جیسے ہی وہ بدبخت شخص مسجد سےباہر نکلا‘ تو بالکل ہی اچانک ایک پاگل اونٹ کہیں سے دوڑتا ہوا آیا اور اس کو دانتوں سے پچھاڑ دیا اور اس کے اوپر بیٹھ کر اس کو اس قدر زور سے دبایا کہ اس کی پسلیوں کی ہڈیاں چور چور ہوگئیں اور وہ فوراً ہی مرگیا۔
اللہ کو اپنے پیاروں کی توہین ہرگز پسند نہیں!: ایک شخص حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سامنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی و بے ادبی کے الفاظ بکنے لگا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ تم اپنی اس خبیث حرکت سے باز رہو‘ ورنہ میں تمہارے لیے بددعا کردوں گا۔ اس گستاخ و بے باک نے کہہ دیا کہ مجھے آپ کی بددعا کی کوئی پرواہ نہیں۔ آپ کی بددعا سے میرا کچھ بھی نہیں بگڑ سکتا۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو جلال آگیا اور آپ نے اس وقت یہ دعا مانگی کہ یااللہ اگر اس شخص نے تیرے پیارے نبی ﷺ کے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی توہین کی ہے تو آج ہی اس کو اپنے قہر و غضب کی نشانی دکھادے تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہو۔ اس دعا کے بعد جیسے ہی وہ بدبخت شخص مسجد سےباہر نکلا‘ تو بالکل ہی اچانک ایک پاگل اونٹ کہیں سے دوڑتا ہوا آیا اور اس کو دانتوں سے پچھاڑ دیا اور اس کے اوپر بیٹھ کر اس کو اس قدر زور سے دبایا کہ اس کی پسلیوں کی ہڈیاں چور چور ہوگئیں اور وہ فوراً ہی مرگیا۔ یہ منظر دیکھ کر لوگ دوڑ دوڑ کر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو مبارک باد دینے لگے کہ آپ کی دعا مقبول ہوگئی اور صحابہ کرام کا دشمن ہلاک ہوگیا۔ (دلائل النبوۃ ج3، ص207، حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص866)
چہرہ پیٹھ کی طرف پھر گیا: ایک عورت کی یہ عادت بدتھی کہ وہ ہمیشہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے مکان میں جھانک جھانک کر آپ کے گھریلو حالات کی جستجو کیا کرتی تھی۔ آپ نے بار بار اس کو سمجھایا اور منع کیا مگر وہ کسی طرح باز نہیں آئی۔ یہاں تک کہ ایک دن نہایت جلال میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل پڑے کہ ’’تیرا چہرہ بگڑ جائے‘‘ ان الفاظ کا یہ اثر ہوا کہ اس عورت کی گردن گھوم گئی اور اس کا چہرہ پیٹھ کی طرف ہوگیا۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج2 ص866، بحوالہ ابن عساکر)
قبر میں تلاوت: حضرت ابوطلحہ بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کیلئے ’’غابہ‘‘ جارہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی۔ اس لیے میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا جب کچھ رات گزر گئی تو میں نے ان کی قبر میں سےتلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی۔ جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کر آیا اور میں نے حضور اقدس ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے ابوطلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کرکے زبرجد اور یاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیا ہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں‘ پھر صبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج2، ص871 بحوالہ ابن مندہ) تبصرہ: یہ مسند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرات شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں۔
فرشتے گھر کے اوپر اترپڑے:روایت میں ہے کہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے نماز تہجد میں سورۂ بقرہ کی تلاوت شروع کی۔ اسی گھر میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا گھوڑا بھی بندھا ہوا تھا اور گھوڑے کے قریب ہی میں ان کا بچہ یحییٰ بھی سورہا تھا۔ یہ انتہائی خوش الحانی کے ساتھ قرأت کررہے تھے۔ اچانک ان کا گھوڑا بدکنے لگا یہاں تک کہ ان کو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ گھوڑا ان کے بچہ کو کچل دے گا۔ چنانچہ نماز ختم کرکے جب انہوں نے صحن میں آکر اوپر دیکھا تو یہ نظر آیا کہ بادل کے ٹکڑے کے مانند جس میں بہت سے چراغ روشن ہیں اورکوئی چیز ان کے مکان کے اوپر اتر رہی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس منظر سے گھبرا کر قرأت موقوف کردی اور صبح کو جب بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوکر یہ واقعہ بیان کیا تو رحمت دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ فرشتوں کی مقدس جماعت تھی جو تیری قرأت کی وجہ سے آسمان سے تیرے مکان کی طرف اتر پڑی تھی اگر تو صبح تک تلاوت کرتا رہتا تو یہ فرشتے زمین سے اس قدر قریب ہوجاتے کہ تمام انسانوں کو ان کا دیدار ہوجاتا۔ (دلائل النبوۃ ج3 ص205، مشکوۃ شریف ص184، فضائل قرآن) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی تلاوت سننے کیلئے آسمان سے فرشتوں کی جماعت زمین کی طرف اترتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عام لوگ فرشتوں کو دیکھ نہیں سکتے مگر اللہ والوں میں سے کچھ خاص خاص لوگوں کو فرشتوں کا دیدار بھی نصیب ہوجاتا ہے بلکہ وہ فرشتوں سے گفتگو بھی کرسکتے ہیں۔
شہد کی مکھیوں کا پہرہ: حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جنگ بدر کے دن کفار مکہ کے بڑے بڑے نامی گرامی سورماؤں اور نامور سرداروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اس لیے جب کفار مکہ کو ان کی شہادت کی خبر ملی تو ان کافروں کے چند آدمیوں کو اس لیے مقام رجیع میں بھیج دیا تاکہ ان کے بدن کا کوئی ایسا حصہ (سروغیرہ) کاٹ کر لائیں جس سے یہ شناخت ہوجائے کہ واقعی حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (شہید)قتل ہوگئے ہیں چنانچہ چند کفار ان کی لاش مبارک کی تلاش میں مقام رجیع تک پہنچ گئے مگر وہاں جاکر ان کافروں نے اس شہید مرد کی یہ کرامت دیکھی کہ لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیوں کے جھنڈ نے آپ کی لاش مبارک کے اردگرد اس طرح گھیرا ڈال رکھا ہے جس سے وہاں تک کسی کا پہنچنا ہی ناممکن ہوگیا ہے اس لیے کفار مکہ ناکام و نامراد ہوکر مکہ واپس چلے گئے۔ (بخاری جلد2، ص 569 وزرقانی جلد 2، ص73)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں