ایک ہندی کہاوت ہے ’’چوٹ سہے جو شبد کی وائے گرو میں داس‘‘ یعنی جو شخص لفظ کی چوٹ سہہ سکے وہ اس قابل ہے کہ اس کو پیشوائی کا درجہ دیا جائے اور دوسرے لوگ اس کے خادم بن کر رہیں۔لفظ کو سن کر بظاہر نہ کسی کا خون بہتا اور نہ کسی کا ہاتھ پاؤں ٹوٹتا‘ مگر لفظ کی چوٹ کو برداشت کرنا بلاشبہ کسی آدمی کیلئے مشکل ترین کام ہے‘ لفظ کی چوٹ وہی شخص برداشت کرسکتا ہے جس کے اندر گہرائی ہو‘ جوظاہری سطح سے اوپر اٹھ کر چیزوں کو دیکھ سکے۔مسٹر کرشنا مورتی(عمر90 سال) ہندوستان کے مشہور مفکر ہیں‘ وہ نہایت عمدہ انگریزی بولتے ہیں‘ چنانچہ ان کی تقریروں میں انگریزی داں طبقہ ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوتا‘ ہندوستان کے علاوہ مغربی ممالک میں بھی ان کی تقریریں دل چسپی سے سنی جاتی۔ تاہم ان کو شکایت ہے کہ ان کے خیالات کو کوئی عملی طور پر نہیں اپناتا۔ مدراس کی ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ پچاس سال سے میں دنیا میں سفر کرکے اپنے خیالات پیش کررہا ہوں مگر لوگوںکے اندرکوئی عملی حرکت پیدا نہیں ہوتی‘ کیا آپ لوگ اپنے آپ کو بدل لیں گے‘ انہوں نے مجمع سے سوال کیا۔ پھر خود ہی جواب دیا: آپ لوگ میری باتیں سن کرواپس چلے جائیں گے اور بدستور ویسا ہی کریں گے جیسا اب تک کررہے تھے۔ یہ سن کر مجمع میں سے ایک شخص اٹھا اور سخت غصہ میں کہا: ’’ہر سال آپ یہی کہتے ہیں کہ ہم آپ کا ساتھ نہیں دیتے پھر کس لیے آپ ہمیں اپنی بات سناتے رہتے ہیں‘‘ اس کے جواب میں مسٹرکرشنا نے نہایت نرمی سے کہا: ’’جناب! کیا آپ نے کبھی گلاب سے پوچھا ہے کہ وہ کیوں کھلتا ہے‘‘ تنقیدی بات سن کر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بپھر اٹھتا ہے مگر ایسے موقع پر بپھرنا خود اپنا ہی نقصان کرنا ہے اگر آپ مخاطب کی تنقید سن کر غصہ ہوجائیں تو آپ صرف تیز و تند الفاظ بولیں گے لیکن اگر اپنے موقع پر آپ اپنے جذبات کو سنبھال لیں تو آپ ایسی بات کہہ سکتے ہیں جو دل میں اترجائے اور مخاطب کو خاموش کردے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں