ہم آپریشن کے دوران واپس نہ جاسکتے تھے اس لیے اس کو کوئی طبی امداد فراہم نہ کی جاسکی اس جوان ذکاء اللہ کی لاش اور پہلے جوان عمرحیات کی لاش تین دن تک مقامی کیمپ میں پڑی رہیں نہ تو وہ خراب ہوئیں اور نہ ہی ان میں کوئی بدبو پیدا ہوئی
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! یہ واقعہ مجھے پاک فوج کے ایک جوان محمد سرفراز نے سنایا۔ میں اسی کی زبانی یہ واقعہ قلمبند کررہا ہوں۔ یہ 2009ء کی بات ہے ہم ایک فوجی آپریشن پہاڑی علاقہ میں مقیم تھے‘ ایک دن شام کو ہمیں دشمن پر حملہ کرنے کا حکم ملا‘ ہم سب فوراً آپریشن کیلئے روانہ ہوگئے‘ آپریشن کا علاقہ پہاڑی علاقہ تھا اور گھنے جنگلات پر محیط تھا، ہم درختوں کی اوٹ لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے چونکہ درختوں کے تنے کافی چوڑے تھے اس لیے ایک آدمی آرام سے ان کے پیچھے چھپ سکتا تھا‘ ایک مقام پر پہنچ کر ہم لوگ رُک گئے اور دشمن کی پوزیشن کا اندازہ کرنے لگے‘ دشمن کہیں نظر نہیں آرہا تھا ہم نے آگے بڑھنا چاہا‘ جیسے ہی ہمارا ایک جوان عمر حیات (جن کا تعلق ضلع وہاڑی سے تھا) درخت کی اوٹ سے نکلا‘ گولی چلنے کی آواز آئی اور اس جوان کے بلندآواز کلمہ پڑھنے کی آواز ہم سب نے سنی‘ چونکہ وہ جوان ہم سے پیچھے تھا‘ اس لیے ہم اسے دیکھ نہ سکے‘ہم سمجھے کہ شاید وہ زخمی ہوا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ سر میں گولی لگنے کی وجہ سے وہ جوان کلمہ پڑھتے ہی شہید ہوگیا تھا۔ ہم نے دشمن پر بھرپور حملہ کیا اور دشمن کو بھاری جانی نقصان کےساتھ اس کے قبضہ سے بہت سارا علاقہ کلیئر کروالیا۔ پھر اس جوان کی لاش کو اٹھا کر نزدیکی کیمپ میں پہنچا دیا۔ اس جوان کی لاش تین دن تک اسی کیمپ میں موجود رہی کیونکہ جب تک آپریشن ختم نہ ہوجاتا‘ مین کیمپ سے کوئی گاڑی نہ آسکتی تھی‘ تین دن لاش وہاں رہنے کے باوجود بھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ابھی ایک دو گھنٹہ پہلے ہی یہ جوان شہید ہوا ہے‘ نہ تو لاش خراب ہوئی اور نہ ہی اس میں کوئی بدبو پیدا ہوئی‘ یہ پاک فوج کے شہید کے ساتھ اللہ کی خاص رحمت کا ثبوت تھا۔ اسی آپریشن میں دوسرے شہید ہونے والے جوان ذکاء اللہ کا تعلق ضلع سرگودھا سے تھا جبکہ پہلے جوان کا تعلق ضلع وہاڑی سے تھا، سرگودھا والا جوان فوج کو چھوڑ کر چلا گیا تھا اور ایک سال تک واپس نہ آیا پھر اللہ کی کرنی کہ وہ شخص واپس آیا اور ہمارے ساتھ آپریشن میںشامل ہوگیا ابھی اس کو واپس آئے ہوئے پانچ‘ چھ دن ہی گزرے تھے کہ ہم آپریشن کے لیے روانہ ہوگئے‘ یہ جوان بھی ہمارے ساتھ تھا‘ پہلے جوان کے شہید ہونے کے بعد ہم جب آگے بڑھے تو دشمن کی طرف سے فائرنگ ہوئی اور گولیوں کے دو بریسٹ اس جوان کو لگے۔ تقریباً اٹھارہ یا بیس گولیوں اس کو لگیں اس کے باوجود یہ جوان دو تین گھنٹے تک زندہ رہا اور خون زیادہ بہہ جانے اور کمزوری کی وجہ سے شہید ہوگیا چونکہ ہم آپریشن کے دوران واپس نہ جاسکتے تھے اس لیے اس کو کوئی طبی امداد فراہم نہ کی جاسکی اس جوان ذکاء اللہ کی لاش اور پہلے جوان عمرحیات کی لاش تین دن تک مقامی کیمپ میں پڑی رہیں نہ تو وہ خراب ہوئیں اور نہ ہی ان میں کوئی بدبو پیدا ہوئی ایسے لگتا تھا کہ جیسے یہ جوان ابھی ابھی شہید ہوئے ہیں۔ ہم نے مسلسل دو دن اور دو راتیں بغیر کھانا کھائے آپریشن جاری رکھا اور د دن کے بعد ہمیں ایک دن پہلے کی پکی ہوئی روٹی ملی جو کہ اس وقت کسی نعمت سے کم نہ تھی یہ بھی اللہ کی مدد اور رحمت کی وجہ سے ممکن ہوا کہ ہم دو دن تک بغیر کھانا کھائے آپریشن لڑتے رہے۔ (محمد شہزاد مجذوبی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں