ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤںمیں چڑیا‘ خرگوش اور گلہری کی بہت گہری دوستی تھی۔ گاؤں کے تمام چھوٹے اور بڑے ان کی دوستی سے واقف تھے۔ وہ تینوں زیادہ تر وقت کھیل کود میں گزارتے تھے وہ اکثر آپس میں شرارتیں کرتے اور اپنی حرکتوں پر خوب کھلکھلاتے اور زور زور سے ہنسے بھی تھے۔ خرگوش گھر سے کھانے کی چیزیں لاتا تھا اور گہری درختوں سے بیر‘ گوندی اور شہتوت توڑ کر لاتی تھی۔ وہ تینوں مل کر کھاتے اور آپس میں خوش و خرم زندگی گزارتے تھے۔ خرگوش اور گلہری موٹے تھے اور جبکہ چڑیا بہت دبلی تھی۔ خرگوش اکثر اوقات مذاق میں چڑیا کو سمارٹ چڑیا کہہ کر بلاتا تھا۔ چڑیا بے حد محنتی تھی۔ اسے اپنے بچوں کاپیٹ پالنے کیلئے روزانہ پورے گاؤں کا چکر لگانا پڑتا تھا۔ وہ اپنی چونچ میں چند دانے ہی جمع کرپاتی تھی اور بچے ان دانوں سے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ ننھی چڑیا کا معمول تھا کہ وہ شام کو جلدی سو جاتی اور فجر کی اذان پر اٹھ کر اپنے روز مرہ معمول میں مشغول ہوجاتی تھی۔ اسے رات کو دیر سے سونے اور صبح دیر سے اٹھنے والوں پرشدید غصہ آتا تھا۔ چڑیا کے ساتھ اس کا بھائی بھی رہتا تھا۔ اسے کام چوری کی بُری عادت تھی وہ اپنے گھونسلے میں صبح دیر تک سویا رہتا تھا۔ چڑیا کو اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ بھائی کا بھی خیال رکھنا پڑتا تھا۔ وہ ان سب کو دانا دنکا دے کر اپنے ہم جولیوں کے پاس چلی جاتی تھی۔
ایک دن خرگوش نے چڑیا اور گلہری کو اپنے پر دوپہر کے کھانے کی دعوت دی۔ خرگوش میاں کی تین خوبیاں تھیں۔ ایک تو وہ زبردست مہمان نواز تھا۔ دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ وقت اور وعدے کا بہت پابند تھا اور تیسری خوبی کا جاننا ازحد ضروری ہے وہ یہ کہ خرگوش ہمیشہ صاف ستھرا رہتا تھا۔ اسے میلے کچیلے رہنے والوں سے بُو آتی تھی۔ گلہری بھی سمجھتی تھی کہ اچھی عادتیں اور رویے ہمیں دوسروں میں ممتاز کرتے ہیں۔ وہ اسی وجہ سے وقت پر ہی خرگوش کے گھر پہنچ گئی۔ دونوں نے بڑی بے چینی سے چڑیا کا انتظار کیا مگر وہ نہ پہنچی ان کی تشویش میں اضافہ ہوتا گیا کہ ایسی کون سی وجہ ہوسکتی ہے کہ جس کی بنا پر چڑیا یہاں نہ پہنچ سکی تھی۔ حالانکہ دونوں شدت سے بھوک محسوس کررہے تھے مگر اس کے باوجود کھانا کھائے بغیر چڑیا کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
چڑیا کے گھونسلے میں سے بچوں نے بتایا کہ چڑیا خرگوش کے گھر کھانے کا بول کر یہاں سے گئی ہے خرگوش اور گلہری سوچ میں پڑ گئے ان کی تشویش مزید بڑھتی گئی اور انہیں کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ چڑیا کدھر غائب ہوگئی۔ وہ اسے ڈھونڈنے کیخاطر ادھر ادھر بھٹکنے لگے۔ خرگوش میاں کھیتوں کی طرف دوڑ پڑا جبکہ گلہری بستی کے اندر ہی چڑیا کو ڈھونڈنے میں محو ہوگئی۔ بہت بھاگم بھاگ کے بعد آخرکار گلہری اپنی سہیلی چڑیا کو ڈھونڈنے میں کامیاب ٹھہری۔ چڑیا زخمی‘ بے سدھ اور بے ہوش حالت میں گاؤں کے سکول کے باہر نیم کے درخت تلے پڑی ہوئی ملی۔ گلہری کے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ کہیں چڑیا مر تو نہیں گئی۔ اس خیال کے آتے ہی اس کی سانس پھولنے لگی اور زمین پاؤں تلے سے سرکتی ہوئی محسوس ہوئی مگر جب اس نے انتہائی غور سے دیکھا تو اسے محسوس ہوا کہ چڑیا کی سانس ابھی چل رہی تھی۔ خرگوش چھلانگیں لگاتا وہیں پہنچ گیا۔ وہ چڑیا کو اٹھا کر قریبی ہسپتال لے گئے۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے اندازہ لگایا کہ اس چڑیا کو کسی نے پتھرمارا ہے جس کی وجہ سے وہ زخمی ہوگئی اور اس کے بدن کا بہت سارا خون ضائع ہوچکا تھا۔ خرگوش میاں ڈاکٹر سے کہنا چاہتا تھا کہ آپ میرے بدن کا سارا خون ے لیں مگر میری دوست چڑیا کو بچالیں مگر ڈاکٹر کسی بھی صورت خرگوش کی بولی نہ سمجھ سکتا تھا۔ چڑیا کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے چڑیا کو انجکشن لگایا اور مرہم پڑتی بھی کردی۔ چڑیاکی جب مرہم پٹی ہورہی تھی تب گلہری دل ہی دل میں کہہ رہی تھی ڈاکٹر صاحب! آپ روپے پیسوں کی فکر نہ کریں بس میری سہیلی کی زندگی بچالیں۔ ڈاکٹر نے فارغ ہوکر مسکراتے چہرے سے دونوں کی طرف دیکھا اور کہا کہ اللہ پاک نے آپ دوست چڑیا کو بچالیا ہے۔ اب اسے ہوش صبح ہی کو آئے گا۔ تب تک چڑیا کو ہسپتال میں داخل رکھنا پڑے گا۔ اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔ ڈاکٹر کو یوں لگا کہ جیسے خرگوش اور گلہری کو اس کی بات سمجھ میں آگئی ہے اس وقت ڈکٹر نے دونوں کی آنکھوں میں بہتے آنسو دیکھے وہ حیران تھا کہ ننھے جانور پرندے ایک دوسرے سے بے حد محبت رکھتے تھے۔ ڈاکٹر ان ننھے جانوروں کی ہمدردی کے جذبےسے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔چڑیا تمام رات ہسپتال میں بے ہوش رہی‘ خرگوش نے ایک اچھا کام کیا کہ وہ چڑیا کے گھونسلے میں جاکر شام سے پہلے اس کے بچوں کو تسلی اور دلاسے دے آیا کہ چڑیا خیریت سے ہے اور صؓح گھر آجائے گی۔ ہسپتال میں خرگوش اور گلہری نے چڑیا کے سرہانے بیٹھ کر پوری رات دعاؤں میں بسر کی صبح جب سورج نے اپنی کرنوں کو پھیلایا تب چڑیا کو بھی ہوش آیا۔ وہ خود کو ہسپتال میں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ خرگوش اور گلہری خوشی سے بھرگئیں۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ چڑیا نے بتایا کہ وہ خرگوش کے گھر دعوت پر آرہی تھی کہ جب وہ سکول کے قریب پہنچی تو چھٹی کا وقت تھا اس لمحے چند شرارتی لڑکوں نے غلیل میں پتھر رکھ کر اس کا نشانہ باندھا۔ اسے پتھر لگنے سے شدید تکلیف محسوس ہوئی مگر اس کے بعد ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو وہ یہاں ہسپتال میں تھی۔ تینوں ڈاکٹر کے کمرے تک گئے اور خاموشی ہی خاموشی میں ان کا شکریہ اداکیا۔ ڈاکٹر بہت خوش تھا اورسوچ رہا تھا کہ یہ کتنے عظیم اور مخلص دوست ہیں جو ایک دوسرے کے دکھ درد پر تڑپ اٹھتے ہیں اور آپس میں محبت‘ اتفاق اور ہمدردی کا برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ تینوں خرگوش کے گھر پہنچے۔ خرگوش میاں دسترخوان پر کھانا چنتے ہوئے بولا۔ ہمیں کوئی ایسا ذریعہ ضرور ڈھونڈنا چاہیے کہ جس سے بچوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہم بھی کائنات کا حسن ہیں ہمیں جو نقصان پہنچتا ہے اس سے بچوں کو کیا فائدہ ملتا ہے بلکہ وہ کائنات کے حسن کا خاتمہ کررہے ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارے دکھ درد میں اضافہ تو ہوتا ہی ہے مگر بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ چڑیا درد سے کراہتے ہوئے بولی۔ بس بھی بس! اب بس کرو‘ اپنی بھوک مٹاؤ اور کھانا شروع کرو کیونکہ کھانا ٹھڈا ہورہا ہے۔ اس پر سب نے زور دار قہقہہ لگایا اور کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں