Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

ٹوٹے رشتے‘ بکھرے موتی ہوسکے تو انہیں سنبھال لیں

ماہنامہ عبقری - اگست 2017ء

تاش کے پتوں کی طرح بٹے ہوئے خاندان نسلِ انسانی کیلئے انتہائی خطرناک ہیں یہ جذبے گھر کے خوبصورت اور محبت بھرے ماحول کو دیمک کی طرح کھاجاتے ہیں اس لیے ازدواجی زندگی کو کامیاب اور بہتر بنانے کیلئے ایثار اور قربانی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

زندگی ہوا کے ایک معطر جھونکے کی طرح ہمارے قریب سے گزر جاتی ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ماہ و سال کب‘ اورکیسے گزر گئے‘ بس یادیں ہوتی ہیں اور یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب کسی ہنستے بستے گھر کے دونوں فریقین کے درمیان ناچاقی ہوجاتی ہے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ باقی نہیں رہتا‘ بظاہر یہ ہر مسئلے کا حل نظر آتا ہے کہ میاں بیوی الگ ہوجائیں کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری لیکن اُس صورت میں جب ان کے آنگن میں پھول کھل اٹھے ہوں پیچیدگیاں اور دشواریاں مزید بڑھ جاتی ہیں بلکہ ایسے اکثر گھرانے ہیں جہاں آپس میں ایک دوسرے سے سخت متنفر ہونے کے باوجود بھی میاں بیوی ایک چھت کے نیچے محض اپنے بچوں کی وجہ سے ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔کہتے ہیں کہ طلاق کی صورت میں مرد کا تو کچھ نہیں  جاتا وہ دوسری‘ تیسری بلکہ چوتھی شادی تک کرلیتا ہے مگر مطلقہ خواتین کو آج تک ’’مہذب‘‘ معاشرہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ایسی خواتین مشکل سے ہی اپنا گھر بسا پاتی ہیں لیکن امریکہ کی جدید تحقیق کی روشنی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے جو کہ کسی طور پر بالکل سچ بھی ہے کہ طلاق واقع ہونے کی صورت میں عورتیں تو اپنا دکھ درد دوسروں کو بتا کر جی ہلکا کرلیتی ہیں مگر مرد زیادہ تر خاموش رہتے ہیں اور اپنے دوست احباب کو بھی دل کی بات بتانے سے گریز کرتے ہیں اور کسی کے استفسار پر مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ ’’ایسی کوئی بات نہیں‘‘
طلاق کے بعد کچھ مرد دھیرے دھیرے زندگی سے بیزار ہونے لگتے ہیں‘ نشہ‘ تنہائی پسند‘ خود کلامی اور بے خوابی کی عادت ان کی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے‘ 95 فیصد مرد ایسے ہیں جو طلاق کے بعد اپنے لیے دوسرا گھر تلاش کرتے ہیں تاکہ وہ اس گھر سے نجات حاصل کرسکیں جہاں یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ وہ ان تفریح گاہوں پر بھی جانا چھوڑ دیتے ہیں جہاں کبھی وہ اپنی شریک حیات کے ساتھ جایا کرتے تھے جو مرد اپنی رہائش گاہ تبدیل نہیں کرتے وہ اکثر زندگی سے نجات حاصل کرنے کیلئے مصنوعی سہارے لیتے ہیں‘ وہ جسمانی طور پر کمزور اور حاضر دماغی سے محروم ہوجاتے ہیں۔اگر طلاق عورت کے دباؤ اور اصرار کی وجہ سے ہوئی ہے تو ایسے مرد زیادہ تر خاموش رہتے ہیں اور اپنے حلقہ احباب سے حقیقت چھپاتے ہوئے الزام اپنے سر لے لیتے ہیں اور عام طور پر یہ کہہ کربات ختم کردیتے ہیں کہ میں نے اسے خود طلاق دی ہے تاکہ اس طرح ان کی بات اونچی رہے اور اگر ان کا حلقہ احباب بار بار ان کی زندگی ازدواجی زندگی کے بارے میں جاننے کیلئے کوشاں رہتا ہے تو ایسی صورت میں وہ محفلوں میں جانے سے کتراتے ہیں اگر وہ بیوی کے خلع مانگنے کی صورت میں اپنے بچوں کی قربت سے بھی محروم ہوجائیں تو وہ ذہنی مریض بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ ان کی دوری کے بعد دنیا کی ہر شے کو بے قیمت سمجھنے لگتے ہیں ایسا عام طورپر ان مردوں کے ساتھ ہوتا ہے جو طلاق دینا نہیں چاہتے مگر عورتیں ان کی کسی بھی عادت کی وجہ سے ان کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہوتیں۔
حقیقت کچھ بھی ہو اس میں نقصان دونوں کا ہی ہوتا ہے۔ یہ کانٹوں کی ایک ایسی باڑھ ہے جسے اپنی چوکھٹ پر سجا کر نہ صرف بچے لہولہان ہوتے ہیں بلکہ فریقین بھی زندگی کی حقیقی مسرتوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوجاتے ہیں۔
طلاق یافتہ والدین کے بچوں کے احساسات
جس گھر میں روزانہ میاں بیوی میں جھگڑے ہوتے ہیں وہاں سب سے بُرا اثر بچوں پر پڑتا ہے وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں رہ سکتے کیونکہ ان کے نزدیک امی اور ابو دونوں میں پیار ہی ان کی بنیادی تربیت کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے یہ توخیر قطع تعلقات کی آخری حد ہے۔ بچے تو اُس صورت میں بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے ہیں جب ماں اور باپ دونوں ہی ملازمت پیشہ ہوتے ہیں ایسے میں اگر مشترکہ نظام خاندان نہ ہو تو اور دشواریاں پیش آتی ہیں کیونکہ نانا‘ نانی‘ دادا‘ دادی بڑی حد تک بچے کو احساس تنہائی سے بچالیتے ہیں مگر ایسے گھرانوں کی کمی نہیں جہاں سسرال الگ ہے اور والدین اپنے بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑنے پر مجبور ہیں اس لیے کہ آج کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات میں فرد واحد پورے خاندان کی کفالت نہیں کرسکتا۔
والدین کے جھگڑوں اور علیحدگی سے متاثر بچے عام بچوں کی نسبت زیادہ حساس اور زود رنج ہوتے ہیں اور عام طور پر ڈیپریشن کا شکار رہتے ہیں جس کا اثر ان کی تعلیم اور صحت پر یقیناً منفی انداز میں پڑتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بیٹی باپ کے اور بیٹا ماں کے زیادہ قریب ہوتا ہے ایسی صورت میں یہ تصور کہ طلاق یافتہ خاندان کے بچے بڑے ہوکر مایوسی کا شکار نہ ہوں گے غلط ہے کیونکہ بچپن سے ان کو اردگر کا ایسا ماحول ملا ہے جہاں محبت اور پیار نام کی کوئی چیز نہیں یہ جھنجھلاتے ہوئے رویے صرف والدین کے بیچ نہیں بلکہ آپس میں بہن بھائی (بچوں) کے درمیان بھی رہنے لگتے ہیں۔ جس کا نفسیاتی اثر کسی نہ کسی بیماری پر جاکر منتج ہوتا ہے۔ طلاق کے بعد ایک یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ بچہ کس کے پاس رہے؟ یہاں سے عدالت کا کام شروع ہوتا ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ بچہ کس سے زیادہ مانوس ہے نیز کون اس کی معاشی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے۔ بچہ ان حالات کی وجہ سے ذہنی مریض بن جاتا ہے اور ایک ذہنی مریض کوسنبھالنا آسان بات نہیں صرف ماں ہی وہ ہستی ہے جو ہر صورت میں اپنے لختِ جگر کا ساتھ دیتی ہے ورنہ اکثر اوقات تو دیکھنے میںیہ آیا ہے کہ باپ بھی اس قسم کے بچوں سے تنگ آجاتا ہے اور وہ ان کی دیکھ بھال نہیں کرسکتا کیونکہ بہرحال اسے معاش کے سلسلے میں گھر سے طویل وقفے کیلئے باہر جانا ہی پڑتا ہے۔
نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ بکھرے ہوئے اور تاش کے پتوں کی طرح بٹے ہوئے خاندان نسلِ انسانی کیلئے انتہائی خطرناک ہیں یہ جذبے گھر کے خوبصورت اور محبت بھرے ماحول کو دیمک کی طرح کھاجاتے ہیں اس لیے ازدواجی زندگی کو کامیاب اور بہتر بنانے کیلئے ایثار اور قربانی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 008 reviews.