میری والدہ محترمہ اللہ ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے اور ان کی قبر کو اپنی مہربانیوں سے اپنے نور سے بھر دے اور ان کو اپنے فضل و کرم سے جنت الفردوس میں ارفع مقام عطا کرے۔ (آمین)
میری والدہ ماجدہ نے کبھی بھی کسی انسان کو بددعا نہیںدی وہ بلاتخصیص مرد، عورت اور بچوں پر تو مرحومہ انتہا درجہ کی مہربان تھیں۔ دوسروں کی خدمت کرنا اور دعائیں لینا اور ہر حال میں خوش رہنا اور رب العزت سے برکت کی دعا مانگنا ان کا مشغلہ تھا۔ یہ ان ہی کی تربیت اور نیک اعمال تھے کہ ہم نے ہمیشہ دوسروں کی خدمت کرنا اپنا شعار بنا لیا۔ یہ میرا ریکارڈ ہے کہ آج تک کوئی بھی فرد مجھ سے ناراض نہیں ہوا۔ یہ تو خدائے مہربان کی عنایت سے ہی ہوا۔ میری والدہ ماجدہ کا نام سکینہ بی بی تھا۔ ان کی شادی شہر کے ایک گنجان آباد علاقے کریم پورہ میں ہوئی جہاں ہندوئوں کی آبادی زیادہ تھی۔ صرف ایک گلی جس میں مسجد بھی تھی اس میںان کا 30/40 سال پراناگھر تھا۔
جس گلی کا ذکر ہوا یہ آگے سے بند تھی۔ اس لیے اس طرف سے کسی کا گزر ممکن نہ تھا ماسوائے اہل علاقہ کے۔ مرد حضرات فجر کی نماز اور اس وقت کے مطابق جو ناشتہ ہوتا تھا کرکے اپنے اپنے کام کاج کیلئے روانہ ہو جاتے۔ خواتین صبح صبح اپنے گھر کے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد اسی گلی کی ایک خاتون جن کو پَپاّں کی ماں کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ (اس کا اصل نام کسی کو معلوم نہ تھا) کے پاس جمع ہو جاتیں۔ایک دن 9/10بجے صبح ایک بوڑھی خاتون آگئیں اور پوچھنے لگیں کہ یہاں کوئی بیوی جی ہیں (بی بی جی پڑھی لکھی سید زادی کو کہتے ہیں)پَپاّں کی ماں نے جواباً کہا کہ آپ کل تشریف لے آئیں۔ کل جمعرات کا دن ہے لہٰذا آپ ظہر کی نماز کے بعد تشریف لے آئیں ۔آپ کا کام (جو پوچھنا ہو پوچھ لینا) کل بیوی جی ہونگی اور ان کے سَر والے جب حاضر ہونگے تو تم سوال کرنا۔ لہٰذا وہ خاتون چلی گئی دوسرے دن ٹھیک 10بجے آگئی۔ اب اس نے یعنی پَپاّں کی ماں نے تو صرف مذاق کرنے کیلئے اسے بلوایا تھا لیکن وہ خاتون اپنے ساتھ ایک دوسری خاتون جو کہ قدرے جوان تھی، کو ساتھ لیکر آگئی۔ پَپاّں کی ماں نے میری والدہ کو بلوایا اور انہیں سب کچھ سمجھا دیا تھا کہ یہ خاتون جو سوال کرے مناسب جواب دینا۔ میری والدہ آگئیں۔ بہرحال نماز ظہر تک انتظار کرنا پڑا۔ نماز کے بعد پَپاّں کی ماں نے کچھ ویسے ہی بڑبڑانا شروع کر دیا اور میری والدہ کی طرف رخ کرکے بیٹھ گئی۔ پھونک مارنے والے انداز میں ہونٹوں کو سکیڑا اور میری والدہ چارپائی پر گرنے والے انداز سے گر گئیں اور ان پر چادر ڈال دی گئی۔ اگربتی جلا کر خوشبو کر دی گئی۔ تھا تو ڈرامہ ہی۔ اس بوڑھی خاتون نے سوال کیا کہ میرا بیٹا جو کہ 3سال سے لاپتہ ہے۔ مہربانی فرما کر اس کی معلومات کرکے مجھے بتلایا جائے.... میں نے تو اپنی سی کوششیں کر لیں مگر پورا ہندوستان چھان مارا لڑکے نے نہ ملنا تھا نہ ملا۔
میری والدہ نے کہا کہ تیرا بیٹا ہسپتال میں ہے اور بیمار ہے۔ ٹھیک آج کے دن (یعنی آٹھویں دن بعد) آپ کو آپ کے لڑکے کا خط مل جائیگا اور واقعی ایسا ہی ہوا کہ آٹھویں دن اس کی ڈیوڑھی میں ڈاکیہ خط پھینک گیا تھا۔ جو کہ کلکتہ سے کسی ہسپتال سے آیا تھا کہ میں ہسپتال میں ہوں آپ کو خط لکھ رہا ہوں کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحت عطا فرمائے (آمین ثم آمین)۔ لیکن ماں ماں ہی ہوتی ہے‘ ممتا کی ماری کلکتہ کیلئے تیاری کرنے لگی کہ دوسرے دن ایک اور خط آیا جس میں اس خاتون کے لڑکے کی موت کی خبر تھی۔
دوسری خاتون نے ایک عرضی پیش کی کہ اس کا خاوند عرصہ 6/7ماہ سے عدم پتہ ہے۔ بی بی آپ مہربانی فرمائیں کہ میرے شوہر کی معلومات کرکے بتا دیں کہ میرا شوہر کہاں چلا گیا ہے۔ بی بی تمہارا شوہر تو اسی شہر میں ہے اور شہر کے ایک چوک میں جس میں پیپل کا درخت ہے اس درخت کے پیچھے ایک نانبائی کا تندور ہے وہاں تمہارا خاوند اندر چھپا بیٹھا پیڑے بنا رہا ہے۔ جلدی کریں کہیں دوسری طرف نہ بھاگ جائے۔ اندر اندھیر ہے (دن کو بھی اندھیرا رہتا ہے) دوسری خاتون (شوہر والی) نے پورا شہر چھان مارا کہ کینٹ کے علاقہ کے ایک چوک جو کہ آخری چوک تھا۔ جب وہ خاتون وہاں پہنچی تو ان کا شوہر نامدار سر جھکائے پیڑے بنا رہے تھے۔ جب اس نے اپنی زوجہ کو دیکھا تو ہکاّ بکاّ رہ گیا۔ گھبرائے ہوئے انداز میں ہکلاتے ہوئے اس نے کہا کہ تم یہاں تک کیسے پہنچ گئی، میں نے تو کسی کو بتایا بھی نہیں۔ کسی نے بتایا ہو گا کہ میں یہاں ہوں۔ اور پھر وہ اپنی بیگم کے ساتھ اپنے گھرآگیا۔ اب تو نانبائی کی بیگم تو خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی مگر جس خاتون کا بیٹا کلکتہ میں انتقال کر گیا وہ بیچاری اس کے دل کی حالت تو ماسوائے اللہ کے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اور کوئی نہیں جان سکتا۔ خوشی والی خاتون تو خوشی کا اظہار کرنے کیلئے مٹھائی، نقدی اور کپڑوں کے جوڑے پھولوں کے ہار لیکر آگئی۔ میری والدہ جو کہ حساس قسم کی خاتون تھیں اس نے سب کچھ واپس کر دیا۔ اس کے اصرار پر تھوڑی سی مٹھائی لے لی۔ یہ تھی تو مذاق کی بات مگر اللہ پاک نے سچ کر دکھایا۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 743
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں