مجھے تجسس ہوا میں قبرستان پیپل کے درخت کے پاس گیا تو دیکھا درخت کا تنا سٹیل کے کیلوں سے بھرا پڑا تھا۔ تب یہ بات مجھ پر کھلی کہ اصل بات لکڑی میں کیل کا گاڑھنا ہے اور یہ عمل بھی سانس روک کر کیل گاڑھنا ہے‘ کئی سالوں سے یہ عمل کررہا ہوں
ایک دن میں حجام کی دکان میں بیٹھا بال ترشوا رہا تھا کہ ایک آدمی رخسار پر ہاتھ رکھے اور کراہتے ہوئے دکان میں داخل ہوا اور حجام کے تخت پوش پر لیٹ کر ہائے ہائے کرنے لگا۔ حجام کا کوئی قریبی تھا‘ وہ میرے بال چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھنے لگا: ’’اوئے کیا ہوا‘‘ وہ کراہتے ہوئے بولا: ڈاڑھ میں بہت درد ہے‘ دو ٹیکے لگوا بیٹھا ہوں اور ابھی تک آرام نہیں آیا۔ میں کرسی سے اٹھا اور اس کے پاس جاکر پوچھا کس طرف درد ہے‘ اس نے اپنا ہاتھ رخسار سے اٹھا کر بتایا اس طرف درد ہے‘ میں نے شہادت کی انگلی سے لکھا ’’ف ر ع و ن غ ر ق ش د (فرعون غرق شد) اور کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے حجام میرے اور اس کےدرمیان ہاتھ میں قینچی اور کنگھی پکڑے کھڑا تھا۔ اس سے پوچھنے لگا ’’اوئے سنا‘‘ میں نے جتنے اعتماد سے لکھا تھا ویسا ہی مسرت آمیز جواب آیا۔ ’’ٹھیک ہوگیا‘‘ اور قارئین کافی سالوں سے میں یہ علاج کررہا ہوں مریض ہائے ہائے ہائے کرتے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے شفاء دیتا ہے۔ لکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ سانس روک کر لکھنا ہے اور پورے اعتماد سے لکھنا ہے‘ دوسری بات بعض مریض دوسری بار تیسری بار آجاتے ہیں اس وقت آرام آگیا تھا رات سے پھردرد ہے یا صبح سے پھر درد ہورہا ہے اس کیلئے میرے دوست بابا سلطان مرحوم سمسون لکھ کر اس پر موچی والی برنجی (کیل) ٹھونکا کرتے تھے۔ ایک فٹ لمبا اور کچی لکڑی کا ٹکڑا سمسون اور کیلوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے تجسس ہوا یہ کیا لکھتے ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا بھی لیکن ان کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ لفظ کیا ہے؟ اور کہاں سے لیا ہے۔ تب کتابوں اور رسائل کےمطالعہ سے ایک دن معلوم ہوگیا یہ لفظ یاسمعلونی ہے میں یہ لفظ لکھ کر اس کے م ع اور و میں کیل ٹھونکنے لگا۔ طریقہ یہ ہے کہ مریض سے کہا جاتا ہے درد والی ڈاڑھ یا دانت پر انگلی رکھے اس کے بعد م میں کیل گاڑھ دیا جاتا ہے۔ اب مریض سے کہا جاتا ہے انگلی ہٹائے پھر پوچھا جاتا ہے آرام آیا کہ نہیں اگر وہ کہے آرام نہیں آیا تو ع پر کیل گاڑھ دیا جاتا ہے اوردوبارہ انگلی ہٹانے کے بعد پوچھا جاتا ہے آرام آیا اگر وہ کہے آرام نہیں آیا تو دانت یا ڈاڑھ پر تیسری بار شہادت کی انگلی رکھ کر ’و‘ کے سر میں کیل گاڑھی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کےکرم سے تیسری کیل پر آرام آجاتا ہے۔ پھر کئی کتابوں میں پڑھا اب ج د لکھ کر اس پر اس طرح گاڑھے جائیں، ج تک آرام آجاتا ہے‘ آج کل میں اب ج د لکھ کر کیل گاڑھتا ہوں لیکن ایک بات مجھے قدرت کی طرف سے معلوم ہوئی کہ نہ تو یاسمعلونی لکھ کر نہ سمسون لکھ کر اور نہ اب ج د لکھ کر کیل گاڑھنا ہے بلکہ اصل کام لکڑی میں کیل گاڑھنا ہے۔ ہوا یوں کہ میرے محلے کا ایک نوجوان میرے پاس ڈاڑھ درد کی شکایت لے کرآیا میں نےاسے کہا: تین کیل لے آ‘ وہ چار انچ کے کیل لے آیا‘ میں نےاسے کہا اللہ کے بندے موچی والے سے کیل لے کر آ۔ وہ کیل واپس کرنے گیا تو دکاندار نے کہا یار! سامنےقبرستان میں شاہ جی کے پاس چلا جا‘ وہ یہی کیل گاڑھتے ہیں۔ وہ سامنے شاہ جی کے پاس چلا گیا‘ دوسرے دن وہ مجھے ملا تو میں نے کہا: تو کیل لے کر کیوں نہیں آیا‘ کہنے لگا: باباجی آرام آگیا‘ میں نے پوچھاکیسے آرام آگیا؟ کہنے لگا: میں قبرستان میںشاہ جی کے پاس گیا تھا۔ انہوں نے وہ کیل پیپل کےدرخت کے تنے پر گاڑھ دئیے اور مجھے آرام آگیا۔
مجھے تجسس ہوا میں قبرستان پیپل کے درخت کے پاس گیا تو دیکھا درخت کا تنا سٹیل کے کیلوں سے بھرا پڑا تھا۔ تب یہ بات مجھ پر کھلی کہ اصل بات لکڑی میں کیل کا گاڑھنا ہے اور یہ عمل بھی سانس روک کر کیل گاڑھنا ہے‘ کئی سالوں سے یہ عمل کررہا ہوں اسے میں نے بہت مؤثر اور کامیاب پایا ہے۔ اس لیے اسے خلق خدا کی بھلائی کیلئے لکھ دیا۔ انشاء اللہ مجھے جو بھی عمل یا ٹوٹکہ ملا اور میں نے وہ مؤثر اور کامیاب پایا عبقری کیلئے ضرور لکھوں گا تاکہ لاکھوں کا فائدہ اور میرے لیے صدقہ جاریہ!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں