ابتدائے آفرینش سے انسان اپنے جسم اور نفس کو سہولت کی طرف مائل کرتا چلا آرہا ہے۔ مختلف ادوار میں بنی نوع انسان نے اپنی جسمانی سہولت کے لئے بدنی زیبائش کے لئے مختلف حیلے اور طریقے اختیار کئے ہیں۔ پتھر کے زمانے کے لوگ کیسی زندگی گزارتے تھے؟ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان کے بدن پر لباس نہیں تھا۔ پاﺅں میں جوتا نہیں تھا اور زندگی کے شب وروز یونہی گزر رہے تھے۔
دور بدلا، انسان بدلا اور انسان نے اپنے بدن کو ڈھانپنے کے لئے پتے، پھر ٹاٹ اور آخر میں کپڑے پہنے اور پاﺅں کے آرام کے لئے لکڑی کے جوتے اور پھر چمڑے کے جوتے استعمال کئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب موجودہ دور میں ہر طرف فیشن کی یلغار ہے۔ تو اپنی صحت وتندرستی کے لئے جوتے کے انتخاب پر بھی غور کیا جائے۔ یہ درست ہے کہ جوتا نرم ہو، خوبصورت ہو، شخصیت کے نکھار کے لئے سونے پہ سہاگہ ہو لیکن کیا یہی جوتا صحت اور بقائے حیات کے لئے بھی معاون ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کی طرف بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں۔ایک صاحب فرمانے لگے۔ مجھے پیشاب کی زیادتی کی تکلیف شروع ہو گئی۔ خوب علاج کیا، مگر مرض بڑھتا گیاجوں جوں دوا کی۔ ایک دفعہ ایک تقریب میں جانے کا موقع ملا۔ ایک صاحب ملے اور ملتے ہی فرمانے لگے کہ آپ اتنے عقل مند ہیں پھر ایسا جوتا کیوں استعمال کرتے ہیں؟ جس سے بے شمار اعصابی اور مثانے کی تکالیف ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ ان کی بات سنتے ہی میرا خیال یکایک اپنے مرض کی طرف گیا۔ میں نے جوتا تبدیل کیا اور چمڑے کا خالص جوتا استعمال کیا کیونکہ سابقہ جوتا ربڑ کا تھا۔ موجودہ جوتے کے استعمال سے میرا مرض کم ہوتا گیا۔ آخر کار میں تندرست ہو گیا۔ایک جوان مطب میں عارضہ لے کر حاضر ہوا کہ سخت اعصابی تناﺅ ہوتاہے ، ذہنی تھکن اور مسلسل پریشانی رہتی ہے اور یہ تکالیف میرے لئے عذاب سے کم نہیں۔ اس کی وجہ سے میں کئی سال سے اپنے امتحان میں کامیابی سے رہ جاتا ہوں۔ الغرض مریض کی پریشانی ناقابل بیان تھی اور وہ بیشمار ماہرین نفسیات اور ڈاکٹروں کے زیر علاج رہا تھا۔ جب اس کی مرض تشخیص ہوئی تو اس کی وجہ بند جوتے اور جوگر تھے۔ دراصل یہ جوتے ان ممالک کے لئے ہیں جہاں برف پڑتی ہے۔ ایسے بند انگلش جوتے ہمارے مزاج اور موسم کے عین خلاف ہیں۔ یوں جب اس کے جوتے تبدیل کرائے گئے اور مختصر سا علاج دیا گیا تو مریض الحمد اللہ تندرست ہو گیا۔
دماغی اثرات
جب پاﺅں کو چوٹ لگتی ہے تو جہاں پاﺅں متاثر ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ دماغ اور دماغی کیفیات اس کا گہرا اثر لیتی ہیں۔ بعض اوقات دماغی امراض کی وجہ سے پاﺅں کے زخم جلد اچھے نہیں ہوتے تو معلوم ہوا کہ دماغ کا پاﺅں کے آرام اور پاﺅں سے دماغی سکون کا گہرا ربط ہے۔ نیوٹن مشہور سائنسدان تھا۔ جب دماغی دباﺅ اور ڈیپریشن کا شکار ہوا تو اس نے فوراً جوتے کی طرف نگاہ کی۔ وہ ہر ہفتے نیا جوتا بدلتا۔ آخر اسے ایک جوتے نے سکون دیا اور وہ ہمیشہ اسی جوتے کو استعمال کرتا۔ جرمنی کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ”جوتا بہتر تو دماغ بہتر“ ”جوتا سخت تو دماغ سخت“ نرم جوتا تو دماغ نرم“۔بظاہر یہ الفاظ عام لیکن فکروتدبر کے بعد انسان ان لفظوں سے کچھ حاصل کر سکتا ہے۔
اعصابی تناﺅ
تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نئی نسل نفسیاتی امراض کا زیادہ شکار ہے۔ اس کے بیشمار اسباب ہیں لیکن ان اسباب میں یہ بات مسلم ہے کہ جوتا صحت وتندرستی میں ممدومعاون ہے اور اس کا غلط استعمال اعصابی امراض کا باعث ہے۔
شاہان ہند کا انتخاب
سلاطین ہند سلیم شاہی جوتا پسند کرتے تھے اور خاندان در خاندان یہی جوتا استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔ جب ان کے جوتے کی وضع قطع کا مطالعہ کیا تو یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ لوگ جوتے کے ذریعے اپنی صحت کی حفاظت کرنا جانتے تھے۔بابر بادشاہ کہتا ہے ”میں نے جب ہندوستان پر قدم رکھا تو چونکہ یہاں کی سرزمین، ماحول اور موسم مختلف تھا اس لئے میرا انتخاب سلیم شاہی جوتا ہی تھا“۔ ایک خاتون گزشتہ اٹھارہ برس سے دائمی سردرد میں مبتلا تھی۔ پتہ چلا کہ وہ ہمیشہ اونچی ایڑھی کا جوتا استعمال کرتی ہیں جب انکا جوتا تبدیل کیا گیا تو کیفیت بدل گئی۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 804
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں