قارئین کرام! ہمارے معاشرے میں قوت کا لفظ عموماً مرد سے متعلق پڑھا لکھا اور موسوم کیا جاتا ہے حالانکہ یہ لفظ مرد و زن اور اس سے بھی پہلے بچے اور بچی کیلئے بولا اور سمجھا جانا چاہیے کہ انہی بچوں نے بڑا ہوکر مرد اور عورت بننا ہے۔ آج کے مہنگے دور اور نفسانفسی کے ماحول نے مجھے اور آپ کو اور ہمارے بچوں کو یوں متاثر کردیا ہے کہ نوخیز اس کے بعد جوان لڑکیوں کو بچے (سیزیرئن) آپریشن سے ہوتے ہیں اور جن کے ہوتے ہیں انہی کو پتہ ہوتا ہے کہ نئی زندگی ملتی ہے پھر زیادہ سے زیادہ ایک دو تین چار بچے، پھر اور پیدا نہیں کئے جاسکتے اور جسم بھدا بیماریوں سے بھرا ہوا۔ اب لڑکوں کی طرف آئیں تو خوبصورت کڑھے ہوئے جسموں والے‘ باحیا آنکھوں والے جوان کتنے نظر آتے ہیں‘ کھانے اور پینے سے اوپر ان کی سوچ و عمل جا ہی نہیں پاتا۔ ایسا جسم کیا محنت کرے گا! کیا دلچسپی ہوگی! کیا عمل وترقی ہوگی؟ اس کی اکثر مثالیں ہمارے آس پاس اور خود ہم میں موجود ہیں۔ اکثر نوجوانوں میں سپرم (حونیہ منویہ) کی قلت و کمزوری کو ہماری قومی بیماری نہ کہنا زیادتی ہوگی۔ لڑکیوں کے قد نہ بڑھنا‘ داڑھی مونچھوں کا آنا‘ ایام کی خرابیاں ہمارے ہر گھر کی شکایت ہے۔ اس کا علاج کتنا پیچیدہ‘ مہنگا اور بے یقینی نتائج ہیں یہ الگ داستان ہے ایسے میں ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک ایسی آسان تحریر یادہانیوں پر مشتمل ہونی چاہیے جس سے میں اپنا، فی الٖضمیر بیان کرسکوں۔
طاقت کیا ہے؟ آپ کے ہاتھ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں‘ دونوں کو رگڑنے سے ہاتھ گرم ہونے لگیں گے‘ یہ رگڑ کی قوت ہے۔ گیند کو زور سے زمین پر ماریں تو اسی قوت سے واپس چھت کو جالگتا ہے‘ یہ ہے دھکیل کی قوت۔ یہ دو مثالیں ہیں‘ اب دیکھیں کہ ہمارا بنانے والا خالق و مالک کیا فرماتا ہے: ’’ہم نے انسان کو بنایا مشقت اُٹھانے والا‘‘ جو مشقت کرے گا جسمانی وروحانی صحت پائے گا اور یہاں قدر یہ ٹھہری ہے کہ سب کام دواؤں‘ غذاؤں‘ فوڈسپلیمنٹ سے ہوجائے‘ لیکن اکثر ناکامی ہوتی ہے‘ پھر صحیح پٹڑی پر چڑھنے میں دیر ہوجائے تو بیمار زندگی نتیجے میں ملتی ہے۔ پہلے اپنی سوچ ٹھیک کیجئے اس کیلئے اچھی کتابوں اور ماہرین سے فائدہ اٹھائیں۔ ہم علم والوں سے دوررہتے ہیں اور اشتہاری مہم والوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور آخر میں صحیح مشورہ دینے والے تک پہنچتے ہیں تو بہت وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ صحت، وقت، پیسہ، عمر کا نقصان ہوچکا ہوتا ہے۔ پہلے سمجھ لیں کہ جس کام یا چیز کو آپ مال (باقی صفحہ نمبر
و جان وقت دیتے ہیں وہ کام ہوتا ہے اور جس کام کو آپ یہ تین چیزیں نہیں دیتے وہ کام نہیں ہوتا۔ آج یہ تین نعمتیں حاصل ہوں تو بھی اپنی ذات یعنی اپنے جسم اور روح پر نہیں خرچ کرتے۔ جسم کو مٹی سے بنایا گیا ہے اس کی ضروریات مٹی سے پیدا کی گئی‘ روح آسمان سے اتاری گئی ہے اور اس کی غذا قرآن، جو کہ آسمانوں سے اتارا گیا ہے جسم کو پالنے کے تمام وسیلے کپاس، سبزی‘ پھل، پانی سب زمین سے اور روح کا سکون، اندر کا سکون خالق کے بنائے اصولوں میں رکھا ہے ایسا آدمی وہی تو ہوگا جوکامیاب و مطمئن ہوگا۔ نفسیاتی اور روحانی اطمینان: انسان ناسمجھی میں یا شروع سے تربیت نہ ہونے کی وجہ سے الٹی سیدھی حرکتیں کربیٹھتا ہے پھر ان پر نادم ہوتا ہے۔ بے چین، بے کل، غیرمطمئن رہنمائی نہ ملی تو اضطراب بڑھتا گیا۔ ہمارے ہاں بچے کو صرف کھلانے‘ پہنانے‘ پڑھانے پر توجہ دی جاتی ہے اور وقت نہ دینے سے بچے اندر سے خالی‘ آج ہم یہی کچھ کررہے ہیں۔ آج معالج کی نگاہ اللہ کی بجائے مریض کی جیب پر ہے تو یہ تاجر ہے‘ بے لوث ہو‘ باعلم ہو اور صحیح رہنمائی کرے تو اس کے مطابق غذا نہیں کھانی‘ ورزش نہیں کرنی‘ ذہنی سوچ کو درست نہیں کرنا۔ صرف دواؤں اور ٹانک کی تلاش کا سہارا لینا ہے اور میک اپ لباس وغیرہ پر زیادہ توجہ دینی ہے یعنی مریض و معالج کا اپنی اپنی جگہ مخلص ہونا اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ضروری ہے‘ ورنہ صحت حاصل نہ ہوگی۔ اپنے جسم روح پر مال جان وقت خرچ کریں۔ دیکھیں گھنٹوں منٹوں میں تبدیلی آتی ہے کہ نہیں، جسمانی قوت بحال ہوتی ہے کہ نہیں!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں