لوگ خوشی سےجھو م اٹھے:اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ لوہے کی مضبوط دیوار یہاں لگائی جائے لوہے کی مضبوط دیوار جو کہ ہاتھی کے قد سے اونچی تھی اس انداز سے پیوست کی گئی کہ اگر ہاتھی بپھر جائے اور پاگل ہوجائے تو اس دیوار سے باہر نہ نکل سکے پھر اس کے بعد ایک پاگل ہاتھی منگوایا گیا جس کے دانتوں پر نوکدار لوہے کی سلاخیں چڑھی ہوئی تھیں اور وہ سدھایا ہوا (ٹریننگ یافتہ) ہاتھی تھا جو بڑے بڑے مجرموں کو قتل کرنے اور ان کو عبرتناک سزا دینے میں بہت ماہر تھا جس وقت لوہے کی دیوار بنائی گئی لوگ سمجھ گئے کہ آج اس ظالم ڈاکو اور جادوگر جن کو جس نے لاکھوں لوگوں کے گھر برباد کیے‘ ہزاروں عورتوں کی عصمتوں کو تار تار کیا ‘بے شمار لوگوں کے گھروں کو لوٹا‘ انہیں بیماریوں میں‘ تکالیف میں‘ دکھوں ‘مصائب اور غموں میں مبتلا کیا یہ سب اس کیلئے تیاری ہورہی ہے۔ لوگ یہ سب دیکھ کر خوشی سے جھومنے لگے اور ایک شور جو بادشاہ اور شہنشاہ جنات کے حق میں اٹھا اور شہنشاہ جنات خاموشی سے یہ سب منظر دیکھ رہے تھے‘ لوگوں کا ولولہ‘ جوش قابل دید تھا۔ لوگوں کا ایک وہ انداز بھی سامنے تھا جس میں غم‘ ستم‘ دکھ‘ درد‘ مسائل اور مشکلات تھیں اور لوگوں کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ جس میں لوگ اس شخص کی سزا کا براہ راست منظر دیکھنا چاہتے تھے۔یہ جن کسی معافی کے قابل نہیں: اسی دوران ایک جھومتا ہوا ہاتھی میدان میں آچکا تھا‘ جس کے اوپر بادشاہ کے شاہی پرچم کی جھول ڈلی ہوئی تھی ایک ہیبت ناک جن اس کو پکڑ کر لایا اس کے دانتوں پر تیز چمکتی ہوئی سلاخیں چڑھائی ہوئی تھیں وہ دائیں بائیں دیکھ رہا تھا کہ آج اس کا شکار کون ہے؟ اس منظر کو دیکھ کر ظالم جادوگر جن چیخ پڑا اور رحم کرو‘ معاف کرو‘ مدد کرو کی پکار اور آواز لگانے لگا‘ اس کی اس آواز پر مجمع کے غم اور غصہ کی کیفیات بڑھ گئیں اور ہر جن و انس کہہ رہا تھا کہ یہ وہ جن ہے جو کسی بھی شکل میں معافی اور رحم کے قابل نہیں ہے۔ شور‘ آہ و بکا اور طلاطم:مجمع میں شور تھا اور وہاں آہ و بکا بھی تھی اور حد سے زیادہ ایک طلاطم تھا‘ ہر کوئی اس ظالم جادوگر کو مارنے کا مطالبہ کررہا تھا لیکن اسی دوران ایک بہت لمبے قد کا شخص جو کہ انسان تھا‘ کھڑا ہوا اور پکار پکارکر کہنے لگا کہ شہنشاہ اعظم میری درخواست‘ شہنشاہ اعظم میری درخواست‘ آخرکار بادشاہ نے اس کی طرف توجہ فرمائی اور سب مجمع کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا تو یکایک سکوت چھا گیا اور ایسا سکوت چھایا کہ شاید کسی کے جسم میں جان بھی نہیں ہے۔ شہنشاہ جنات نے اشارہ سے اسے بولنے کا حکم دیا۔
خدارا اس جن کو قتل نہ کریں:جب اس کو بولنے کا حکم دیا تو شہنشاہ جنات نےا س سے پوچھا بولو کیا کہتے ہو؟ کہنے لگا حضور‘ آقا !میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ اس جن کو قتل نہ کریں‘ اس نے کبھی بھی کسی کو قتل نہیں کیا‘ ہمیشہ ہرفرد کو اس نے سسکایا ہے چاہے وہ انسان ہو یا جنات اس کو سسکتے لاشے‘ تڑپتے لوگ‘ ابلتا خون اور بہتی ندیاں اچھی لگتی ہیں‘ یہ انسان نہیں‘ یہ جن بھی نہیں یہ درندہ بھی نہیں یہ خونخوار بھی نہیں یہ دراصل شیطانی راکھ سے بنا ہوا ہے‘ یہ شیطانی شعلوں سے بنا ہوا ہے اور یہ بہت بدبخت جن ہے‘ اسے قتل نہ کیا جائے‘ ہاتھی پل بھر میں اس کو ختم کردےگا ہم اس کا انجام نہیں دیکھ سکیں گے۔ ہمارا اندر ایسے ٹھنڈا نہ ہوگا:بس یہ کہنا تھا کہ مجمع ایک دم چیخ پڑا اور اس کی حمایت میں سب بول پڑے کہ شہنشاہ جنات سوفیصد ٹھیک ہے‘ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ اس کا انجام یہی کیا جائے۔ اس کو یکایک نہ مارا جائے ورنہ تو ہمارے دل کی حسرتیں ویسے کی ویسے رہ جائیں گی اور ہمارا اندر ٹھنڈا نہیں ہوگا‘ یہ شخص نفرتیں پھیلا چکا ہے‘ یہ گھروں کو توڑ چکا ہے‘ یہ ظلمتیں پھیلا چکا ہے اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم آپ کے حکم کو مانیں گے‘ ہم آپ کے رعایا ہیں لیکن ہمیں آپ سے یہ درخواست کرنی ہے کہ پہلے اس کا کان کاٹا جائے اور اس کان کو درندوں کو کھلایا جائے اور یہ سسکتا رہے‘ تڑپتا رہے اور ہمارا سارا مجمع اس کو دیکھ کر خوش ہو اس نے کسی کی ماں کو کاٹا کسی کی بہن کو کاٹا ‘کسی کے بیٹے کو تڑپایا‘ کسی کے بھائی کو ذبح کیا‘ اس نےنوخیز دوشیزہ اور لڑکیوں کو سسکا سسکا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنایا‘ اس کے دل میںرحم کا ذرہ نہیں‘ اس کی آنکھوں میں حیا اور ترس نہیں۔ مجمع مسلسل پکار رہا تھا اور بادشاہ خاموشی سے مجمع کو دیکھ اور سن رہا تھا۔ بھوکے پرندے کو آنکھ کھلادو!:آخرکار وہ انسان پھر بولا حضور آقا ہم یہ چاہتےہیں کہ اس کی ایک آنکھ نکالی جائے پھر اس آنکھ میں نمک ڈالا جائے اور یہ تڑپے اور وہ آنکھ کسی پرندے کو کھلا دی جائے کوئی بھوکا پرندہ ایسا ہو جو اس کی آنکھ پر جھپٹ پڑےا ور اس کی آنکھ کھا کر چلا جائے اور پھر دوسری آنکھ کےساتھ بھی یہی کیا جائےاور دوسری آنکھ میں راکھ بھر دی جائے یہ اس کی جلن سےتڑپے اس کا انگ انگ اس کا لمحہ لمحہ سوزن ہو اور ہمیں اپنی تکلیفوں کو احساس جاتا نظر آئے۔ ہمیں اس نےاتنی زیادہ تکالیف دی ہیں اور ہمیں اتنے زیادہ غم دئیے ہیں کہ ہم ان تکالیف اور غموں میں سوفیصد کھو چکےہیں اور اپنا سب کچھ ختم کرچکے ہیں۔ ہمارے حال پر ترس کھائیں: ہمارا اس نے کچھ نہیں بچایا ہمارے ہر پل کو اس نے مغموم اور غم زدہ کیا ہے‘ ہمارے حال پر آپ ترس کھائیں اور ہمارے حال پر آپ رحم کھائیں ہمیں اس کی موت آسان نہیں چاہے‘ ہمیں اس کی موت بہت مشکل چاہیے ہمیں اس کیلئے آپ سے موت مانگنی ہے لیکن آسان موت نہیں مانگنی اور ہمارے حال پر آپ ترس کھائیں وہ شخص پکار رہا تھا‘ رو رہا تھا ‘سسک رہا تھا‘ ابل رہا تھا‘ اس کا رونا‘ اس کا پکارنا اور اس کا سسکنا ایسا تھا کہ پتھر سے پتھر شخص بھی موم ہوجاتا۔شاہ جنات کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے: پہلی دفعہ خود شاہ جنات کی آنکھ میں آنسو آگئے حالانکہ اس سے پہلا مجمع بہت رویا تڑپا چلایا لیکن شاہ جنات کے ضبط کے بندھن نہیں ٹوٹے لیکن آخرکار شاہ جنات بھی رو پڑے انہوں نے اپنی شاہی قبا سے اپنے آنسو سنبھالے اور پھر اگلے پل شاہ جنات کو جلال آگیا اور ایک دم کھڑے ہوئے ان کے کھڑے ہوتے ہی تمام بے شمار انسانوں اور جنات کا لاکھوں سے زیادہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر جامد اور ساکت ہوگیااور شاہ جنات بولے ہاتھی کو دور لے جاؤ‘ اور اس کے مہاوت نے فوراً ایک چھلانگ لگائی ا ور پھرتی سے ہاتھی پر چڑھا اور پھرتی سے ہاتھی کو سارے مجمع سے دور لے گیا ۔تین شاہی جلاد: پھر شاہ جنات نے حکم دیا اس ظالم جادوگر کو سامنے لایا جائے اور تین جلاد بلائے اور ان جلادوں کو حکم دیا کہ اس کے چاروں طرف اس کو گھیر لیں پھر ایک جلاد کو فرمایا اس کے خنجر کی نوک سے بال ادھیڑیں اس نے خنجر کی نوک سے اس کے بال ادھیڑے اس کی چیخیں تھیں‘ اس کا واویلا تھا‘ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف اس کی چیخیں تھیں اور دوسری طرف مجمع کے قہقہے تھے اور مجمع کی واہ واہ تھی۔ کوئی ایک آنکھ ایسی نہیں تھی جو اس کی چیخوں پر روئی ہو کوئی ایسا فرد نہیں جو اس کے غم پر غمزدہ ہوا ہو بلکہ خود شاہ جنات کی آنکھوں سےبھی خوشی کے آثار نظر آرہے تھے اور وہ یہ سارامنظر دیکھ رہے تھے۔ تینوں جلاد اور ہرطرف جنات ننگی تلواریں لیے کھڑے تھے‘ اس کے بال ادھیڑنے میں ایک جلاد کی باری ختم ہوتی۔ جلاد اس کے بال تھوڑے تھوڑے ادھیڑتا بال کیا ادھڑتے اس کے جسم اور سر کی جلد کے ٹکڑے
اس کے ہاتھوں میں آجاتے اور یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے
ایسے ہوجاتے کہ وہاں سے خون کے فوارے نکلتے اور وہ خون کے فوارے بڑھتے چلے جاتے اس کا سارا جسم رنگین ہوگیا تھا حیرت کی بات تھی کہ اس کا خون ختم نہیں ہورہا تھا اور وہ سخت جان بھی تھا‘ کھڑا رہا گرا نہیں۔ابلتا خون اور قہقہے: جب بادشاہ نے اس کی سخت جانی کو دیکھا تو تینوں جلادوں کو اکٹھا اس پر حملہ کرنے کا حکم دیا کہ اس کے تمام سر کے بال ٹکڑے ٹکڑے کرکے اتاریں جائیں‘ اندر سے اس کی خون زدہ ابلتےخون کے ساتھ جلد نظر آئی۔ اس کے جلد میں ابلتے فوارے تھے ابلتا خون تھا اور مجمع کے قہقہے تھے‘ اور انسانیت اور جنات کو ایک سبق مل رہا تھا کہ ظلم کا انجام آخر ظلم ہوتا ہے ظلم کا بدلہ آخر ملتا ہی ہے‘ چاہے اس دنیا میںملے یا آخرت میں ملے۔اور جادو گر جن اپنی چال چل گیا: یکایک منظر بدلا اور تینوں جلادوں کے ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے اور وہ فاتحانہ انداز میں دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ ان کے ہاتھ ایسے تھے جیسے جامد اور ساکت ہوگئے اور کسی طاقت نے ان ہاتھوں کو پکڑکر شاید وہیں روک دیا تھا۔ شاہ جنات کی گرجتی اور کڑکتی آواز نے جلادوں کو حکم دیا کہ تم کیوں رک گئے ہو‘ لیکن جلادوں کی آواز پتھرا گئی تھی‘ جسم بھی جامد ہوگیا تھا اور ہاتھ بھی ساکت ہوگئے تھے انہیں احساس ہوا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن وہ بول بھی نہیں سکتےتھے۔ شہنشاہ نے پھر آواز دی آخرکار ساتھ بیٹھے شہنشاہ کے وزیراعظم نے مؤدبانہ عرض کیا حضور لگتا یہ ہے کہ اس جادوگر نے اپنا کوئی جادو چلا دیا ہے کہ ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ شہنشاہ نے اپنی غصہ بھری آواز میں کہا کہ ہم نے تو اس کے جادو کو ختم کردیا تھا اور ہم نے اس کے جادو کو پکڑ لیا تھا اور گھیر لیا تھا اب اس کے جادو کا کیا تعلق؟ شاہی عاملین کی فوری آمد: لیکن نظام شاید کچھ بدل گیا تھا‘ اس کے جادو کا کوئی ایک گر اس کے پاس موجود تھا جو اس نے چھپایا ہوا تھا شہنشاہ نے حکم دیا کہ شاہی عامل لائے جائیں اور ایسے لوگ بادشاہ کے پاس موجود ہوتے تھے جو کالے جادو کو ایک پل میں توڑ دیتے تھے ان میں ایک انسان تھا اور تین جنات تھے ایک جن کی عمر انیتس سو سینتالیس سال کی تھی‘ دوسرے جن کی عمر ستائیس سو انیس سال اور تیسرے جن کی عمر بارہ سو سات سال کی تھی اور انسان کی عمر اسی سال سے زیادہ تھی۔ وہ فوراً آئے انہوں نے عامل کے گرد گھیرا ڈال دیا اور اپنا علم پڑھنے لگے پڑھتے پڑھتے تھوڑی ہی دیر ہوئی ان میں ایک جلاد گرا اور اس عامل نے تیزی سے اس جلاد کے ہاتھ سے خنجرلے لیا دراصل اس ظالم جن کے پاس ایک گر رہ گیا تھا جو اس نے اپنے خاص علم کے تحت اپنے اندر چھپایا ہوا تھا وہ اس لیے مطمئن تھا اسے پتہ تھا کہ جب یہ گُر مجھ سے چھن گیا اب اس کے بعد میری موت ہی ہے اور میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ شاہ جنات کو ختم کرنے کا بھیانک منصوبہ:اس نے اس لیے جلادوں پر اپنی طاقت اور وہی خفیہ عمل کیا اور عمل نہیں کیا بلکہ اس نے ساتھ یہ بھی کیا کہ جب جلاد اپنی اصل حالت میں آئیں قریب کھڑے جتنے بھی لوگ ہیں ان پر پلٹ پڑیں اور بہت سے لوگوں کو قتل کردیں حتیٰ کہ اس کے عمل کا اصل مقصد یہ تھا کہ شاہ جنات پر تینوں جلاد ٹوٹ پڑیں اور شاہ جنات کو ختم کردیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری‘ عامل یہ چیز بھانپ گئے تھے اور اس لیے فوراًان کے ہاتھ سے خنجر چھین لیا ۔عامل اپنا عمل کرتے رہےتھوڑی دیر کے بعد دوسرا جلاد گرا‘ اسی عامل نے تیزی سے اس کے ہاتھ سے خنجر لے لیا پھر تھوڑی دیر کے بعد تیسر اجلاد گرا اور اس سے بھی خنجر لے لیا گیا۔ جلاد بالکل جامد اور ساکت جسم کے ساتھ پڑے تھے ان کی اس حالت کی بنیادی وجہ ان تین جنات عامل اور ایک انسان عامل کے عمل کا حصہ تھا حالانکہ اس کالے جادوگر نےتو ایسا عمل کیا تھا کہ جب میرے حصار سے اگر ٹوٹ بھی جائیں تو یہ جاکر لوگوں پر اور شاہ جنات پر ٹوٹ پڑیں لیکن تین جنات اور ایک انسان عامل نے ایسے انداز سے محنت کی اور اپنے عمل کا کمال دکھایا کہ ان کے عمل سوفیصد کارگر ثابت ہوئے اور وہ شخص اپنے آخری وار سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ مٹھی والاعمل نہ کرو: لیکن عاملوں نے اسے گھیرے رکھا اور ایک دوسرے سے کہا کہ عمل کا وار ابھی ختم نہیں ہوا اس کا یہ عمل ابھی اس کے ساتھ باقی ہے اور اس کو مسلسل پھونکیں مارنے لگے۔ ایک عامل نے اس کے ابلتے ہوئے خون کواپنی مٹھی میں لیا اس کی مٹھی خون سے بھر گئی اور اس خون کے اوپر کچھ پڑھنا شروع کیا جب اس خون پر پڑھنا شروع کیا تو کالاجادوگر سمجھ گیا اور یہ عامل انسان تھا اور کہنے لگا: یہ مٹھی کا عمل نہ کر اور اپنی کوشش سے اس کی مٹھی گرانی چاہی لیکن عامل نے نے ایسا اپنے اردگرد حصار لگا دیا کہ وہ مٹھی نہ گرا سکا۔
عامل کا جما خون اسی کے بدن پر مَل دیا:بہت دیر تک وہ عامل اس مٹھی پر کچھ پڑھتا رہا اور دوسرے عامل بھی اپنا عمل کرتے رہے بہت دیر کے بعد اس عامل نے اس جمے ہوئے خون کو اس ظالم جادوگر کے جسم پر مل دیا‘ بس جسم پر ملنا تھا وہ جن جو اتنے خون بہتے جلد کےا دھڑنے اور بال بال کے جسم سے جدا ہونے پر نہ چیخا‘ نہ چلایا‘ نہ رویا ‘نہ ہائے کی وہ اب چیخ و پکار میں ایسے کہ اس سے پہلے جن لوگوں کو اس نے مارا کاٹا جیسے وہ چیخ و پکار میں لگتے تھے اسی طرح یہ بھی چیخ و پکار میں لگ گیا اب اس کی چیخ و پکار سارے مجمع سے
کہیں زیادہ تھی اور سارا مجمع اس کی چیخ و پکار پر خوش ہورہا تھا اور مجمع میں کچھ لوگ اور جنات ایسے تھے جو مسلسل اس کی چیخ وپکار پر رقص کررہے تھے اور ایسا رقص کررہے تھے کہ خود دیکھنے والے بھی حیران تھے۔ ہم نے اس کا عمل توڑ دیا:اور تینوں جنات اور انسان عامل نے آخر کار اعلان کیا کہ اس کا سارا عمل ہم نے توڑ دیا ہے‘ شاہ جنات لہٰذا اب اپنے جلاد اس کی طرف بھیج دئیے جائیں لیکن تھوڑی ہی دیر میں شاہ جنات کے چہرے کا اندازبدلا اور آنکھوں سے غصے کے شعلے اور آگ کی لپٹیں ہواؤں اور فضاؤں کو چھونے لگیں اور ان کی گرج دار آواز ان تینوں جنات عامل اور انسان عامل کی طرف کہ تم تو کہتے تھے کہ ہم نے اس کی تمام جادوئی اور شیطانی قوتوں کو ضبط کرلیا ہے لیکن ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ اس کی تمام جادوئی اور شیطانی قوتیں ضبط نہیں ہوئیں اس نے ہمارے اوپر وار کرنے کی کوشش کی اور خود مرتے مرتے یہ ہمیں اور ہماری رعایا کو مارنا چاہتا تھا۔ اس لاپرواہی کی سزا تمہیں بھگتنا ہوگی: یہ تمہاری ناکامی کی ایک سچی دلیل ہے‘ تمہیں سوفیصد اس کی سزا ملنی چاہیے‘ بس یہ کہنا تھا اور ایک دم سناٹا چھا گیا اور تمام جادوگر اور انسان عامل لرز اٹھے اور ہرطرف خاموشی‘ ہر طرف سکوت اور اک ہو کا عالم تھا اور انسانیت تھی جو کہ خاموشی کی رفتار کو دیکھ رہی تھی۔ ایک بہت بڑے اور پرانے جن نے مؤدبانہ عرض کیا کہ حضور ہم بھی سچ کہہ رہے ہیں اور یہ جو کچھ ہوا وہ بھی سوفیصد سچ اور حق ہوا ہے لیکن ہم اس کو جھٹلا نہیں رہے لیکن آقا بات یہ ہے کہ اس جن نےایسے خفیہ انداز سے دراصل اپنے سر کے بالوں کی اندر کے بلوں میں ایسا جادو چھپا کر رکھا تھا جو بالوں کی بلوں کو کھلتے ہی وہ جادو ایک دم کھل گیا۔)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں