(یہ صفحہ خواتین کے روز مرہ خاندانی اور ذاتی مسائل کیلئے وقف ہے۔ خواتین اپنے روز مرہ کے مشاہدات اور تجربات ضرور تحریر کریں۔ نیز صاف صاف اور صفحے کے ایک طرف لکھیں۔ چاہے بے ربط ہی کیوں نہ لکھیں۔ اُم اوراق)
حسین بننا چاہتی ہوں
سوال: میں درمیانے طبقے کی معمولی شکل وصورت کی ایک تنہا لڑکی ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں خوبصورت بننا چاہتی ہوں لیکن اب اپنی شکل کو کیسے تبدیل کروں۔ خوبصورت لوگوں کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوتی ہوں۔ خاص طور پر شوبز کی حسین خواتین کو دیکھ کر میرا احساس کمتری بہت بڑھ جاتا ہے، غصے اور صدمے سے میرے اعصاب تن جاتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ میں بھی ایسی ہی حسین ہوتی تاکہ لوگ مجھے بھی رشک سے دیکھتے۔ اس مسئلے کی وجہ سے میرا پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگتا۔ میں میڈیکل سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہوں۔ مجھے لوگوں کی نظروں میں اپنے لئے حقارت محسوس ہوتی ہے، حالانکہ وہ بظاہر میری پڑھائی کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں خوب مشہور ہو جاﺅں۔ ان خیالات نے میری زندگی کو سخت متاثر کیا ہے کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں پاگل ہو جاﺅنگی۔ (روبینہ تبسم، لاہور)
مشورہ: آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں خوبصورتی کا تصور غلط انداز میں بیٹھ گیا ہے۔ خوبصورتی محض چہرے کے حسن کا نام نہیں بلکہ اصل خوبصورتی تو کردار اور قابلیت کی خوبصورتی ہے جس کے سامنے ظاہری حسن کوئی معنی نہیں رکھتا۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے اتنا اچھا ذہن پایا ہے اور آپ کو خوبصورت ذہن کی طاقت کا احساس نہیں جو کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ چہرے کا حسن تو چند سال میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کی وہ خوبیاں باقی رہ جاتی ہیں جو اچھائی اور نیک نیتی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ آپ ایک قابل ڈاکٹر بن کرلوگوں کیلئے مسیحا ثابت ہوں گی۔ یاد رکھئے کہ انسان کی اہمیت اس کی شکل وصورت سے نہیں بلکہ اس کے کردار اور خوبیوں سے ہوتی ہے۔ یہ آپ کی غلط فہمی ہے کہ لوگوں کی نظروں میں آپ کیلئے حقارت ہے۔ایسا یقینا نہیں، چونکہ خود آپ ایسا سوچتی ہیں تو لوگوں کی نظریں آپ کو ایسی لگتی ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ایک اداکارہ یا ماڈل اپنے حسن سے زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال تک لوگوں کو متاثر کر سکتی ہے پھر کوئی ان کو پہچانتا تک نہیں مگر جو قابلیت آپ کے پاس ہے وہ ہمیشہ بڑھتی ہی رہے گی کم کبھی نہ ہوگی۔ آپ اس قسم کے بے کار خیالات کو ذہن سے نکال کر اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دیں۔ لوگوں سے خوش خلقی سے ملیں اور صاف ستھرا خوبصورت لباس پہنیں۔ پھر دیکھیں لوگ آپکو کتنا پسند کرتے ہیں اگر انسان اپنی نظروں سے خود کو گرا دے تو دوسرے اسکو کیا اہمیت دینگے!
ان پڑھ سسرال
سوال: میری جس گھر میں شادی ہوئی ہے وہاں سوائے میرے شوہر کے تمام افراد ان پڑھ ہیں۔ کسی کی کوئی تربیت نہیں ہوئی۔ ساس ظالم تو نہیں، لیکن ان کا رویہ بڑا مصنوعی ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ مجھے اکلوتی بیٹی کے مقابلے میں کم اہمیت دیتی ہیں۔ میرے شوہر کبھی میری اور کبھی ماں کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ کالج میں پڑھاتے ہیں جبکہ میں گریجویٹ ہوں میں گھر میں خود کو بہت تنہا اور نظر انداز کی ہوئی محسوس کرتی ہوں۔ آپ کوئی مشورہ دیں۔ (نجمہ بیگم۔ ساہیوال)
مشورہ: آپ کے سسرال والے تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ اس کا تو کوئی حل نہیں، مگر تعلیم یافتہ نہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان میں کوئی بھی خوبی نہ ہو۔ خوش خلقی، سچائی اور محبت کرنے کی خوبیاں صرف پڑھے لکھے لوگوں میں ہی نہیں ہوتیں۔ اس لئے اگر آپ تھوڑی سی کوشش کریں اور قربانی دیں تو آپ کے سسرال والے یقینا اس کا مثبت جواب دینگے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ خود آپ تعلیم یافتہ ہیں اس لئے آپ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ پہل کریں۔ نند آپ کی ہم عمر ہی ہو گی، اس لئے دوستی کی ابتداءان سے کریں ہو سکتا ہے کہ آغاز میں کچھ مشکل پیش آئے مگر یہ کوئی ایسا مشکل کام بھی نہیں۔ معلوم کریں کہ اس کی دلچسپی کن چیزوں میں ہے۔ اس طرح آپ بہت سہولت سے اس کی دوستی اور محبت حاصل کر سکیں گی۔ اسکے کئے ہوئے اچھے کاموں کی تعریف یا اسکی سہیلیوں اور دیگر معاملات میں دلچسپی لیں۔ آپ دیکھیں گی کہ وہ بہت جلد مثبت جواب دینے لگے گی کیونکہ اکلوتی ہونے کی وجہ سے وہ بھی گھر میں کسی سہیلی اور ہمراز کی خواہشمند ہو گی۔ نند سے دوستی کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ آپ کی ساس کا رویہ خود بخود بہتر ہو جائے گا جب وہ اپنی اکلوتی بیٹی کو آپکے ساتھ خوش دیکھے گی آپ نے خود لکھا ہے کہ وہ ظالم نہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر یہ کام اور بھی آسان ہے۔ پھر آپکے شوہر بھی تعلیم یافتہ ہیں، وہ بھی یقینا مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ شروع میں یقینا آپ کو برداشت کا مظاہرہ کرنا ہو گا لیکن اگر آپ واقعی اپنے گھر میں خوشگوار ماحول پیدا کرناچاہتی ہیں اور سسرال والوں سے اچھے تعلقات کی خواہش مند ہیں تو یہ قربانی کوئی زیادہ مشکل نہیں لگنی چاہئے، خاص طور پر جب اسکے نتائج اچھے نکلنے لگیں۔
خود اعتمادی کی کمی
سوال: میری عمر اٹھارہ سال ہے مجھ میں خود اعتمادی کی بہت کمی ہے۔ کوئی مذاق میں بھی کوئی بات کہہ دیتا ہے تو اس کے لئے گھنٹوں پریشان رہتی ہوں۔ خود کسی سے کوئی بات کروں تو بھی پریشان ہو جاتی ہوں کہ یہ بات کیوں کی، چاہے وہ بات بالکل بے ضرر ہی کیوں نہ ہو۔ میری کوئی قریبی سہیلی بھی نہیں، گھر والوں سے بھی کھل کر بات نہیں کر سکتی۔ براہ کرم میرا مسئلہ حل کریں میں سخت پریشان ہوں۔ (عظمیٰ سعد اللہ ،اسلام آباد)
مشورہ: آپ کا مسئلہ اتنا مشکل نہیں جتنا آپ سمجھ رہی ہیں۔ بعض بچے بچپن میں بیجا روک ٹوک سے بھی خود اعتمادی سے محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آپ سب سے پہلے تو لوگوں کی باتوں پر بے جا پریشان ہونا چھوڑ دیں اور ذہن کو کسی اور طرف مصروف کرنے کیلئے مطالعے کی عادت ڈالیں یا کسی کھیل وغیرہ میں حصہ لیں۔ کتابیں پڑھنے کا ایک اور فائدہ بھی ہو گا کہ آپ کو پتہ چلے گا کہ جو باتیں آپ لوگوں سے کرتی ہیں وہ بالکل بے ضرر ہیں اور یہ بھی معلوم ہو گا کہ دوستی کرنے اور لوگوں سے باتیں کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ آپ غور کریں کہ آپ کی باتوں پر لوگ کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ کونسی باتیں لوگ پسند کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھا کریں کہ جب تک آپ خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گی اس وقت تک کوئی مشورہ آپ کے کام نہیں آسکتا۔ دوست بنائیں کیونکہ اس سے انسان کو خود اپنے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اپنی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ دیں اور خود کو ہنر مند بنائیں۔ پڑھے لکھے اور ہنر مند انسان میں خود بخود اعتماد آجاتا ہے۔ اپنے گھر والوں سے اچھا تعلق ہی دیگر لوگوں سے تعلقات کی بنیاد بنتا ہے۔ آپ کو ایک مشق بتائی جا رہی ہے جو کافی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ روزانہ پندرہ بیس منٹ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود سے گفتگو کریں، یعنی خود ہی سوال کریں اور جواب دیں۔ اس سے آپ کے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور لوگوں سے گفتگو کے دوران گھبراہٹ میں بھی کمی آجائے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں