Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بچو! کیا کبھی آپ کسی غریب کی عیادت کرنے گئے ہیں؟

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2017ء

ہاں تو بتائیے اور کتنے دن آپ بیمار رہیں گے‘ بابا جی اب جلدی سے ٹھیک ہوجائیے تمام لوگ آپ کیلئے دعائیں کررہے ہیں۔ باباجی کی اہلیہ شکیلہ بی بی اندر سے پانی لینے گئی‘ امی نے باباجی کے سامنے ان کے تکیہ کے نیچے پانچ ہزار روپے رکھ دئیے‘ ارے ارے! یہ کیا کررہی ہیں

’’خدا جانے بابا رمضان کہاں رہتاتھا۔ اس کی سبزی کی دکان ہمارے گھر کے نزدیک ہی تھی‘ وہ کافی بوڑھا ہوچکا تھا۔ اس کے باوجود صبح سویرے منڈی جاتا‘ ریڑھے پر سبزیاں لاد کر لاتا اوردکان پر دھو دھو کر سلیقے سے سجاتا۔ موسم سردی کا ہو یا گرمی کا آندھی طوفان ہر کام وہ خود کرتا۔ سبزیاں وہ یوں رکھتا جیسے نازک سے کھلونے ہوں۔ محلے کے سارے لوگ بابا رمضان سے سبزی خریدتے۔ وہ ایک اچھے مزاج کا انسان تھا۔ اس کے بھاؤ بھی اکثر بازار سے کم ہی ہوتے۔ بابا رمضان پانچ وقت کا نمازی تھا‘ رش نہ ہوتا تو اردگرد کے دکاندار اس سے دینی مسائل پوچھتے‘ جوں ہی محلے کی مسجد سے اذان ہوتی وہ تمام کام چھوڑ چھاڑ دکان کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلا جاتا۔ اسی سال کی عمر میں بھی وہ چاق و چوبند تھا۔ ایک دن امی نے مجھے پیسے دئیے ’’جاؤ بابا رمضان کی دکان سے آلوبینگن لے آؤ‘‘ وہاں تو دکان بند تھی‘ اگلے دن بھی دیکھا دکان بند تھی‘ باباجی نے کبھی چھٹی نہیں کی تھی۔ اب تو متواتر چھ دن سے دکان بند دیکھ کر محلے دار ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے بابا رمضان کی دکان کیوں بند ہے؟ وہ کیوں نہیں آرہا۔ لوگ پوچھ پوچھ کر دوسری دکانوں سے سودا خریدنے لگے۔ میری امی چین سے بیٹھنے والی کہاں تھیں؟ انہوں نے بابا رمضان کی تلاش جاری رکھی۔ بالآخر پتہ چلا گوشت والے کا گھر باباجی کے گھر کے قریب شاہ عالم گیٹ میں ہے۔ باباجی بہت بیمار ہیں ان کا علاج ہورہا ہے میں آپ کو پتہ لکھ دیتا ہوں۔اگلے دن امی نے بابا رمضان کی عیادت کیلئے جانے کافیصلہ کرلیا۔ بابا کی دکان پندرہ دنوں سے بند تھی۔ سارے گاہک تتربتر ہوگئے تھے میں اور امی رکشے میں شاہ عالمی پہنچے۔ مگر وہاں باباجی کا گھر کوسوں دور تھا۔ تنگ و تاریخ گلیوں میں داخل ہوئے ایک آدمی سے بابا رمضان کی رہائش گاہ کا پتہ پوچھا کہ فلاں گلی نمبر اور مکان نمبر کہاں ہے؟ تو اس نے بتایا کہ وہ تو کافی آگے ہے‘ سیدھے جاکر دائیں مڑ جائیے دودھ دہی کی دکان والے سے پوچھ لیں۔ غرضیکہ پوچھتے پوچھتے آدھ گھنٹے کے بعد ایک پرانی طرز کے بنے شکستہ حال گھرکے شکستہ حال دروازہ سے ہم اندر داخل ہوئے‘ چھوٹا سا گھر ایک برآمدہ اور کمرے پرمحیط تھا‘ باباجی چارپائی پر دراز تھے۔ ’’السلام علیکم بابا جی!‘‘ امی نے اونچی آواز میں کہا۔ باباجی کے پژمردہ چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی‘ انہوں نے بستر سے اٹھنے کی کوشش کی‘ باباجی کا نوجوان بیٹا موڑھے لے آیا۔ ’’کیا حال ہے؟‘‘امی نے کہا۔ ’’بس جی بیماری نے میرا گھر دیکھ لیا ہے‘ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا‘‘ ایک بزرگ خاتون سے باباجی نے تعارف کرایا۔ ’’یہ میری بیوی شکیلہ ہے‘ اور یہ باجی روز میری دکان سے سبزی خریدتی تھی۔ اتنی دور سے میرا حال پوچھنے آئی ہیں‘ ’’اوئے پتر نس کے جا چائے پانی دا بندوبست کر‘‘ امی بولیں: ’’ نہیں نہیں!شکریہ کسی قسم کی کوئی زحمت نہ کیجئے‘ اور ہاں تو بتائیے اور کتنے دن آپ بیمار رہیں گے‘ بابا جی اب جلدی سے ٹھیک ہوجائیے تمام لوگ آپ کیلئے دعائیں کررہے ہیں۔ باباجی کی اہلیہ شکیلہ بی بی اندر سے پانی لینے گئی‘ امی نے باباجی کے سامنے ان کے تکیہ کے نیچے پانچ ہزار روپے رکھ دئیے‘ ارے ارے! یہ کیا کررہی ہیں‘ بابا جی نے احتجاج کرنے کی کوشش کی۔ ’’بابا جی! بیمار ہونے کی وجہ سے آپ کا سبزی کاکاروبار ختم ہوگیا ہے۔ جیسے ہی آپ صحت یاب ہوں اس چھوٹی سی رقم سے آپ دوبارہ منڈی جائیں گے‘ نئے حوصلہ اور ہمت سے کام شروع کریں گے تو آپ کے سبزی کے گاہک واپس آجائیں گے‘‘اچھا! اب ہم چلتے ہیں۔ امی نے موڑے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ مگر باباجی کی بیگم دو پیالیوں میں چائے لے آئی اور ان کا بیٹا بھاگ کر باہر سے آیا اور چھوٹے سے لفافے میں بسکٹ لے آیا۔ ان کی دل شکنی نہ ہو‘ امی نے چائے پیتے ہوئے کہا: ’’ماں جی ایسی چائے میں نے کبھی زندگی میں نہیں پی اور بسکٹ واقعی ہی لاجواب اور تازہ ہیں‘‘ راستے میں میں نے کہا: ’’امی جان اتنی بڑی رقم آپ نے بابا جی کو دے ڈالی‘ ہمارے یونیفارم کا کیا بنے گا؟‘‘ امی جان! نے آسمان کی طرف نگاہ کرتے ہوئے کہا فکر نہ کرو چندا! تمہارا یونیفارم بھی بنے گا اور تمام ضروریات بھی پوری ہوں گی۔ یہ پیسے تو میں نے تمہارے کپڑوں کیلئے ہی رکھے تھے۔ میرے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ ایک بزرگ ہماری تھوڑی سی کوشش سے دوبارہ ہمت کرکے اپنے کام میں لگ جائے گا‘‘ یہ کہہ کر امی نے رکشے والے کو گلبرگ چلنے کیلئے کہا۔ (شبانہ یونس)
مہمان نواز شخص
کسی بستی میں خدا کاایک پیارا بندہ رہتا تھا۔ وہ اتنا اچھا تھا کہ لوگ اُسے خدا کا دوست کہتے تھے۔ اُس کی ایک عادت تو بہت ہی عجیب تھی۔ جب تک اُس کے گھر میں کوئی مہمان نہ آجاتا وہ خود بھی کھانا نہ کھاتا۔ ایک دفعہ مسلسل کئی روز اُس کے گھر میں کوئی مہمان نہ آیا۔ خدا کا یہ دوست بھی بھوکا ہی رہا۔ بستی والوں نے بہت سمجھایا مگر وہ خدا کا نیک بندہ دسترخوان پرنہ بیٹھا اور بستی سے باہر نکل کر کسی مسافر کا انتظٓار کرنے لگا۔ خدا خدا کرکے اسے ایک بوڑھا مسافر دکھائی دیا۔ مسافر کو دیکھ کر وہ نیک دل انسان بہت خوش ہوا اور بڑے احترام سے مسافرسے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگا۔ وہ بوڑھا مسافر بھی کوئی بہت ہی عجیب انسان تھا۔ ہر بات کا ٹیڑھا جواب دیتا۔ خدا کا دوست پھر بھی اُس سے ناراض نہ ہوا۔ کھانا تیار ہوا تو مسافر کو بڑے احترام سے بٹھایا گیا۔ سب لوگوں نے بسم اللہ پڑھ کر کھانے کا آغاز کیا مگر اُس بوڑھے مسافر نے بسم اللہ پڑھے بغیر کھانا شروع کردیا۔ میزبان نے پہلی بار ذرا سخت لہجے میں پوچھا: ’’محترم برزگ! جس خدا نے ہمیں اتنی نعمتیں عطا کی ہیں‘ کیا ہمارا فرض نہیں کہ ہم کھانا کھانے سے پہلے اس کا نام ہی لے لیں؟‘‘ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘ مسافر نے تلخی سے جواب ’’کیونکہ میرے رہنما نے ایسا کرنے سے مجھے منع کررکھا ہے‘‘باتوں باتوں میں خدا کے نیک بندے کو معلوم ہوگیا کہ اس کا مہمان پرلے درجے کا کافر اورخدا کی ہستی کا انکار کرنے والا تھا۔ میزبان یہ بات برداشت نہ کرسکااور اس نے بڑے غصے سے کہا: ’’جو شخص خدا کی ہستی کا انکار کرے وہ میرا مہمان نہیں ہوسکتا‘‘ یہ کہہ کر میزبان نے اپنے مہمان کو گھر سے نکال دیا۔ وہ مسافر بھی سب کو بُرا بھلا کہتا ہوابستی سے نکل گیا۔خدا کا نیک بندہ اپنے مہمان کوگھر سے نکال کر پریشانی میں مبتلا ہوگیا۔ رہ رہ کر اسے اس کافر کی بیوقوفی کا خیال آرہا تھا۔ ’’آخر یہ لوگ اپنے سچے پروردگار کا شکر کیوں ادا نہیں کرتے‘ وہ پروردگار جو ہم انسانوں کی ساری ضروریات پوری کرتا ہے‘‘ خدا کا وہ نیک دل بندہ اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ غیب سے آواز آئی ’’میرے پیارے بندے! تو نے مہمان کو گھر سے نکال کر کوئی اچھا کام نہیں کیا‘ میں نے سوبرس تک اسے روزی دی اور تو اسے ایک وقت کا کھانا نہ کھلا سکا‘ حالانکہ وہ کھانا میرا ہی دیا ہوا تھا۔ وہ میری خدائی کا انکار کرسکتا ہے کہ میں نے اسے ایک مقررہ وقت تک ڈھیل دے رکھی ہے لیکن میں نے تو اسے پیدا کیا ہے‘ میں کیسے کہہ دوں کہ وہ میرا بندہ نہیں۔‘‘ خدا کا نیک بندہ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا۔ اس کے بعد وہ ہر انسان کو صرف انسان اور خدا کا بندہ سمجھ کر اپنا مہمان بناتا۔ سبق: ہر شخص کو اپنے عمل کا بدلہ ضرور ملتا ہے۔ اس لیے برائی کا بدلہ بھی بھلائی سے ہی دینا چاہیے۔ (انتخاب: سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)

Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 318 reviews.