عافیت والی ہدایت: بعض اوقات بندے کے ساتھ کئی ایسے معاملات آتے ہیںکہ بندہ انہیںسمجھ نہیں پاتا۔ ہمارے ایک ساتھی ہیں وہ کسی غیر ملک میں جیل میں تھے ۔وہاں انہوں نے چھ ما ہ میں قرآن پاک ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ختم کیا اور پھر ان کے اندر بہت تبدیلی اوربڑا انقلاب آیا۔ اس لیے اللہ سے دعامانگنی چاہئے ’’الہٰی تو بغیر ذلت ورسوائی کے، بغیر پریشانی کے عافیت کے ساتھ اپنی نعمت ،اپنا تعلق اور اپنی محبت عطاء کردے‘‘ ۔ جیل میں جاکر زندگی بدلی تو بھی ٹھیک ہے، لیکن وہ بڑا کریم ہے جیل کے بغیر بھی زندگی کا رخ بد ل سکتاہے۔عافیت والی نعمت بڑی مشکل سے ملتی ہے اور بڑی آسانی سے چھنتی ہے ۔برکت وعافیت ،دو اہم نعمتیں :دو چیزیں انتہائی اہم ہیں ایک ’’برکت‘‘ اور دوسری’’ عافیت‘‘ اور ہم ان دو چیزوں کے بغیرچل نہیں سکتے۔ساری دنیا کے خزانے ہمیںمال دار نہیں کرسکتے جب تک ہمارا رب نہ چاہے۔ ہمارے بزرگ ساتھی ارشاد صاحب جج کے ریڈر تھے ابھی ریٹائر ہو گئے ہیں بڑے تقویٰ والے اوربڑے اللہ والے ہیں۔ ایک دفعہ جج صاحب نے ارشاد صاحب سے کہا کہ میری چالیس ہزار تنخواہ بیس تاریخ کے بعدختم ہو جاتی ہے۔ ارشاد صاحب !آپ کی تنخواہ کتنے دن نکالتی ہے ؟ارشاد صاحب کہنے لگے! میری آٹھ ہزار تنخواہ میں قدرت نے اتنی برکت رکھی ہے کہ میں نے بچوں کی شادیاں کی ہیں موٹرسائیکل بھی خریدی ہے۔ جج صاحب حیرا ن ہو کر پوچھنے لگے ’’یہ کیسے ممکن ہے ‘‘؟تو ارشاد صاحب نے کہا رب العزت نے میرے رزق میں بر کت ڈال دی ہے ۔میراقلم چھ سال ہوگئے ہیں ابھی تک چل رہاہے، پانچ سال اس جوتی کو ہوگئے ہیں ، کپڑے اتنے سال پرانے ہیں۔یہ فلاںچیز کو اتنا عرصہ ہوگیا یہ کریم کی برکت ہے اور اس میں عافیت بھی ہے کہ اللہ نے اس کو توڑا نہیں، موڑا نہیں اوراس کے اندر اللہ نے نفع والی صفت رکھی ہے۔ساری د نیا کا مال ہمیں امیر نہیں کرسکتا ساری دنیا کا پیسہ ہمارا قرض اُتار نہیں سکتا، جب تک ہمارارب نہ چاہے اورہمارا قرضہ تب اترے گا، ہمارے رزق میں ،مال میںبرکت تب آئے گی، ہماری مشکلیں تب حل ہوں گی جب ہمارا رب چاہے گا،یہ سب ایک نظام کے تحت ہوتاہےاور وہ نظام برکت والا اور عافیت والا نظام ہےجس سے ہمارا کام بنے گاورنہ ہمارا کام کبھی نہیں بنے گا ۔
اور جب عافیت چھن گئی: میں سفر سے آیا تو اپنے سسرال گیا۔میرے عزیزمجھ سے کہنے لگے !ہمارے پڑوس میں ایک گھرہے۔اس گھرکا مالک پہلے بہت مال دارتھا۔اب بیچارہ معذورہے۔ گلی میں ویل چیئرپر بیٹھ کرسیخ بناتا اور بازارمیںبیچتاہے۔ میں نے کہا : چلیںاس کی عیادت کر لیتے ہیں۔ڈھائی مرلے کا گھروہ بھی کرائے کا لیا ہوا۔مجھے اندر لے گئے،میںنے ان سے احوال کے بارے میں پوچھا !جواباًکہنے لگے! کہ ’’تقریباََ ۱۵ سال ہو گئے ہیں میں بستر پر پڑا ہوں۔پہلے میری لکشمی چوک میں ماشا ء اللہ تکہ شاپ کے نام سے دکان تھی ایک دن میں بیٹھا ہوا تھا۔ دونوجوان آئے کڑاھی کھانے۔ اس وقت کڑاہی ڈیڑھ سو (۱۵۰) کی بنتی تھی ۔وہ سو (۱۰۰) دینے لگے ۔میں نے کہا جی ڈیڑھ سو (150) کی ہے ۔کافی لے دے کرکے ڈیڑھ سو دے کر چلے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دونوں گاڑی میںآئے اور مجھے گولی ماری، گولی ایک کندھے سے دوسرے کندھے پار ہو گئی، میری ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی ،اس کے اندرکا حرام مغز کٹ گیاتھا۔اس وجہ سے ہسپتال میںرہا ۔اس کے بعدمیری دکان چلتی تورہی لیکن میرا پیسہ کھانے والے دکان کا نفع کھاتے رہے اور مجھ سے خطا یہ ہوئی کہ میں سود پر پیسہ لے کر دکان کے بل ادا کرتارہا۔کہنے لگے! کچھ عرصہ بعدوہی دو نوجوان جنہوں نے مجھے گولی ماری تھی، ایک ایک کرکے قتل ہو گئے ۔پھر میں نے ایک صاحب کو اپنی دکان پچاس لاکھ میں فروخت کی۔ اس نے مجھ سے اسٹامپ لکھوالیا ۔مجھے بھائی بنا لیا۔ میری بیوی کو بہن بنا لیا۔بہت مروت کی۔ بہت محبت دی۔ لیکن بقایا کے اٹھائیس لاکھ مجھے نہیں دیئے۔ کچھ عرصے کے بعد اس کا بھی کہیںجھگڑا ہوامعاملہ کورٹ میں گیا اور وہ ابھی تک جیل میں پڑا ہوا ہے۔ مکافات ِ عمل کا سلسلہ بھی ساتھ شروع ہو رہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بہت زیادہ قرضے کی ادائیگی سرپرہے ۔حالانکہ میں نے اکثر قرضہ ادا بھی کر دیا ہے ۔ پچپن لاکھ کا مکان بیچا ،پچاس لاکھ کی دکان بیچی، ساراسرمایہ ختم ہو گیا۔ قرضے میں دکان بھی ختم ہو گئی۔ ابھی تک میںڈیڑھ سے پونے دولاکھ کامقروض ہوں ۔ گھرکے کچھ اخراجات ہیں ،اب ٹیکسی ہے ، بڑابیٹارات میں اور چھوٹابیٹا جو
چودہ سال کا ہے وہ دن میں چلاتاہے اور اس طرح زند گی کا نظام چل رہا ہے۔میں نے پوچھا ویسے آپ کی آمدنی کتنی تھی ؟کہنے لگے :’’اس وقت چودہ، پندرہ ہزار میری روزانہ کی آمدنی تھی، میری بہترین رہائش تھی ،بہترین گاڑیاں تھیں،لیکن جب عافیت کا نظام چھن گیا تومیرا سب کچھ چھن گیا ۔‘‘مشیت خدا وندی اور ہمارے ارادے: میںعید والے دن گھر سے کچھ احباب کی اورکچھ غریب لوگوں کی خیر خیریت لینے نکلا ، ایک صاحب کی مہران کار تھی اس میں گیا۔میرے دور کے رشتہ دار تھے، میں دانستہ ان کے گھر جانا نہیں چاہتاتھا کیونکہ وہ غریب ہیں ،لیں گے کچھ نہیں اور مروت میںاچھاخاصہ خرچہ بھی کر لیں گے۔ لیکن قدرت بڑی طاقت ور ہے انہی کے گھر کے سامنے گٹر میں گاڑی کا ٹائر چلاگیا۔ اب جو ساتھی نکالنے لگے ،توڈرائیور نے ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھاکرجوویل گھمایا توسارا کیچڑ ان کے کپڑوں پر لگ گیاجو کار نکلوارہے تھے ۔وہیںان کا بیٹا کہیںکھڑا ہواتھا ۔وہ مجھے ماموں ماموں پکارتاہوا آگیا۔ اب اس نے گٹر میں سے گاڑی بھی نکال لی۔ میں نے دل ہی دل میں کہااللہ توبڑاقادر ہے۔پھر میں نے اس سے کہا چل بھئی گھر جاکر پانی والاپائپ لاؤاور ان کے کپڑے تودھودو۔اس طرح مجھے ان کے گھر جاناہی پڑا۔خیر وہ تو اللہ کا نظام ہے۔ ان کے گھرگیا تو اللہ پاک نے ان کا ایک مسئلہ تھا وہ اللہ نے حل فرمادیا۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں