یہ دلچسپ اور مستند حقیقت ہے کہ دنیا کے سارے انسان اس بات پر سو فیصد متفق ہیں کہ ہمیں کامیابی اور خوشی چاہئے.... مذہب، ملت، رنگ، نسل اور علاقائیت کی ہر تمیز اٹھا کر کسی بھی مرد یا عورت سے پوچھ لیجئے کہ آپ کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے؟ آپ کو جھٹ جواب ملے گا”ہم کامیاب اور بے فکر زندگی کے آروز مند ہیں!“ یوں یہ بات تو آفاقی طور پرطے ہے کہ ہر انسان کامیابی اور خوشی کا شیدائی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کامیابی اور خوشی ملتی کس طرح ہے؟
اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ جس نے ہمیں اور اس دنیا کو پیدا کیا ہے، ہم اس کی ہدایات پر عمل کریں۔ یہ سمجھنے کی بات ہے کہ جو انجینئر ایک مشین بناتا ہے، وہی اس کے نفع ونقصان کے ہر پہلو سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ صرف وہی بتا سکتا ہے کہ اس مشین کو فلاں فلاں طریقے سے استعمال کرو گے تو یہ فائدہ پہنچائے گی اور اگر مقررہ قاعدوں کی خلاف ورزی کرو گے تو مشین سے تمہیں نقصان پہنچے گا۔ ٹھیک یہی حال اس دنیا کا ہے۔ یہ دنیا اور چاروں طرف پھیلی ہوئی زندگی جس بزرگ وبرتر خالق نے بنائی ہے، اسی نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعے اس دنیا کو ٹھیک طرح برتنے اور زندگی کو پاکیزگی سے بسر کرنے کے طریقے صاف صاف بتلائے ہیں۔ جو انسان ان روشن طریقوں پر عمل کرے گا، کامیابی اور خوشی پائے گا اور جو خلاف ورزی کر کے من مانی کریگا، ناکامی، بیقراری اور ذلت کی آگ میں بھسم ہو جائیگا۔
مندرجہ بالا بات ایک اٹل، اصولی اور اساسی بات ہے۔ اس موضوع پر ہونے والی باقی ساری باتیں ذیلی اور ضمنی ہیں۔ آیئے! اب اس مسئلے پر کھل کر باتیں کرتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ دنیا عمل اور اس کے نتائج کی جگہ ہے۔ آپ اچھے اور مثبت عمل نہ کریں اور محرومیوں کا رونا روتے رہیں تو یہ واو یلا فضول ہے اور اسے کوئی نہیں سنے گا۔ دنیا میں آپ کو وہی چیز ملے گی جس کے لئے آپ محنت اورجدوجہد کریں گے۔ بصورت دیگر آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔اس لئے اگر آپ کامیاب اور خوشگوار زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچانئے، اپنی ذات کا مطالعہ کیجئے، اپنی ہستی کے ایک ایک گوشے کا ناقد نگاہوں سے جائزہ لیجئے، اپنی صلاحیتوں کو ٹٹولئے، اپنی خامیوں کی گھات میں رہئے پھر اپنے بارے میں بلا مبالغہ ٹھیک رائے قائم کیجئے کہ آپ درحقیقت ہیں کیا؟ اور کیا کچھ کرنے کی لیاقت اور صلاحیت رکھتے ہیں؟دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ نے اور خوشی کی شاخوں میں جھولنے کی تمنا بری نہیں بلکہ خوشی اور کامیابی پانے کے ناجائز حربے برے اور مذموم ہیں۔ حق یہ ہے کہ ہر طرح کی فتح مندی حاصل کرنے کا اصل میدان ہمارا دل ہے۔ اگر یہ اللہ تعالیٰ پر بھروسے اور امید کے نور سے چمک رہا ہے تو پھر ہر کامیابی، ہر خوشی اور ہر اعزاز ہمارا ہے۔ ہدایت کا آخری اور حتمی آسمانی صحیفہ ہم سے پہلا مطالبہ یہی کرتا ہے کہ ہم اپنے دل کو مقدس رب کی جلوہ گاہ بنا لیں اور اس کی رحمت سے کبھی ناامید نہ ہوں۔ ہمارے اسلاف کے دل اللہ تعالیٰ پر بھروسے اور یقین کی بجلیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یہی قوت تھی جسے بروئے کار لاکر انہوں نے طاغوتی طاقتوں کے تختے الٹے۔ انکی بلند مقامی کے مقابلے میں آج ہماری پستی کا جو حال ہے وہ محتاج بیاں نہیں۔کیا ناامیدی، بزدلی، مایوسی اور بے یقینی کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا کوئی مایوس اور بے ہمت انسان امید ویقین کی اونچی مسند پر بیٹھ سکتا ہے؟ علمائے نفسیات پورے یقین سے کہتے ہیں کہ جی ہاں! یہ معجزہ ہو سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ مایوس، دل گرفتہ، زمانے اور زندگی کے ستائے ہوئے آدمی کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔ اسے مضبوط ارادے کا حامل بننا چاہئے اور اس مقصد کےلئے یہ خاص مشق کرنی چاہئے۔
٭دن کا آغاز مثبت انداز میں کیا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ جو کام آج کرنے ہیں وہ یقینا اطمینان بخش طریقے سے ہو جائیں گے۔ یہ ایک مثبت اندرونی صدا ہے جو دن میں کئی بار ہمارے باطن میں گونجنی چاہئے۔ یہی آواز ہمارے دماغ کو اپنے فرائض کی طرف متوجہ رکھتی ہے۔ علمائے نفسیات اچھی زندگی کے لئے سکون کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ سچی بات یہی ہے کہ زندگی کی دشواریوں، ناگواریوں اور کٹھن جھمیلوں میں پرسکون رہنا، ہماری پہلی اور فوری ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ہمیں روزانہ یہ عہد کرنا چاہئے کہ : ”آج میں پرسکون رہوں گا اور اپنی سوچ بچار میں کوئی خلل اور کوئی انتشار نہیں آنے دونگا“۔سکون کے بعد دوسرا مرحلہ خود اعتمادی کا ہے۔ خود اعتمادی بہت بڑی قوت ہے اور امید سے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے آپ کو یہ ارادہ بھی بار بار کرنا چاہئے کہ : ”آج میں پرسکون بھی رہوں گا اور پراعتماد بھی“ ۔ یہ مشق رائیگاں نہیں جائے گی جب آپ پرسکون رہنے کے ارادے کی تجدید کرتے رہیں گے تو اس کا حیران کن نتیجہ سامنے آئیگا اور آپ میں خود اعتمادی کی شان پیدا ہو جائے گی۔
ایک اور بات سنئے! اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سو کر اٹھنے کے بعد آپ اپنے دماغ کو بے سبب متفکر اور مایوس پاتے ہیں اور آس پاس کی فضا بوجھل معلوم ہوتی ہے جب بھی ایسی صورتحال درپیش ہو توگھبرایئے نہیں بلکہ فوراً اپنے خیالوں کا رخ پلٹ دیجئے اور کسی ایسے دوست یا مشفق بزرگ کا تصور کیجئے جس نے آپ پر کوئی احسان یا مہربانی کی ہو۔ یہ بات پھر ایک بڑی حقیقت سے جا ملتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ کی ذات بابرکات سے بڑھ کر ہم پر نرمی، نوازش اور احسانات کرنیوالا کون ہے؟ تنہا وہی ہے جس نے ہمیں پیدا کیا، ہماری پرورش اور پرداخت کی ہمیں روزی دی اور رکھوالی کی۔ کیا ہم پر لازم نہیں آتا کہ ہم اپنے مقدس اور مہربان پروردگار کو کثرت سے یاد کریں۔ اسکا بہترین طریقہ یہ ہے کہ فجر اور عشاءکی نماز کے بعد روزانہ پندرہ بیس منٹ پابندی سے قرآن کریم کے چند رکوع پڑھیں۔ آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جائیگا۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق وہ دولت ہے جس کے آگے ساری دنیا کے خزانے بھی ہیچ اور ناقابل توجہ ہیں۔ صرف قرآن کریم ہی سکون حاصل کرنے کا ایک تیر بہدف نسخہ بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : ”خوب اچھی طرح جان لو! کہ دلوں کا چین اور اطمینان صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے وابستہ ہے۔“ ذرا یہ نسخہ آزما کر تو دیکھئے۔ اس میں کوئی لمبی چوڑی محنت درکار نہیں،صرف یہ کیجئے کہ پانچ وقت نماز کی پابندی کیجئے اور جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ صبح وشام تھوڑی تھوڑی دیر تلاوت کا اہتمام رکھئے۔ اس طرح آپکو سکون ملے گا ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں