گرمی کی وجہ سے اُس کا بُرا حال ہورہا تھا۔ اس نے تمام کپڑے اتارنے اور قریب بہتی ہوئی ندی میں چھلانگ لگا دی تب جاکر اسے کچھ سکون آیا۔ ہوا اپنے غرور کا سر نیچا ہوتا دیکھ کر بہت شرمندہ ہوئی۔ اس نے سورج سے معافی مانگی اور پھر کبھی اپنی طاقت پر غرور نہیں کیا۔
سورج اور ہوا کی چپقلش
ایک دن سورج اور شمالی ہوائیں اکٹھی ہوگئیں۔ سلام دعا کے بعد سورج نے پوچھا: اے بی ہوا! کیسی ہو کچھ کمزور لگ رہی ہو‘ بی ہوا جو بہت مغرور تھی بولی: بھائی سورج! کیسی باتیں کرتے ہو‘ تم سے تو آج بھی زیادہ طاقتور ہوں۔ جب چاہو مقابلہ کرلو‘ سڑک پر ایک شخص چلا جارہا تھا‘ سورج بولا: بی ہوا! ہم میں سے جو زیادہ طاقتور ہوگا وہ اس شخص کو کپڑے اتارنے پر مجبور کردے گا‘ ہوا لگی زور زور سے پھونکیں مارنے۔ اُس آدمی کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جس میں کوٹ اور کمبل رکھا ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے کوٹ پہن لیا‘ پھر بھی سکڑ رہا تھ۔ بی ہوا نے اور زور سے پھونک ماری تو اس نے کمبل بھی نکال کر اوڑھ لیا‘ بی ہوا بہت زیادہ پریشان ہوئی۔ اب سورج کی باری تھی‘ اس نے آہستہ آہستہ اپنی گرمی کو بڑھانا شروع کیا۔ آدمی نے دل میں سوچا۔ عجیب دن ہے‘ ابھی اتنی ٹھنڈ تی اور اب گرمی ہورہی ہے۔ پہلے اُس نے کمبل تہہ کرکے رکھا۔ پھر کوٹ بھی اتار دیا۔ گرمی کی وجہ سے اُس کا بُرا حال ہورہا تھا۔ اس نے تمام کپڑے اتارنے اور قریب بہتی ہوئی ندی میں چھلانگ لگا دی تب جاکر اسے کچھ سکون آیا۔ ہوا اپنے غرور کا سر نیچا ہوتا دیکھ کر بہت شرمندہ ہوئی۔ اس نے سورج سے معافی مانگی اور پھر کبھی اپنی طاقت پر غرور نہیں کیا۔ پیارے بچو! دنیا میں وہی لوگ عزت پاتے ہیں جوغرور اور تکبر سے ہمیشہ بچتے ہیں۔
بچو! خود غرض دوست سے بچ کر رہنا
ایک دفعہ دو دوست تھے‘ ایک بہت پتلا دبلا اور دوسرا بہت موٹا تھا۔ دونوں دوست نوکری کی تلاش میں اپنے گاؤں سے شہر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا جس میں بہت خوفناک جانور تھے۔ ابھی وہ تھوڑی ہی دور گئے کہ انہوں نے درختوں میں سے ایک موٹا سا ریچھ آتے ہوئے دیکھا۔ پتلے دوست نے تو چھلانگ لگائی اور ایک اونچے سے درخت پر چڑھ گیا۔ موٹا بے چارہ بھی درخت پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ پہلے تو پھسل گیا۔ پھر دوبارہ کوشش کی توٹہنی ٹوٹنے لگی۔ یار مجھے بھی تو اوپر کھینچو، ریچھ قریب آتا جارہا ہے‘ مجھے کھا جائے گا۔ اس نے ڈرتے ہوئے اپنے دوست کو آواز دی۔ دبلا پتلا دوست مزے سے اوپر کی ٹہنیوں میں چھپ کر بیٹھا تھا۔ بولا: نہ بابا نہ‘ میں پاگل ہوں بَھلا، تمہیں اوپر چڑھاتے ہوئے اگر ٹہنی ٹوٹ گئی یا میں خود گر گیا توریچھ مجھے کھا جائے گا۔ میں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ تم جانو اور تمہارا کام۔ یہ سن کرموٹا دوست بہت پریشان ہوا۔ اب ریچھ بہت قریب آچکا تھا۔ موٹا ایک دم سے زمین پر لیٹ گیا۔ اس نےسُن رکھا تھا کہ اگر خاموشی سے لیٹے رہو اور ذرا سی بھی حرکت نہ کرو تو مَرا ہوا سمجھ کر ریچھ کچھ نہیں کہتے۔ ریچھ قریب آیا اور کچھ دیر موٹے کےکان کے قریب آکر سونگھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے لیے موٹےنے اپنی سانس بالکل روک لی تو ریچھ اسے مرا ہوا سمجھ کر اپنی راہ چلتا بنا۔ ریچھ کےچلے جانے کے بعد موٹا جلدی سے اٹھا اور چپ چاپ اپنے راستے پر چل پڑا۔ اب اس کا پتلا دوست بھی نیچے آچکا تھا۔ وہ اس کے قریب آیا اور پوچھنے لگا: ریچھ تمہارے کان میں کیا کہہ رہا تھا؟ موٹابولا: ریچھ کہہ رہا تھا کہ ایسے خودغرض دوست سے تم اکیلے ہی بھلے ہو۔ یہ کہہ کر وہ اکیلا ہی چل پڑا۔ اس کا دوست اپنی خودغرضی پر بہت شرمندہ ہوا۔ پیارے بچو! ہمیں خودغرض دوستوں سے بچ کر رہنا چاہیے۔ دوست صرف وہ ہوتا ہے جو مصیبت کے وقت کام آئے۔
بے وقوف کسان‘ بیٹا اور گدھا
ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ کسی گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا‘ وہ کھیتی باڑی کرکے اپنا اور اپنے بیٹے کا پیٹ پالتا۔ اُس کا ایک گدھا بھی تھا جس پر وہ گندم لاد کر شہر بیچنے جاتا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک سال گاؤں میں قحط پڑگیا اور کوئی فصل نہ ہوئی۔ کسان بہت پریشان ہوا۔ اس نے سوچا کہ ہم شہر جاکر گدھے کو بیچ دیتے ہیں کیونکہ جب فصل ہی نہیں ہوئی تو پھر گدھے کا کیا فائدہ۔ صبح سویرے اس نے اپنے بیٹے عارف کو ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑا۔
جب وہ ندی کے قریب پہنچے تو وہاں کچھ عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں‘ انہوں نے کسان اور عارف کو گدھے کو کھینچتے ہوئے دیکھا تو ہنسنے لگیں۔ کسان نے پوچھا ’’تم ہمیں دیکھ کر کیوں ہنس رہی ہو؟‘‘ ان میں سے ایک عورت بولی: ارے بے وقوف! اگر تمہیں ذرا بھی عقل ہو تو اپنے بیٹے کو ہی گدھے پر بٹھا لو‘ کسان نے اسی وقتعارف کو گدھے پر بٹھایا اور خود ساتھ پیدل چلنے لگا۔ ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ سامنے سے ایک بوڑھی عورت آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جب وہ قریب آئی تو عارف کے سر پر ڈنڈا مارتے ہوئے بولی: بے وقوف لڑکے! شرم کرو‘ تمہارا بوڑھا باپ پیدل چل رہا ہے اور تم گدھے پر بیٹھے ہو‘ اترو نیچے۔ عارف بہت شرمندہ ہوا اور جلدی سے نیچے اُتر گیا۔ اب کسان گدھے پر بیٹھ گیا اور عارف ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ راستے میں انہیں ایک مسافر ملا وہ کافی باتونی تھا۔ ان سے پوچھنے لگا کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔ کسان بولا: ہم شہر جارہے ہیں‘ تو پیدل کیوں چل رہےہو‘ تمہارے پاس تو گدھا ہے پھر تم دونوں کیوں نہیں اس پر سوار ہوجاتے‘ مسافر نے کہا: کسان نے یہ سن کر عارف کو بھی گدھے پر بٹھا لیا۔ اس روز گرمی بڑی شدت کی تھی۔ بے چارہ گدھا بھوکا پیاسا توتھا ہی‘ اوپر سے جب اُس پر اتنا بوجھ پڑا تو ہانپنے لگا۔ بڑی مشکل سے وہ کچھ ہی راستہ گیا تھا کہ قریب ہی کھیتوں سے ایک آدمی چلایا: ’’کچھ تو رحم کرو‘ بے چارے گدھے پر‘ کیا مار ہی ڈالو گے اسے‘‘ کسان بولا: تمہیں کیا! ہمارا گدھا ہے‘ ویسے بھی ہم اسے بیچنے جارہے ہیں‘ اس آدمی نے کہا: ایسی حالت میں تمہیں اس کی اچھی قیمت نہیں ملے گی‘ کسان نے سوچا کہ کیوں نہ گدھے کو ہم خود اٹھالیں۔ اس نےایک رسی سے گدھے کی ٹانگوں کو باندھا اور ایک ڈنڈے سے الٹا لٹکا لیا۔ ایک طرف سے ڈنڈے کو کسان نےاور دوسری طرف سے عارف نے اٹھایا اور چل دئیے۔ جب وہ ایک نہر کے پل سے گزررہے تھے تو گدھے نے ایک زور کی دولتی ماری۔ کسان اور عارف اسے پکڑتے ہی رہ گئے اور گدھا نہر میں جاگرا۔ پیارے بچو! جتنے منہ اتنی باتیں‘ عقل مند انسان وہی ہوتا ہے جو اپنے دماغ سے سوچے اور لوگوں کی باتوں میں نہ آئے۔(انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں