بات چیت اور رویہ میں غصے‘ جھنجھلاہٹ‘ اکتاہٹ‘ چڑچڑے پن اور کھردرے پن کا ثبوت نہ دیجئے۔ بچہ آپ ہی سے سیکھتا ہے۔ آپ ہی کی نقل کرتاہے اور ہر بات میں ویسا ہی ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسا آپ کرتے ہیں۔
اپنا بچہ کس کو پیارا نہیں ہوتا۔ پیار و محبت کی شدت ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہم اس کی ضرورت سے زیادہ دیکھ بھال اور نگرانی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس کو کسی قسم کا ضرر نہ پہنچے جسمانی طور پر بھی وہ تندرست رہے اور ذہنی و جذباتی لحاظ سے بھی صحت مند۔ اس کا کردار‘ اس کی عادات اچھی ہوں اور وہ بڑا ہوکر ایک مہذب‘ متوازن اورکامیاب انسان بنے۔ شاید اسی شدت آرزو ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ہم بچے کو متوازن بنانے کی کوشش میں خود متوازن نہیں رہتے اور اکثر و بیشتر تنبیہ و تحدید میں حد سے زیادہ آگے بڑھ جاتےہیں اور زیادہ تر منفی پہلو ہی اختیارکرتے ہیں۔ غالباً تصور یہ ہوتا ہے کہ اگر بچے کو بُری عادات سے بچالیا جائے تو سمجھئے اس کی تربیت کا حق ادا ہوگیا۔ چنانچہ ہماری تربیت کا انداز عموماً یہ ہوتا ہے کہ یہ نہ کرو‘ یہ کام نہیں کرتے‘ یہ کام اس طرح نہ کرو‘ یہ کیوں کیا؟‘ یہ کیا کردیا۔
اس انداز مخاطب و تادیب کا تجزیہ کیجئے تو صرف دو اجزاء آپ کو نظر آئیں گے ایک نفی‘ دوسرا تحکم‘ مجھے کہنے دیجئے کہ یہ دونوں اجزا تعمیر کے نہیں تخریب کے ہیں۔ اور تربیت کے لیے سخت مضر‘ آپ کا مقصد تو نہایت نیک ہے یعنی آپ چاہتے ہیں کہ اپنے بچے کو انسان بنائیں لیکن معاف کیجئے آپ کا طریقہ موزوں نہیں ہے‘ آپ جو کچھ چاہتے ہیں اس کیلئے طریقہ موزوں نہیں ہے آپ جو کچھ چاہتے ہیں اس کیلئے طریقہ بھی وہی اختیار کیجئے جو کامیاب ہو‘ آپ تعمیر چاہتے ہیں۔ انداز بھی تعمیری ہو جہاں تک ممکن ہو بچے کو تعمیری مشورے دیجئے۔
ایک غلط کام سے ایک غلط لفظ سے روکنا ہو تو بجائے یہ کہنے کہ ’’یوں نہ کرو‘‘ اس طرح نہیں بولتے! آپ اس کو یہ بتائیے کہ یہ کام اس طرح کرتے ہیں یا صحیح لفظ یہ ہے‘ آپ کے اس کہنے میں بھی تحکم نہ ہو بلکہ مشورہ کا انداز ہو۔
بچہ بھی ایک مستقل شخصیت رکھتا ہے۔ شخصیت کو سمجھنے اور تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔ بچے کو مناسب آزادی دیجئے تاکہ وہ اپنی اصلی شخصیت ظاہر کرسکے۔ آپ اس کی اپنی شخصیت کو دبائیے نہیں۔ پچکائیے نہیں۔ توڑئیے موڑئیے نہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ اپنی شخصیت کو اس پر مسلط نہ کیجئے۔
اگر اس کی شخصیت گول ہے تو اس کو چوکور بنانے کی کوشش نہ کیجئے اور چوکور ہے تو گول نہ کیجئے۔ ہاں تراش خراش ضرور کیجئے اور پالش بھی کرلیجئے جہاں تک ممکن ہو اپنے بڑےپن کو کام میں نہ لائیے۔ بچے سے معمولی (نارمل) لہجے میں بات کیجئے۔ بات چیت اور رویہ میں غصے‘ جھلاہٹ‘ جھنجھلاہٹ‘ اکتاہٹ‘ چڑچڑے پن اور کھردرے پن کا ثبوت نہ دیجئے۔ بچہ آپ ہی سے سیکھتا ہے۔ آپ ہی کی نقل کرتاہے اور ہر بات میں ویسا ہی ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسا آپ کرتے ہیں۔ اس کے اقوال و اعمال کیلئے نمونہ آپ ہی ہیں۔ جیسا دیکھے گا ویسا ہی کرے گا۔ جیسا سنے گا ویسا ہی کہے گا۔ آپ کے لہجے آپ کے رویے میں درشتی کے ساتھ ساتھ ضرورت سے زیادہ نرمی اور لجاجت اور گراوٹ بھی نہ ہوناچاہیے کیونکہ بچے کو متوازن بنانا ہے۔ اخلاق اور گفتگو میں بھی افراط و تفریط نہیں ہونا چاہے۔
جب آپ کو غصہ آرہا ہو تو کوشش کیجئے کہ بچے سے اس وقت بات نہ کریں۔ جذبات پر قابو پانے کے بعد بات کیجئے۔ اگر آپ سمجھتے کہ کسی بات یا فعل پر بچہ کو تنبیہ یا سزا کی ضرورت ہے تو اسے سزا دیجئے لیکن اس وقت جب آپ کا غصہ فرو ہوچکا ہو آپ اپنے آپ پر قابو پاچکے ہوں کیونکہ اس وقت کی تنبیہ فائدے کے بجائے نقصان پہنچائے گی۔ آپ کے جذبات کی تسکین تو ہوجائے گی لیکن بچے کی اصلاح نہ ہوگی کیونکہ اس وقت آپ کیلئے متوازن رہنا مشکل ہوگا۔
بعض بلکہ اکثر والدین اپنی پریشانی اور اپنے کام یا تفریح میں دخل اندازی کی وجہ سے بچوں کوکھیل سے روکتے ہیں۔ خود بیٹھے کام کررہے ہیں۔ یا کسی سےباتیں کررہے ہیں اور نہیں چاہتے کہ اس میں خلل پڑےاس لیے بچوں کو ڈانٹ رہے ہیں کہ چپ بیٹھو‘ شور نہ کرو‘ یہاں سے بھاگ جاؤ‘ وغیرہ وغیرہ لیکن میں اس کو خود غرضی کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگر قوت برداشت سے کام نہ لیں گے۔ صبر وضبط کا ثبوت نہ دیں گے تو بچوں میں تحمل اور حلم کہاں سے آئے گا۔ کھیل بچوں کی ایک ضرورت ہے۔ یہ ضرورت وہ بے وقت بھی پوری کرنا چاہتے ہیں۔ آپ ان کو روک سکتے ہیں۔ مگر مناسب وقت پر اور مناسب طریقہ سے۔ مقصد ان کی اصلاح ہونا چاہیے نہ کہ اپنی غرض۔ جہاں تک ممکن ہو ان کے مشاغل اور کھیل کود میں دخل نہ دیجئے۔ بچوں کا کھیل بھی ان کے کام کا حصہ ہوتا ہے۔ کھیل سے بھی وہ کام کرنا سیکھتے ہیں۔
بچوں کی تربیت بڑا کٹھن کام ہے۔ اس کیلئے آپ کو اپنی تربیت بھی کرنا پڑے گی۔ اپنی عادات بھی درست کرنا پڑیں گی۔ بعض والدین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ بچوں کو منفی ہدایات دیتے رہتے ہیں ہر بات سے روکتے ہیں‘ حالانکہ وہی کام کوئی بڑا آدمی کرے تو وہ ہرگز نہیں روکیں گے۔ بچوں کو ہر بات پر روکنے‘ ٹوکنے‘ منع کرنے‘ انکار کرنےسے ان کی شخصیت گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ ان کی قوت عمل گھٹ جاتی ہے۔ ان کی انا ٹھٹھر جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ بڑا ہوکر بھی ہر بات سے ڈرنے لگتا ہے۔ ہر کام کرنے میں جھجھکتا ہے۔ اس کی قوت عمل سرد اس کی قوت فکر مفلوج اور اس کی قوت فیصلہ مفقود ہوجاتی ہے۔ وہ ہر بات میں دوسرے کے مشورے‘ دوسرے کے سہارے اور دوسرے کے اکسانے کا محتاج ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا یہ انجام آپ کو گوارا نہ ہوگا۔ آپ ہرگز پسند نہیں کریں گے کہ وہ تابع مہمل بن کر زندگی گزارے‘ وہ مقلد محض رہے‘ قائد نہ بنے‘ شرم‘ جھجک‘ تامل‘ تدبذب‘ تکلف‘ تساہل‘ گومگو میں مبتلا‘ تمیم اور فیصلہ کی قوت سے محروم انسان کو کون پسند کرے گا؟
بچے کو ہمیشہ تعمیری مشورے دیجئے‘ دوستانہ رہنمائی کا انداز اختیار کیجئے۔ منفی کے بجائے مثبت رویہ اختیار کیجئے۔ اگر ایک کام کو آپ غلط یا برا بتائیں تو صحیح اور اچھے کام کی بھی نشاندہی کردیجئے۔ اس طرح ایک مثبت ذہن تیار ہوگا۔ ذہنی صحت و توازن کی بنیاد پڑے گی اوربچہ ذہنی طور پر زیادہ توانا ہوگا۔
بچے کی اپنی شخصیت کو ابھرنے کا موقع دیجئے۔ اس کی اپنی صلاحیتوں اس کے رجحانات اور جوہروں کو جلا کا موقع ملنا چاہیے۔ آپ اپنے رجحان کو اس پر زبردستی نہ تھوپیے۔ وہ اپنی شخصیت میں جس طرح اور جس حد تک آپ کی شخصیت کو جذب کرسکے گا۔ غیرارادی طور پر جذب کرلے گا۔ ہر انسان کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے۔ آپ اپنی تربیت سے اس کی مدد کیجئے۔ اس کی اصلی شخصیت کا گلا نہ گھوٹیے۔ اس مقصد کیلئے ضروری ہے کہ آپ اس کو پوری آزادی دیں۔ اس کو کسی جائز اور ضروری بات سے محض اس لیے نہ روکیں کہ وہ آپ کے مزاج کے خلاف ہے یا آپ کے مشاغل میں فرق آتا ہے۔ اس کو اپنی دنیا آپ بنانے‘ اپنے جوہروں کو اجاگر کرنے‘ کش مکش حیات کا مقابلہ کرنے کا اور مسائل کا فیصلہ کرنے اور اقدام کرنے کی صلاحیت بخشے۔ آپ کے بچے کی یہی بہترین تربیت اور انسان کی بہترین خدمت ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں