کبھی بیٹھ کر سوچتا ہوں کہ آخر مخلوق اتنی پریشان کیوں ہے؟ لٹریچر ہے‘ کتابیں ہیں‘ ریسرچ ہے‘ سائنس ہے‘ کمپیوٹر ہے‘ ایک سوئچ آن کرنے میں سارا گھر‘ سارا محلہ‘ ساری سوسائٹی اور سارا شہرآن اور ایک سوئچ آف کرنے میں سب کچھ آف ہوجاتا ہے‘ گاڑیاں‘ سہولت‘ جہاز‘ راکٹ‘ لانڈری‘ واشنگ مشین‘ فریج‘ اے سی‘ سہولیات کی انتہا اور بھرمار ہے لیکن بے سکونی کی انتہا بھی ہے اور بھرمار بھی ہے‘ بس یہی بات سمجھ نہیں آتی کہ آخر اتنی بے سکونی کیوں ہے؟ اتنی بے چینی کیوں ہے؟ خودکشیاں کیوں بڑھ رہی‘ طلاقوں کی شرح میں اضافہ کیوں ہورہا‘ گھر گھرمیں لڑائی جھگڑا‘ بے چینی‘ نفرتیں مار کٹائی‘ خون ریزی آخر کیوں ہے؟ گھروں میں لڑکیوں اور عورتوں کو آگ لگنے کے واقعات کس طرح اور کیوں بڑھ رہے ہیں؟ ہمارا ایک جسم ہے اور دوسری روح ہے‘ جسم کی فٹنس کیلئے تمام لیبارٹریاں‘ آلات‘ ٹیسٹ‘ بلڈپریشر کا آلہ شوگر کیلئے حساس چیزیں‘ لیکن روح کو تولنے کیلئے اور روح کی غذا کیلئے نہ کوئی آلہ ‘نہ کوئی غذا‘ نہ کوئی ایسی چیز جس سے روح زندہ ہو جس سے روح پروردہ ہو اور جس سے روح تابندہ ہو‘ آخر کیوں پریشان حال بندہ چرچ‘ گردوارہ‘ مندر‘ دربار‘ مسجد وغیرہ میں جاتا ہے‘ ہر فرد اپنے مذہب کی عبادت گاہوں کی طرف رخ کرتا ہے اور اپنے مذہب کے رہبروں سے ملاقاتیں کرکے ان سے دعائیں لیتا ہے یا منتر یا ورد لیتا ہے یا وظیفہ لیتا ہے‘ معلوم ہوا روح کی بھی کچھ ضروریات ہیں اورجسم کی بھی کچھ ضروریات ہیں جسم کی ضروریات زمین سے پیدا ہونے والی چیزیں ہیں اور روح کی ضروریات آسمان سے اترنے والی نعمتیں ہیں کیونکہ جسم زمین میں جائے گا‘ مٹی نے مٹی ہونا ہے چاہے وہ جل کر ہو یا گل کر ہو اور روح سدا زندہ و تابندہ ہے‘ یہ کبھی نہ جلے‘ نہ گلے‘ نہ ویران ہو‘ روح ہمیشہ شاد و آباد زندہ و تابندہ رہے‘ روح کی دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی‘ ہمیں روح کی دنیا کیلئے آخر کیا کرنا چاہیے‘ ہمیں روح کی دنیا کیلئے کیسے سوچنا چاہیے۔ مجھے ایک گورا ملا ‘وہ صحرا کے قلعہ ڈیراور میں سیرو تفریح کیلئے آیا تھا‘ یہ بہت پرانی بات ہے باتوں ہی باتوں میں مجھے کہنے لگا: افسوس یہ ہے کہ آپ کے پاس روح ہے اور ہمارے پاس جسم ہے‘ آپ روح کیلئے کوشش کرتے ہیں لیکن ہم جسم کیلئے بھی پوری کوشش نہیں کرسکتے‘ جب تک ہمارے جسم اورہماری طبیعتوں میں روح کیلئے محنت اور کوشش کا مزاج پیدا نہیں ہوگا ہم ترقی نہیں کرسکتے‘ آپ سوچیں گے ہماری ترقی چاند اورمریخ تک ایٹم اور راکٹ تک ہے جس ترقی کے بعد انسان موت مانگے اورمنہ مانگی موت خود کشی کے نام پر چاہے معلوم ہوا وہ بے سکون ہے‘ بے چین ہے‘ پریشان ہے ترقی تو اس کے پاس نہ ہوئی اور وہ ترقی سے ہمیشہ دور رہا‘ ترقی تو کہتے ہی اسے ہیں جس میں انسان کو سکون ہو چین ہو راحت ملے اور طبیعت اور جسم میں عافیت ہو‘ اسے ترقی اور کامیابی کہتے ہیں‘ ایک فرد تاج محل میں رہتا ہے لیکن پریشان ہے اور دوسرا شخص جھونپڑی میں رہتا ہے لیکن پرسکون ہے تو قارئین آپ کا کیا خیال ہے کہ شاندار زندگی کس کی ہے؟ زندگی کے دو حصے اورکر لیجئے ایک شاندار دوسرا جاندار بظاہر شاندار ہے لیکن جاندار نہیں‘ اس میں سکون‘ چین‘ راحت‘ خوشیاں‘ کامیابیاں‘ عزتیں‘ وقار اور عافیت نہیں وہ زندگی بےکار اس کی آواز بے کار ہے‘ زندگی ہے وہی کہ جس کے اندر بے سکونی نہ ہو اور بے چینی نہ ہو‘ آپ نے اکثر رکشوں اور گاڑیوں کے پیچھے ایک لفظ لکھا ہوا دیکھا ہوگا کہ ’’موج فقیر دی‘‘ یعنی فقیروں ہی کی موجیں ہوتی ہیں اور فقیروں سے مراد بھیک مانگنے والے بھکاری نہیں بلکہ وہ جو اللہ کے سامنے ذکر کے ذریعے‘ درود پاک کے ذریعے‘ اعمال کے ذریعے‘ نوافل کے ذریعے اور کچھ وقت نماز اور تسبیح میں اللہ کو دینے کے ذریعے بھکاری اور فقیر بن جاتے ہیں ان کی موج ہوتی ہے‘ ان کی زندگی میں چین‘ سکون‘ راحت‘ رحمت اور برکت ہوتی ہے‘ آئیں! ہم فقیر کی موج سے کچھ حصہ لیں اور فقیر کی موج سے کچھ حصہ لے کر انسانیت کو بانٹیں۔ آج انسانیت کے پاس سب کچھ ہے سکون نہیں‘ ڈگریاں ہیں چین نہیں‘ بنگلے ہیں راحت نہیں‘ سواریاں اور گاڑیاں ہیں اطمینان نہیں‘ کیا خیال ہے؟ اطمینان اگر چاہیے اور سکون اگر چاہیے تو وہ تو صرف اور صرف آپ کو اللہ کے نام ہی سے ملے گا اور اللہ کو کچھ وقت دینے سے ہی ملے گا اگر اللہ کو کچھ وقت نہ دیا تو پھر بیت الخلاء میں اے سی‘ پنکھا یا کم از کم بہت دیر بیٹھنے کیلئے ایگزاسٹ لگانا بہت ضروری ہے اور جو وقت مصلے پر لگنا تھا وہ ٹائلٹ میں لگے گا ورنہ خدانخواستہ کچہریوں‘ تھانوں‘ عدالتوں‘ قطاروں میں اور ہسپتالوں میں لگ سکتا ہے۔ لہٰذا وقت بچائیں اور فقیر کی موج سے کچھ حصہ لیں‘ روح کی سنیں بھی‘ روح کیلئے سوچیں بھی اور روح کو کچھ وقت بھی دیں ذکر کے ذریعے‘ کسی کی خدمت کرکے‘ کسی کو تسلی دے کر‘ کسی کی ضرورت پوری کرکے‘ چاہے وہ کسی مذہب‘ فرقے یا زبان کا ہے‘ آئیے! فقیر کی موجیں ہمارا انتظار کررہی اور فقیر کی موج سے ہم بھی کچھ حصہ لیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں