اسماعیل صاحب اگرچہ عالم نہیں تھے لیکن انتہائی دیندار اور تہجد گزار، نماز با جماعت اور تکبیر اولیٰ تک کے پابندتھے ان کے کل چھ بچے تھے۔ انتقال سے پہلے وہ جس اذیت ناک کرب والم میں اپنے بچوں سے متعلق فکر مند تھے اس میں ہم سب کے لئے عبرت ہے۔ ان کی تین بچیوں کی شادیاں ہو گئی تھیں لیکن لڑکے ابھی غیر شادی شدہ تھے ان میں سے چھوٹے دو ان کے لئے بدنامی کا سبب بن گئے تھے۔ وہ ناخلف اور آوارہ ہو گئے تھے اور پورے محلے اور گاﺅں کے لوگ ان سے تنگ آگئے تھے۔ دوسرا بچہ بدنام ترین شخص بن گیا تھا۔ وہ آخری وقت تک رو رو کر یہ کہتے رہے کہ اے اللہ! مجھے یاد نہیں کہ میں نے زندگی میں کوئی ایسا گناہ کیا ہو جس کی وجہ سے آج مجھے یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ ان کے ہم عمر بھی کہتے تھے کہ وہ بچپن ہی سے نیک اور صالح تھے، حرام وحلال کی ہمیشہ انہیں تمیز رہی، کبھی شراب وزنا اور جوئے کے قریب بھی نہیں گئے۔ ایک طرف ان کے یہ مثبت حالات تھے تو دوسری طرف ان کی اولاد کی یہ منفی کیفیات، گتھی سلجھ نہیں رہی تھی۔ میں نے بھی اس پر بہت غور کیا۔ اس سلسلہ میں ان کے ایک معاصر بزرگ نے میری مدد کی اور بات جلد ہی میری سمجھ میں آگئی۔ ان کے بزرگ ساتھی کا کہنا تھا کہ اپنی جوانی میں گھر سے مسجد جاتے ہوئے راستہ میں جب شریر لڑکوں کا اسماعیل صاحب کو سامنا کرنا پڑتا تو وہ ان کو طعنہ دیتے تھے کہ تمہیں کس بدمعاش باپ نے جنا ہے؟ کیا تمہارا باپ حرام کماتا ہے اور تمہیں کھلاتا ہے جس کی وجہ سے تم لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے؟ کسی کے متعلق کوئی منفی، ناپسندیدہ اور ناقابل یقین بات سننے میں آتی تو وہ سب کے سامنے تبصرہ کرتے کہ کمینوں کی اولاد بھی کمینی ہی ہوتی ہے، ان بچوں کے والدین نے بھی اپنی جوانی میں اس طرح کی حرکت کی ہو گی تبھی تو ان کی اولاد کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ غرض یہ کہ کسی کو طعنہ دینے اور کسی کے گناہ پر عار دلانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ مجھے یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث فوراً یاد آگئی کہ کوئی شخص کسی کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے تو مرنے سے پہلے خود اس گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کی مصیبت پر خوش نہ ہو اللہ تعالیٰ اس پر رحم کر دیگا اور تم کو اس مصیبت میں مبتلا کریگا، جو شخص اپنے بھائی کی ستر پوشی کریگا اللہ اس کا عیب چھپائے گا۔
میں نے دل میں کہا کہ ان کی اولاد کا یہ برا انجام جوانی میں ان کی اسی بدزبانی اور دوسروں کو عار دلانے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ان کے اسی بزرگ دوست نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں وہ بہت سخت واقع ہوئے تھے۔ ان کے کسی نازیبا فعل کو کبھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ ڈانٹتے، مارتے اور کبھی غصہ میں ان کو شیطان، ابلیس اور ملعون ومردود بھی کہہ دیتے، میں نے کہا کہ ضرور وہ قبولیت کی گھڑی ہو گی تبھی تو اللہ نے ان کی اولاد کو شیطان صفت بنایا۔ اس لئے کہ جس طرح اولاد کے حق میں والدین کی دعا جلد قبول ہوتی ہے اسی طرح والدین کی بددعا بھی اپنی اولاد کے حق میں جلد اپنا اثر دکھاتی ہے، اسی لئے کبھی بھول کر غلطی سے بھی غصہ وجوش میں اپنی اولاد کو ڈانٹنے میں غلط ناموں سے نہیں پکارنا چاہئے۔ مبادا وہ قبولیت کا وقت ہو اور اس کا اثر ظاہر ہو۔ میرے دل میں یہ بات بھی آئی کہ اگر انہوں نے اپنی اولاد کے حق میں پابندی سے اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی یہ قرآنی دعا کی ہوتی تو شاید ان کو یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے کہ اے اللہ! ہمیں ایسی بیویاں اور بچے عطا فرما جو ہمارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب بنیں اور ہمیں تقویٰ والوں کا امام بنا۔
رَبَّنَا ھَب لَنَا مِن اَزوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّةَ اعیُنٍ وَاجعَلنَا لِلمُتَّقِینَ اِمَامًا(سورہ الفرقان، آیت74)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں