ایک نورانی صاحبِ قبر کی زیارت:رات کے وقت میںسورۃ مزمل پڑھ رہا تھا۔ بہت سخت سردی تھی۔ ہوا بار بار میرے کمبل کو اڑا رہی تھی۔ کمبل کے اوپرایک چھوٹا پتھر رکھا لیکن ہوا نے اس کی پرواہ نہ کی ،میں نے سوچا کہ میں یہاں سے اٹھ کرسامنے پڑاہوا بڑاپتھر اٹھا کر کمبل کے دونوں طرف رکھ دوں پھر یہ ہوا سے نہیں اڑے گا۔
بار بار میرے عمل میں خلل پڑ رہا تھا‘ اس لئے میں نے اٹھ کر جب وہ پتھر اٹھانے کی کوشش کی تووہ پتھر کسی قبر کے اوپر پڑا ہوا تھا۔ قبر کے اوپر کوئی نشان نہیں تھا۔ نشان پتا نہیں کب کا مٹ چکا تھا اور اس کے اندر سفید کفن نظر آیا۔ پتھر اٹھانے سے قبر کا کچھ ٹکڑا مٹی کے ساتھ قبرکے اندرگر گیا اور قبر کافی کھل گئی۔ یہ چاندنی راتوں کی ایک روشن رات تھی۔ اس قبر کے اندر میں نے دیکھا کہ میت پڑی ہوئی ہے۔ پہلے تھوڑا خوف سا ہوا لیکن پھر اللہ پاک نے اپنے نام کی برکت سے تسلی دی، میں نے سوچا کہ اس میت کا سر اور پائوں کس طرف ہو گا۔ قبلے کے رُخ کا تعین کیا تو میں نے سوچا کہ اس طرف سر ہونا چاہیے اور اسی طرف اس کاسر تھا ، میں نے سوچا کہ اس کا چہرہ کھول کر دیکھوں کہ اس کا چہرہ کیسا ہے۔ تو میں یہ دیکھنے کیلئے بیٹھا اورنیچے جھک گیا۔ رات کے غالباً دو اڑھائی بجے کا وقت تھا، سردی کی راتیں تھیں اور سناٹا تھا۔ میں نے جھک کر اُس کفن کی تہیں کھولیں تو یقین جانیے میرے ہاتھوں نے محسوس کیا کہ وہ کفن نہیں تھاکوئی کلف لگا ہوا کپڑا تھا جس کی کڑکڑاہت کی آواز آئی۔بالکل نیااور دیسی رنگ اور ہاتھ کا بنا ہوا کپڑا تھا ، محسوس ہو رہا تھا کہ یہ مشینی کپڑا نہیں ہے‘ مشینی دور سے بہت پہلے کی دنیا کا کپڑا ہے ، اس کو کھولا تو ایک چہرہ نظر آیا۔ عمر کا اندازہ ہو رہا تھا کہ اسی، بیاسی کے آس پاس ہے، گلاب کی طرح کھلا ہوا چہرہ تھا، آنکھیں بند تھیں اور منہ قبلہ کی طرف تھا، بالکل تروتازہ چہرہ، میں نے آنکھ کے پپوٹوں کو ہاتھ لگایا تو مجھے نرم محسوس ہوئے، ہونٹوں کو ہاتھ لگایا تونرم محسوس ہوئے۔عجیب و غریب خوشبو: عجیب و غریب خوشبو آرہی تھی‘ کفن کا پرت کھولتے ہی خوشبو پھیل گئی‘ اتنی خوشبو کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ میں نے اس کے کفن کو مزید کھولا تو سینے پر سفید بال تھے اس سے آگے کفن نہیں کھولا۔ درمیانہ جسم تھا ‘نہ زیادہ بھاری نہ زیادہ ہلکا۔ دراز قد تھا ‘سینے پر میںنے انگلیاں لگائیں،پپوٹوںپر لگائیں، ہونٹوں پر لگائیں، گالوںپر لگائیں،داڑھی کے بالوںپرمیںنے یہ سوچ کر انگلیاں پھیریں کہ شایدبال گرجائیں لیکن ڈاڑھی کے بال بھی نہیں گر رہے تھے۔ جسم ایسا تھا جیسے ابھی سلا کر گئے ہیں اور انوکھی بات ہے، سخت سردی تھی مگر جسم گرم تھا۔ میرے ہاتھ یخ بستہ تھے، سردی میں ٹھٹھر رہے تھے، کیونکہ کمبل سے تو میں نکل آیا تھا، ایک جذبے نے مجھے کمبل سے نکالا تھا۔ میرے ہاتھ ٹھنڈے تھے لیکن وہاں رکھتا تو گرم محسوس ہوتا۔ ایک طرف ٹھنڈا اور دوسری جانب گرم ہو تو احساس زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے اپنے طور پر باتیں کیں، میںنے اللہ سے دعا کی کہ: اے اللہ! اپنے اس بندے تک پہنچا دے بہت دیر تک دعا کی میں نے ’’اے اللہ! اپنے بندے تک تو ہی پہنچا سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد اس قبر کو میںنے پتھروں سے صحیح طریقے سے بند کیا۔ بند کرنے کے بعد میں پھر اپنے عمل میں مشغول ہو گیا۔
خواب میں اس نورانی بزرگ سے ملاقات:صبح کو میں نے ایک جگہ فجر کے بعد کچھ اور اعمال کیے جو میں نے ان صاحبِ قبر کوہدیہ کر دیے۔ اس کے بعد میں لیٹ گیاتو خواب میں ایک صاحب میرے پاس آئے اورکہنے لگے کہ: ’’صدیوں بعد بس تو ہی میرے پاس آیا ہے اور اللہ نے تجھے بھیجا ہے، تیرے ہدیے مجھے ملے ہیں میں تیرا مشکور ہوں، تیرا شکر گزار ہوں۔ ایک وعدہ کر کہ اب مجھے ہدیہ دیتا رہے گا اور یہ وعدہ بھی کر کہ اپنی نسلوںکو بھی وصیت کرنا کہ تمہارے والد کا ایک دوست تھا، وہ ہدیہ مانگتا تھا، میںنے اس کو ہدیہ دیا تم بھی دیتے رہنااور اپنی نسلوں کو بھی یہ کہناکہ وہ اپنی نسلوں کو وصیت کریں۔‘‘میں نے پوچھاکون ہیں؟کہنے لگے: ’’میں جوہری ہوں جوہری۔‘‘
وہ نورانی بزرگ کون تھے؟:ان بزرگ نے ایک پرانے بادشاہ کا نام لیا،انوکھا سا نام تھا، کوئی پتا نہیں کونسی صدی کا بادشاہ تھا‘ یہ صاحب قبر اس کا جوہری تھا۔میںنے ہمیشہ کھوٹے کو کھوٹا کہا ، کھرے کو کھرا کہا اور کبھی دھوکہ نہیں دیا۔ ان بزرگ کاایک اللہ والے سے روحانی تعلق تھا، اُنکی مان مان کر چلتے تھے، اُن سے پوچھ کر چلتے تھے، اُن کی مانے بغیر کوئی کام کرتے ہی نہیں تھے۔ ان کا آخری وقت تھا ،میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ان سے کہا کہ شیخ! دعا کریں اللہ پاک آپ کا ہاتھ قیامت میں بھی سلامت رکھے اور آپ وعدہ کریں کہ اللہ پاک جب آپ کو جنت میں بھیجے گا توآپ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ اس صاحب قبر کے شیخ نے یہ وعدہ کیا اور یہ وعدہ بھی کیا کہ جو بھی تیرا ہاتھ پکڑے گا اللہ اس کو بھی جنت میں بھیجے گا کیونکہ میں اس کا ہاتھ بھی پکڑوں گا ۔‘‘ تو میںنے خواب ہی میں اس صاحب قبر کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر میں نے کہا :آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ آپ مجھے بھی اپنے ساتھ جنت لے کر جائیں گے وہ بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے: ’’آج تیرے ہدیے نے بڑے درجات بلند کر دئیے، صدیوں بعد کوئی بندہ آیا ہے، میں تجھ سے وعدہ کرتا ہوں اور جو بھی تیرا ہاتھ پکڑے گا اس کیلئے بھی وعدہ کرتا ہوں، لیکن ایک وعدہ تو بھی کر لے کہ مجھے ہدیہ بھیجنا نہ چھوڑنا، مجھے ہدیہ بھیجتے رہتا۔ ‘‘دیکھیں کہ کیسی عجیب بات کہی کہ میں بادشاہ کاجوہری تھا میں نے حق کو حق کہا۔ میں نے ان بزرگ سے بہت باتیں کیں۔ وہ بزرگ کہنے لگے: میںنے کھرے کو کھرا کہا اور کھوٹے کو کھوٹا کہا۔ (جاری ہے)
میرے آقا ﷺکی ایک حدیث ہے کہ :دیانتدار تاجر قیامت کے دن انبیاء کرام اور صدیقین کے ساتھ ہو گا۔ نبیین، صدیقین ،شہداء اور صالحین وہ انعام یافتہ چار قسم کے لوگ ہیں جو قرآن پاک میں بیان گئے ہیں۔ ان چار لوگوں کے ساتھ سچا تاجر جو ہے وہ کھڑا ہو گا ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں