عبد الکریم صاحب کم وبیش عرصہ بیس سال سے مع اہل و عیال انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ تین سال قبل ان کے دست وپا کی انگشت کے درمیان والے حصہ میں خارش نمودار ہوتی ہے جسے کھجلاتے وقت مریض سروراور سکون محسوس کرتا ہے اور چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ بقول ان کے انگلینڈ کے معالجین کے متعلق یہ سن کر تذبذب میں پڑ گیا کہ وہ مریض کے غمگسار اور محب بن کر بلا لالچ نہ صرف تیمار داری کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں بلکہ مرض کی تشخیص کے ساتھ ساتھ اس کا پیچھا بھی کرتے ہیں مگر جب اپنے ہاں نظر جاتی ہے تو عدم توجہی اور حصول زر کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔صاحب مذکور نے اپنے متعلقہ فیملی ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ علاج ہوا۔ دو ہفتہ بعد مرض دب گیا۔ ایک ماہ بعد مرض نے پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور چھوٹی چھوٹی پھنسیوں کی شکل اختیار کر گیا۔ خارش کا یہ حال کہ مریض دیواروں کے ساتھ جسم رگڑنے لگا۔ فیملی ڈاکٹر نے بڑے ہسپتال مع ریکارڈ مریض کو بھیج دیا وہاں میڈیکل سپیشلسٹ نے تقریباً چھ ماہ بعد مرض کنٹرول کر لیا۔
مگر شومئی قسمت کہ تین ماہ بعد مرض انتہائی بھیانک صورت میں حملہ آور ہوا کہ تمام جسم کے ساتھ ہاتھ پاﺅں(ہتھیلی اور تلوے) بھی زد میں آگئے۔ چلنے کے قابل رہا اورنہ کھانے کی سکت رہی۔ ہسپتال میں نرسوں نے اپنے اہل خانہ سے بڑھ کر توجہ دی۔ ماہرین نے مختلف ٹسٹ لئے، علاج شروع ہوا۔ مختلف مراہم پورے جسم پر لگنے شروع ہو گئے چھ ماہ ہسپتال میں رہے کبھی افاقہ کبھی اضافہ۔ اسی ہسپتال کے ایک مشرقی ڈاکٹر نے ہمدردانہ مشورہ دیا کہ فوراً پاکستان جاکر کسی ماہر طبیب کا علاج کرائیں۔ یہ مشورہ مریض کے بچوں نے ناصرف قبول کیا بلکہ سب کچھ چھوڑ کر مع مریض اپنے آبائی گھر پہنچ گئے۔ یہاں پھر مقامی اصرار پر ایک مشہور ڈاکٹر سے علاج شروع ہوا۔ ایک ماہ بعد بدن کی کھال متعفن ہونا شروع ہو گئی اور مریض انتہائی اضطرابی کیفیت میں چلا گیا۔ آخر بندہ سے رابطہ قائم کیا گیا چونکہ مریض چلنے پھرنے سے معذور ہو چکا تھا۔ اس وجہ سے خود مریض کا ملا حظہ کرنے گیا۔ یقین جانئے کہ آج تک اس سے بدتر حالت ان آنکھوں نے نہیں دیکھی تھی۔ مریض اور اہل خانہ نا صرف میرے شناسا تھے بلکہ ابا حضور رحمتہ اللہ علیہ جناب حکیم مولوی فیروز الدین جن کی تشخیص وتجویز بالخصوص صوفیانہ روش کے ناصرف لوگ معترف تھے بلکہ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ان کے برابر بیٹھنا بے ادبی تصور کرتے تھے۔ مریض مجھے دیکھ کر یاس وناامیدی کی نگاہ سے رونے لگا۔ تمام حاضرین جس میں میں بھی شامل تھا ان کے دکھ وکرب کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکے مریض کو تسلی دی اور مقامی طبیب کی موجودگی میں تشخیص مرض کے ساتھ علاج ان مدارج میں منقسم کیا۔ داخلی، خارجی، منضج، تنقیہ ۔ پہلا نسخہ درج ذیل تجویز کیا ۔عناب، شاہترہ، تخم کاسنی، گل سرخ، گاﺅ زبان، افتیموں، افسنتین، نیلوفر، تمام ادویات کو رات گرم پانی میں بھگو کر صبح نہار منہ ہمراہ معجون مصفی کھانے کی تلقین کی گئی۔ خارجی نسخہ کو نعمت خداوندی پایا۔ انگلینڈ ساختہ مراہم کی بجائے صرف شہد اور روغن زیتون کو تمام بدن پر ملنے کو کہا گیا۔ ایک ہفتہ بعد مندرجہ بالانسخہ میں چرائتہ، اسطخودوس، گل منڈی، آلو بخارا کا اضافہ کر دیا گیا۔ مگر خارجی نسخہ وہی رکھا یعنی شہد اور روغن زیتون۔ ہفتہ بعد اسی نسخہ میں پوست ہلیلہ سبز، سناءمکی، ترنجبین کو شامل کر دیا چونکہ مریض کے جوڑوں میں بھی درد تھا اس کے لئے جوہر کا ایک کیپسول دیا گیا۔ خدا کی شان دیکھ کر اس کا شکر ادا کیا، تین ہفتہ بعد مریض ناقابل یقین حد تک روبہ صحت تھا۔ سوداوی مادہ ختم اور سیاہ بدن اپنی اصلی شکل پر آچکا تھا۔ چہرہ با رونق ہو چکا تھا مریض سابق معلم تھا۔ اس نے اپنی طرف سے اپنا اضافی نوٹ درج ذیل لکھوایا کہ میں اس خبیث مرض سے لاچار اور مقہور تھا، صحت وشفا کی قطعی امید نہ تھی۔ لیکن خداداد نعمتوں، جڑی بوٹیوں بالخصوص شہد وروغن زیتون کی افادیت کو جہاں نعمت خداوندی پایا وہاں حکیم عبد الواحد ظفر ہاشمی کی تشخیص وتجویز کا معترف ہوا۔ اس روداد کے لکھنے کا مطلب اپنے آپ کو منوانا مقصود نہیں نا انگریز ڈاکٹروں پر فوقیت کے اظہار کیلئے ہے۔ یہ صرف طب اسلامی اور خداداد نعمتوں کی افادیت واہمیت کے اقرار کےلئے ہے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 824
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں