جنسی قوت درحقیقت ایک طبعی قوت اور صلاحیت ہے۔ شہوت کا جذبہ ایک فطری خواہش ہے جسکا اصل مقصد نسل انسانی کو قائم رکھنا ہے۔ تجرد یا برہم چاریہ اسکی ضد ہے۔ ایک خاص وقت تک اس خواہش کا ترک کرنا درست ہے لیکن اسکا بالکل ترک کر دینا فطرت کے خلاف ہے۔ اس صلاحیت کا مقصد یہ بھی نہیںہے کہ ہر وقت اس کی دھن سوار رہے۔ اسکا صحیح استعمال جائز انداز ہی میں اعتدال کیساتھ ہونا چاہئے۔ اس میں جسمانی لذت وراحت پوشیدہ ہوتی ہے تو روحانی اور قلبی سکون بھی ملتا ہے۔ ناجائز انداز اور کثرت، جسم وروح دونوں کو گھن کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ حیوانات اپنے دیگر افعال کی طرح اس فعل کے معاملے میں بھی کثرت کی راہ اختیار نہیں کرتے۔ اسکی کثرت کئی امراض کا سبب بن جاتی ہے جن میں سرعت انزال، جریان منی، دماغ کی کمزوری، چکر کی شکایت، جنون، رعشہ، فالج، ذیابیطس اور دق وسل جیسے گھلانے والے امراض قابل ذکر ہیں۔ یہ امراض وقت سے پہلے چل چلاﺅ کا سامان کرتے ہیں۔
رجولیت کی یہ طاقت اعتدال اور احتیاط کے ساتھ برتنے کی صورت میں لمبی عمر تک ساتھ دے سکتی ہے۔ مردانہ طاقت کے خاتمے کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ دواﺅں اور غذاﺅں کی بوتلوں پر تو ان کے قابل استعمال ہونے کی تاریخ درج کی جا سکتی ہے لیکن کسی جسم پر ایسا کوئی لیبل نہیں لگایا جا سکتا، تاہم عمر میں اضافے کے ساتھ بے احتیاطی اور بے اعتدالی کی وجہ سے یہ صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ طب جدید حال تک مردانہ قوت کے خاتمے یا اس کی عدم موجودگی کو نفسیاتی خامی قرار دیتی تھی لیکن اسکے بارے میں اس کا نظریہ اب قدیم مشرقی طبوں سے ہم آہنگ ہونے لگا ہے اور وہ ان طبوں کی طرح اسے مختلف عوامل واسباب کا نتیجہ قرار دینے لگی ہے۔ اس قوت کی راہ میں حائل کئی رکاوٹوں کو بڑھاپے کا نتیجہ قرار دیکر نظر انداز کرنیکا طریقہ ترک ہوتا جا رہا ہے اور یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ زندگی میں اعتدال اور تبدیلی کے ذریعے سے اس قوت کو تازہ دم اور تیز رکھا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں تحقیق اور مطالعات کا سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ امریکہ میں ہونے والے ایسے مطالعے میں 1300 مردوں کو شامل رکھ کر ان کی اس صلاحیت کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں 40 سے 70سال کے افراد شامل تھے۔ اس مطالعے سے اندازہ ہوا کہ ان میں سے کسی نہ کسی مرد کو اس مسئلے کا سامنا تھا مثلاً ان میں اکثر نے عضو خاص میں دوران خون اورسختی نہ آنے کی شکایت کی۔ طبی اصطلاح میں اسے خیزی یا ایستادگی نہ ہونے کی شکایت کہتے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ان میں اکثر شکایات قابل علاج تھیں بلکہ انہیں روکا بھی جا سکتا تھا یعنی صحت مند طرز حیات اختیار کر کے اس کمزوری سے بچنا ممکن اور آسان ہوتا ہے جس طرح گاڑی کی دیکھ بھال کرنے اور بروقت مرمت سے وہ برسوں بڑی عمدگی سے چلتی رہتی ہے،یہی حال انسانی جسم کا ہے۔ صحت کے اصولوں کی پابندی اور اعتدال کے ذریعے سے جنسی صلاحیت برقرار رکھی جا سکتی ہے یہاں ایسے چند اصولوں کا تذکرہ یقینا مفید اور ضروری ہو گا۔
صحیح غذا اور ورزش
اوپر ذکر کئے ہوئے طبی مطالعے سے ظاہر ہوا کہ جسم میں گاڑھے (غلیظ) قسم کے روغنی لحمیات (لیپوپروٹین) کی سطح میں کمی سے مردانہ صلاحیت بے کار ہو جاتی ہے۔لیپوپروٹین لحمیات کی ایک قسم ہوتی ہے جو خون کے پلازما اور لمفاوی رطوبت میںموجود رہتے ہیں اور ان میں چربیاں یا دیگر چکنائیاں مثلاً کولیسٹرول شامل رہتی ہیں۔ یہ خون اور لمفاوی رطوبت میں چکنائیوں کی منتقلی کیلئے ضروری ہوتے ہیں۔ قلب کے امراض، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے زیر علاج مریض ان امراض کی دواﺅں کے استعمال سے آگے چل کر مکمل طور پر مردمی قوت سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اس کے برخلاف ان امراض سے محفوظ افراد میں یہ طاقت برقرار رہتی ہے۔ مردانہ طاقت کے مرکز واقع ڈلاس کے بانی، ڈاکٹر کینتھ گولڈ برگ کے مطابق ان امراض کا مقابلہ باقاعدہ ورزش اور صحت بخش غذاﺅں کے ذریعے سے کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ذریعے سے وزن خوب کم ہوتا ہے اور یہ امراض پاس نہیں پھٹکتے۔ اس لئے جوانی ہی سے باقاعدہ ورزش کی عادت ڈالنی چاہئے۔اس کے ساتھ اچھی غذا کے استعمال اور باقاعدہ ورزش کی وجہ سے جسم میں خون کی روانی ٹھیک رہتی ہے۔ بہتر اور کامیاب جنسی صحت کے لئے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس مطالعے سے اندازہ ہوا کہ اکثر افراد کا اصل مسئلہ شریانوں یعنی دوران خون کی کمی سے تعلق رکھتا تھا۔ ناقص دوران خون نے انہیں نامرد بنادیا تھا۔ چربیلی اور روغنی اشیاءکے کثرت استعمال سے پرہیز کے علاوہ باقاعدہ ورزش سے نہ صرف یہ کہ کمر چوڑی نہیں ہو گی، بلکہ عضو خاص کی رگوں میں رکاوٹ نہیں ہو گی اور ان میں خون کا دورانیہ خوب ہو گا۔
فکروتشویش سے بچئے
جنسی زندگی کی بقا اور صحت کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ عضو خاص میں دوران خون ہوتا رہیبلکہ اس کیلئے ذہن کا خوف، فکر وتشویش سے آزاد ہونا بھی ضروری ہے۔ اس مطالعے سے یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ پستی،غصے اور عدم برداشت کا جنسی صلاحیت پر بڑا منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔ غصے کے عادی مردوں میں سے 35فیصد کی رجولیت کی طاقت کمزور تھی تو 20فیصد مکمل طور پر ناکارہ تھے۔ڈاکٹر گولڈ برگ کے مطابق اس اعتبار سے ذہنی دباﺅ، فکروپریشانی اور کرب سے نجات بہت ضروری ہے۔ ہم جب بھی جذباتی طور پر بھڑکتے یا ذہنی پستی کا شکار ہوتے ہیں،ہمارے اعصاب ایک قسم کی ایڈرینالین رطوبت خارج کرتے ہیں جو خیزی کی قوت کو راستے ہی میں ختم کر دیتی ہے۔ اسی لئے چوری ڈکیتی کی واردات، گولیوں کے چلنے کے شور اور چیخ وپکار کے دوران کبھی خیزی نہیں ہوتی۔ آپ جب بھی پریشان ہوتے ہیں، ایڈرینالین آپ کے نظام میں داخل ہو کر عضو کی خیزی کی صلاحیت کو سیاہی چوس کاغذ کی طرح جذب کر لیتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں