ائمی تشویش کی وجہ سے جسم میں طبعی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں‘ مثلاً جو شخص گھر یا دفتر میں تنازعات سے مبرا ہوا ہوگا۔ اس کے عضلات تن جائیں گے۔ دل کی رفتار تیز ہوجائے گی اور فشار خون غیرشعوری طور پر بڑھ جائے گا۔
’’میری کمر کی جراحی (سرجری) کے چھ گھنٹے بعد دو نرسوں نے مجھے بستر سے اٹھا کر سہارا دے کر کھڑا کیا اور چند قدم اٹھانے پر اصرار کیا۔ اس کے دوسرے دن میں نے وارڈ میں چہل قدمی کی۔ میں یہ چہل قدمی اگلے دس دن تک ہر روز بڑھاتا رہا۔ جراح‘ عصبی (نیورو سرجن) نے مجھے یہ یقین دلایا تھا کہ چہل قدمی بہترین مقویات میں سے ہے۔ چہل قدمی سے ٹانگوں میں خون جمنے کا امکان گھٹتا ہے۔ عضلات مضبوط ہوتے ہیں اور افاقہ صحت کا عمل تیز تر ہوتا ہے۔ آنے والے دنوں میں جیسے جیسے میری سیر بڑھتی گئی ایک عجب صورت حال پیدا ہوئی کہ نہ صرف میری قوت میں اضافہ ہوا اور میرے جسم میں درد اور دکھن رفع ہوگئی۔ میری طبیعت میں جولانی پیدا ہوگئی کہ جب میں اپنی گلی میں سیر کررہا تھا تو ایسا لگ رہا تھا جیسے میری پریشانیاں میری سیر کرنے کی گرد میں اڑگئی تھیں‘‘مندرجہ بالا احساسات ایسے شخص کے ہیں جس کی ابھی حال ہی میں جراحی ہوئی تھی۔ اس کی داستان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ورزش و سیر کا صحت و تندرستی پر کس قدر مفید اثر پڑتا ہے۔کرب سے اکثر افراد کو واسطہ پڑتا ہے‘ بیروزگاری‘ مالی مشکلات، ذاتی رنجشیں‘ جنسی کمزوریاں‘ شوروغل‘ باہمی تعلقات کی مشکلات اور عائلی مسائل ان چند کیفیات میں سے ہیں جو تشویش کاباعث ہوتے ہیں۔ دائمی تشویش کی وجہ سے جسم میں طبعی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں‘ مثلاً جو شخص گھر یا دفتر میں تنازعات سے مبرا ہوا ہوگا۔ اس کے عضلات تن جائیں گے۔ دل کی رفتار تیز ہوجائے گی اور فشار خون غیرشعوری طور پر بڑھ جائے گا۔ اگر یہ کرب والی صورتحال اسی طرح طویل عرصہ تک برقرار رہتی ہے تو نتیجہ کوفت، تھکن، چڑچڑاپن، بیزاری، پژمردگی (ڈیپریشن) اور اسی طرح کی دیگر شکایات پر مبنی ہوگا۔
اس زمانہ میں اطبا ورزش نہ کرنے کے ان اثرات پر زیادہ تشویش کے شکار ہیں‘ جو دل پر رونما ہوتے ہیں‘ مرض تا جی قلب اب نہایت عام ہوتا جاتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ یہ ان افراد میں زیادہ عام ہے‘ جن کا کام غیرفعال نوعیت کا ہے بہ نسبت ان افراد کے‘ جن کا کام زیادہ تر چلنا پھرنا ہے یعنی یہ مرض چٹھی رساں میں کم ہے لیکن ڈاک خانہ کے اہل کار میں زیادہ ہے‘ اسی طرح گاڑی بان (ڈرائیور) میں زیادہ ہے لیکن راہدار (کنڈیکٹر) میں کم ہے۔ دل بہرحال ایک پمپ (دھونکٹی) ہے ہر چند کہ یہ پٹھوں سے بنا ہوا ہے جسم کے دیگر پٹھوں کی طرح اس کو اپنی کارکردگی اور کارگزاری برقرار رکھنے کے لیے پابندی سے باقاعدہ ورزش کرنے کی ضرورت ہے۔
ورزش سے امراض کا سدباب بلکہ علاج بھی ہوسکتا ہے‘ حرکات جسم میں تیزی و طراری آتی ہے اور قرار صحت میں مدد ملتی ہے‘ دائمی امراض کے ساتھ گزارہ کرنا سہل ہوجاتا ہے۔ جن لوگوں کے دل کی سرخ رگوں میں متبادل رگ یعنی ’’بائی پاس‘‘ ہوچکا ہے وہ بھی ورزش سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور تندرست رہ سکتے ہیں۔یہ تمام معلومات ناقابلِ یقین معلوم ہوتی ہیں‘ مگر ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں۔ ٹانگوں کی ورزشوں سے بھی ٹانگوں کی قوت میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور اگر ورزش جاری رکھی جائے تو اس توانائی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ دائمی امراض کےعلاج کے ضمن میں صرف ادویہ پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ غیرادویاتی طریقے مثلاً ورزش وغیرہ کو ضرور آزمایا جائے کیونکہ افراد کی اکثریت میں ادویہ اور ورزش کا مشترکہ لائحہ عمل نہایت مفید ہوسکتا ہے۔ بلند فشار خون (بلڈپریشر) کا علاج صرف دوا سے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنے تمام اسلوب زندگی میں تبدیلی لانا چاہیے یعنی غذا میں نمک کم کیا جائے، تمباکو نوشی ترک کی جائے ورزش کو شعار بنایا جائے، رفتار زندگی میں اعتدال اختیار کیا جائے اور چوہوں کی طرح کی تیزدوڑ سے احتراز کیا جائے۔
ورزش آہستہ آہستہ بڑھائی جائے تو کوئی خطرہ نہیں: اکثر لوگ اس وجہ سے ورزش کرنے سے تردد کرتے ہیں کہ کہیں ان کے دل پر بے جا بوجھ نہیں پڑے جو دل کو ضرر پہنچائے۔ اگر ورزش آہستہ آہستہ بڑھائی جائے تو اس طرح کا کوئی خطرہ نہیں (امریکہ کے ایک تربیتی مرکز میں گزشتہ بیس سال سے پچاس ہزار کاروباری افراد ایک طبیب کی زیرنگرانی اس قسم کی ورزشوں میں حصہ لے رہے ہیں اور ابھی تک کسی کو بھی ورزش کے دوران حملہ قلب نہیںہوا)یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ اس سطح کی شدید ورزش کا قصد کرنے والے متوسط العمر افراد اور وہ لوگ جو اپنے دل کی صلاحیت سے مطمئن نہیں، وہ پہلے طبی مشورہ لے لیں اور طبیب کے مشورہ سے ریاضتی تخطیط قلب (ورزش کے دوران ای سی جی) کروالیں۔ جن افراد میں فشارِ خون بلند ہے یا رگوں میں صلابت ہے یا مرض تاجی قلب ہے ان کو بھی ورزش کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ طبیب کی زیرنگرانی یا مشورہ کے بعد ہونی چاہیے۔ ورزش جملہ قلب سے بحالی میں ایک بیش قیمت اعانت ہے اور آج کل اکثر معالج اس ضمن میں اپنے مریضوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ دل کے عضلات کو طاقت بہم پہنچانے کیلئے رفتہ رفتہ بڑھاتے ہوئے ورزش کریں جو شروع شروع میں ہموار سطح پر ہلکی چہل قدمی ہو پھر بڑھ کر تیز قدمی ہوجائے آخر میں یہ سائیکل چلانا‘ نیم دوڑ اور پھر اچھی خاصی دور بھی ہوسکتی ہے۔
سیر کے دوران اپنی صلاحیت کا اندازہ نبض کی رفتار سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ورزش کے دوران رفتارِ نبض مناسب حدود میں رہنی چاہیے۔ یہ مناسب حد نبض کی زیادہ سے زیادہ رفتار 65-80 فیصد ہوتی ہے اور یہ حد رفتار نبض کی زیادہ سے زیادہ رفتار 220 میں سے عمر گھٹا کر حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر اس شخص کی عمر ساٹھ سال ہے تو اس کی زیادہ سے زیادہ قابل برداشت رفتار 160=220-60 فی منٹ ہوگی۔ اس کی 65-80 فیصد 140-128 فی منٹ ہوگی۔ یعنی یہ شخص سیر شروع کرتا ہے تو اس کی رفتار ورزش کے دوران 104 فی منٹ تک رہے جو رفتہ رفتہ ورزش کے ساتھ 128 فی منٹ سے زیادہ نہ بڑھے کیونکہ 60 سالہ آدمی کیلئے یہی رفتار نبض کی مناسب حد ہے اگر سیر کرنے کی عادت نہیں ہے تو چہل قدمی کو رفتہ رفتہ بڑھایا جائے جو بالآخر 40 منٹ روزانہ ہوجائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں