں اور اپنے گھروں میں خوش و آباد ہیں اور لوگوں کے بہت کام ہوئے مشکلیں ٹلیں‘ پریشانیاں دور ہوئیں۔ جتنی عمل میں توجہ زیادہ ہوگی اتنا زیادہ نفع ہوگا۔اتنی بندشیں‘ سفلی عمل‘ بیماریاں اور مشکلات زیادہ جلدی ختم ہونگی۔درس لمبا ہوتاجارہا تھا‘ مجمع کی طلب بڑھتی جارہی تھی‘ بڑی مشکل سے حضرت حکیم صاحب نے مجمع سے اگلی صبح دوبارہ ملاقات کا وعدہ کرتے ہوئے اورمزید ان کو تسبیح خانہ کے فیض سے سیراب کرنے کی تسلی دے کر نشست کو دعا اور ذکر کے بعد ختم کیا لیکن لوگ کہاں اس موقع کو ہاتھ جانے جانے دینے والے تھے عشاء کی نماز اور کھانے کے بعد مجمع کی لمبی قطارلگ گئی ملاقات کیلئے۔
اگلی صبح بروز ہفتہ بعدازنماز فجر سورۂ یٰسین کا ورد ہوا اور پھر حضرت حکیم صاحب کے درس کی تیسری نشست شروع ہوئی۔ اس نشست میں حضرت حکیم صاحب نے روح اور جسم کے تعلق کو نہایت انوکھے اور آسان انداز میں درس فرمایا۔ جس کو موجود مجمع نے بہت زیادہ سراہا۔ اس تمام مجمع میں کثیرتعداد میں تاجر‘صنعت کار‘ سیاسی شخصیات‘ صحافی‘ زمیندار‘مزدور‘دینی طلباء اور علماء کرام بھی شامل تھے۔ یہ درس تقریباً دو گھنٹے ہوا۔اس کے بعد مجمع کوناشتہ کروایا گیا۔درس کے بعد ایک نشست شروع ہوئی جس میں لوگوں نے اپنے روحانی و طبی ٹوٹکے بتائے۔ حضرت حکیم صاحب درس اور ناشتہ کے بعد صاحب عزیمت بزرگ سائیں عبدالجبار صاحب سے ملاقات کیلئےدرگاہ نورو گوٹھ تشریف لے گئے۔ سائیں عبدالجبار صاحب اور ان کے بیٹوں نے حضرت حکیم صاحب کا استقبال کیا۔ سائیں عبدالجبار نے حضرت حکیم صاحب کے ساتھ گئے ہوئے احباب کو حضرت حکیم صاحب کے کام اور روحانی مقام کے بارے میں بتایا اورایک بات فرمائی کہ ’’مقام والا ہی مقام والے کو پہچانتا ہے ‘ تم لوگوں کو اس بندے کی قدر نہیں ہے اور جو کام یہ کررہے ہیں تمہیں اس کام کی برکت و مقام کا اندازہ نہیں۔‘‘ (جاری ہے)
واضح رہیں کہ سائیں عبدالجبار نے حضرت حکیم صاحب کو خلافت و اجازت سے بھی نوازا ہوا ہے۔ سائیں عبدالجبار نے طعام کا بھی اہتمام کیا کیونکہ حضرت حکیم صاحب کی اگلی نشست (درس) کا وقت ہورہا تھا۔ حضرت حکیم صاحب نے ان سے اجازت مانگی تو انہوں نے فرمایا کہ میرا دل نہیں کررہا کہ آپ یہاں سے تشریف لے جائیں کیونکہ آپ جو کام کررہے ہیں وہ سب سے اہم ہے اس لیے میں روکوں گا نہیں‘ سائیں عبدالجبار کے پاس کچھ دیر بیٹھنے کے بعد حضرت حکیم صاحب واپس دارالعلوم سکھر تشریف لے آئے۔ ظہر کی نماز کے بعد درس کی چوتھی نشست شروع ہوگئی۔ مجمع مسلسل بڑھتا جارہا تھا‘ جگہ کی قلت ہونے کی وجہ سے مدرسہ دارالعلوم سکھر کی بیسمنٹ میں بھی آئے ہوئے لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا۔ اس نشست میں حضرت حکیم صاحب نے مختصر اعمال اور ان کے لاجواب کمالات کو ایسے آسان انداز میں کھولا کہ سننے والا مجمع اشک بار ہوگیا۔ درس کے بعد مجمع کیلئے کھانے کا انتظام کیا گیا‘ آئے ہوئے مجمع کو حضرت حکیم صاحب کی طرف سے تحفہ کے طور پر سندھی زبان میں ساماہی رسالہ گھریلو الجھنیں دیا گیا جو کہ عبقری پبلشرز کی طرف سے اندرون سندھ والوں کیلئے ایک خوشخبری ہے۔اسی کھانے کے بعد اندرون و بیرون ملک سے آئے ہوئےساتھیوں کے ساتھ اعمال کا مذاکرہ کیا اورحضرت حکیم صاحب نے لوگوں سے خوشگوار ماحول میں اعمال کے فائدے پوچھے۔
حضرت حکیم صاحب نے اندرون سندھ میں ہندو برادری سے ملاقات کی اور رواداری کے عظیم مثال قائم کی اور انہیں تحفہ کے طور یاہادی یارحیم کا وظیفہ دیا اور اس کے فضائل بھی بیان کیے۔ جس پر ہندوبرادری بہت خوش اور حیران تھی کہ کوئی مسلمان مذہبی سکالر ہمارے پاس چل کر نہایت خلوص سے آیا اور نہایت پیار اور بغیرکسی نفرت کے ہم میں گھل مل گیا اور ہماری پریشانیوں کیلئے ہمیں ایک ’’جاپ‘‘ (وظیفہ) دے کرگیا۔حضرت حکیم صاحب کے دل میں یہ وظیفہ دیتے ہوئے نیت یہ تھی کہ اللہ تو ہادی ہے تو رحیم ہے۔ مولا!ان کےدل تیرے قبضے میں ہے تو ان کے دلوں کو ایمان، اعمال اور نبی کریم ﷺ کی غلامی پر لے آ۔ اس بات کی وضاحت حضرت حکیم صاحب نے ساتھ جانے والے احباب کو کی تھی کہ سارے چاہے وہ ہندو،سکھ یا کسی بھی مذہب والا ہے حضور نبی کریم ﷺ کے امتی ہیں اور حضورﷺ کی امت کا فکر ہمارے ذمے ہے اور یہ فکر قیامت تک ہمارے ذمے ہے۔ بعدازنماز مغرب حضرت حکیم صاحب کی پانچویں نشست (درس) شروع ہوئی۔ اس نشست میں حضرت حکیم صاحب نے اپنے گھروالوں، بہن بھائیوں، بیوی بچوں اور عزیزواقارب کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی اور معاف کرنے کے فضائل اتنے سادہ اندازاور الفاظ سے بیان فرمایا کہ ایک عام دیہاتی آدمی بھی اس کو سمجھ گیا۔ جب حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم صلہ رحمی کو بیان فرمارہے تھے تو وہاں بیٹھا ہوا مجمع اشکبار ہوگیا اور ایک بوڑھے آدمی نے مجمع میں کھڑے ہوکر یہ بات کہی کہ میری عمر اتنی زیادہ ہوگئی اج تک میں نے یہ انداز بیان پہلے نہیں سنا اور سمجھا۔ کیونکہ ہم جس خطے میں رہتے ہیں ہمارے ہاں درگزر اور معاف کرنے کا رواج ہی نہیں ہے اور لڑکی کی غلطی پر کاروکاری (یعنی اسے قتل کردینا) عام بات ہے۔
اتوار کی صبح حضرت حکیم صاحب نے صلہ رحمی کی نیت سے ناشتہ ایک بہت ہی قریبی ساتھی عبدالمعین شیخ (جوکہ حاجی محمد صابر شیخ صاحب کے بیٹے ہیں۔ حاجی محمد صابر شیخ صاحب خانقاہ مسیحا کے بانی الحاج حاجی محمد فاروق رحمۃ اللہ علیہ کے سگےبھائی ہیں) کے ہاں تناول فرمایا۔
چھٹی نشست صبح 9 بجے ناشتے کے بعد شروع ہوئی‘ ناشتہ مجمع کو پہلے کروا دیا گیا کیونکہ مجمع بہت زیادہ ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے نشست دیر سے شروع ہوئی۔ یہ نشست (درس) تقریباً اڑھائی گھنٹے ہوئی کیونکہ گرمی کی شدت بڑھ رہی تھی دھوپ بہت تیز تھی‘ سایہ دان ہونے کے باوجود بھی گرمی زیادہ تھی‘ لیکن اس کے باوجود مجمع کی طلب‘ یکسوئی اور شوق میں کمی واقع نہ ہوئی۔ مجمع حضرت حکیم صاحب کو پیاسی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ اب دوبارہ حضرت حکیم صاحب کی آمد کب ہوگی؟ دعا، ذکر اور مراقبہ کے بعد حضرت حکیم صاحب نے مجمع سے مصافحہ، بیعت فرمائی۔ سترہ وظائف مجمع کو ہدیہ کے طور پر دئیے۔ اس کے بعد حضرت حکیم صاحب وہاں سے روانہ ہوگئے۔ روانہ کرتے ہوئے مجمع اشک بار تھا اور ہر کسی کی آنکھوں ایک ہی سوال تھا کہ حضرت حکیم صاحب دوبارہ کب آئیں گے؟ اور پیاسی دھرتی کو اپنے فیض سے سیراب کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ دین کی خدمت کیلئے کوشاں ہیں لیکن جس طرح آپ نے ہمیں سمجھایا اور بتایا ہے آج سے پہلے ہمیں کوئی ہمیں دین کے بارے میں سمجھا نہیں پایا۔
واپسی سفر پر حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم موہنجودوڑو ضلع لاڑکانہ تشریف لے گئے۔ وہاں جانے سے پہلے حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے احباب کو جو ساتھ سفر میں تھے جمع کرکے فرمایا کہ بھائی میرا وہاں جانے کا مقصد کوئی سیرو تفریح نہیں ہے ایک عبرت حاصل کرنا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد 17 آدمیوں کی جماعت موہنجودوڑو ضلع لاڑکانہ پہنچے۔تسبیح خانہ کے ایک مخلص نے سہ پہر کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ موہنجو دھوڑوکے سابقہ ڈائریکٹر نے وہاں استقبال کیا اور حضرت حکیم صاحب کو وہاں مختلف مقامات پر لے کر گئے کیونکہ شام پونے آٹھ بجے کی حضرت حکیم صاحب کی کراچی روانگی تھی اس لیے مختصر وزٹ کے بعد وہاں سے واپسی ہوگئی۔ واپسی پر حضرت حکیم صاحب نے وہاں کے عملے کو ماہنامہ عبقری، سترہ وظائف ہدیہ کے طور پردئیے اور دعا کروائی۔ حضرت حکیم صاحب جب سکھر ایئرپورٹ پر پہنچے تو وہاں عقیدت مندوں کا ایک وسیع مجمع جمع تھا جنہوں نے کہا: ’’سائیں جاتے ہوئے دعا کروادیں‘‘ حضرت حکیم صاحب نے وہاں ایئرپورٹ پر دعا فرمائی۔اس کے بعد حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کراچی تشریف لائے‘ وہاں مخلصین سے ملاقاتیں کیں اور 29 فروری بروز پیر صبح 9 بجے لاہور پہنچے۔ اللہ تعالیٰ اس سارے سفر کو اور مسافرین کو اخلاص اپنی رضا اور للاہیت نصیب فرمائے۔ آمین!

محمد احمد نور مجزوبی‘ لاہور

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 794 reviews.