جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ تم نے جو تھوڑا سا مشک رکھا ہے اس کو پانی میں گھول کر میرے سر میں لگا دو کیونکہ اس وقت میرے پاس کچھ ایسی ہستیاں تشریف لانے والی ہیں جو نہ انسان ہیں اور نہ جن ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ:ان کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور یہ حضور اقدس ﷺ کے آزاد کردہ غلام ہیں یہ فارس کے شہر ’درامہر مز ‘ذ کے باشندہ تھے ۔ مجوسی مذہب کے پابند تھے اور ان کے باپ مجوسیوں کی عبادت گاہ آتش خانہ کے منتظم تھے ۔ یہ بہت سے راہبوں اور عیسائی سادھوئوں کی صحبت اٹھا کر مجوسی مذہب سے بیزار ہو گئے اور اپنے وطن سے مجوسی دین چھوڑ کر دین حق کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے اور عیسائیوں کی صحبت میں رہ کر عیسائی ہو گئے ۔ پھر ڈاکوئوں نے گرفتار کر لیا اور اپنا غلام بنا کر بیچ ڈالا اور یکے بعد دیگرے یہ دس آدمیوں سے زیادہ اشخاص کے غلام رہے جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت یہ ایک یہودی کے غلام تھے جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو جناب رسول اللہ ﷺ نے ان کو خرید کر آزاد فرما دیا ۔
جنگ خندق میں مدینہ منورہ شہر کے گرد خندق کھودنے کا مشورہ انہوں نے ہی دیا تھا ۔ یہ بہت ہی طاقتور تھے اور انصار و مہاجرین دونوں ہی ان سے محبت کرتے تھے چنانچہ انصاریوں نے کہنا شروع کیا کہ سلمان منا یعنی سلمان ہم میں سے ہے اور مہاجرین نے بھی یہی کہا کہ سلمان منا یعنی سلمان ہم میں سے ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کا ان پر بہت بڑا کرم عظیم تھا جب انصار و مہاجرین کا نعرہ سنا تو ارشاد فرمایا ۔ سلمان منا اہل البیت (یعنی سلمان ہم میں سے ہیں) یہ فرما کر ان کو اپنے اہل بیت میں شامل فرما لیا ۔ عقد مواخات میں حضور اکرم ﷺ نے ان کو ابو الدردا ء صحابی ؓ کا بھائی بنا دیا تھا ۔ اکابر صحابہ میں ان کا شمار ہے بہت عابد و زاہد اور متقی و پرہیز گار تھے ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ یہ رات میں بالکل ہی اکیلے صحبت نبویؐ سے سرفراز ہوا کرتے تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرمایا کرتے تھے کہ سلمان فارسی نے علم اول بھی سیکھا اور علم آخر بھی سیکھا اور وہ اہل بیت ؓمیں سے ہیں ۔ احادیث میں ان کے فضائل و مناقب بہت مذکور ہیں ۔ ابو نعیم نے فرمایا کہ ان کی عمر بہت زیادہ ہوئی ۔ بعض کا قول ہے تین سو چالیس برس کی عمر ہوئی اور دو سو پچاس برس کی عمر پر تمام مورخین کا اتفاق ہے 35 ھ میں آپ کی وفات ہوئی ۔
یہ مرض الموت میں تھے تو حضرت سعد ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے تو حضرت سلمان فارسی ؓ رونے لگے ان حضرات نے رونے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ نے ہم لوگوں کو وصیت کی تھی کہ تم لوگ دنیا میں اتنا ہی سامان رکھنا جتنا کہ ایک سوار مسافر اپنے ساتھ رکھتا ہے لیکن افسوس کہ میں اس مقدس وصیت پر عمل نہیں کر سکا کیونکہ میرے پاس اس سے کچھ زائد سامان ہے۔ بعض مورخین نے آپ کی وفات کا سال 10 رجب 33 ھ یا 34 ھ تحریر کیا ہے ۔ مزار مبارک مداین میں ہے جو زیارت گاہ خلائق ہے (ترمذی مناقب سلمان فارسی و اکمال ص 587 و حاشیہ کنز العمال ج 16 و اسد الغابہ ج 2 ص 328) ۔ملک الموت نے سلام کیا:جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنی بیوی صاحبہ سے فرمایا کہ تم نے جو تھوڑا سا مشک رکھا ہے اس کو پانی میں گھول کر میرے سر میں لگا دو کیونکہ اس وقت میرے پاس کچھ ایسی ہستیاں تشریف لانے والی ہیں جو نہ انسان ہیں اور نہ جن ۔ ان کی بیوی صاحبہ کا بیان ہے کہ میں نے مشک کو پانی میں گھول کر ان کے سر میں لگا دیا اور میں جیسے ہی مکان سے باہر نکلی گھر کے اندر سے آواز آئی ۔ السلامُ علیک یا ولی اللہ السلامُ علیک یا صاحب رسُول اللہ میں یہ آواز سن کر مکان کے اندر گئی تو حضرت سلمان فارسی ؓ کی روح مظہرہ پرواز کر چکی تھی اور وہ اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ گویا گہری نیند سو رہے ہیں (شواہد التبوۃ ص 221) ۔
خواب میں اپنے انجام کی خبر دینا:حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا بیان ہے کہ مجھ سے حضرت سلمان فارسی ؓ نے فرمایا کہ آیئے ہم اور آپ یہ عہد کریں کہ ہم دونوں میں سے جو بھی پہلے وصال کرے وہ خواب میں آ کر اپنا حال دوسرے کو بتا دے ۔ میں نے کہا کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں مومن کی روح آزاد رہتی ہے ۔ روئے زمین میں جہاں چاہے جا سکتی ہے ۔ اس کے بعد حضرت سلمان فارسی ؓ کا وصال ہو گیا ۔
پھر میں ایک دن قیلولہ کر رہا تھا تو بالکل ہی اچانک حضرت سلمان ؓ میرے سامنے آ گئے اور بلند آواز سے انہوں نے کہا السلام ُ علیکم ورحمۃُ اللہ میں نے جواب میں و علیکم السلام ورحمۃُ اللہ کہا اور ان سے دریافت کیا کہ کہئے وصال کے بعد آپ پر کیا گزری ؟ اور آپ کس مرتبہ پر ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں بہت ہی اچھے حال میں ہوں اور میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ خدا پر توکل کرتے رہیں کیونکہ توکل بہترین چیز ہے توکل بہترین چیز ہے توکل بہترین چیز ہے ۔ اس جملہ کو انہوں نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا (شواہد النبوۃ ص 221) ۔چرند و پرند تابع فرمان:ان کی مشہور کرامت یہ ہے کہ جنگل میں دوڑتے ہوئے ہرن کو بلایا تو وہ آپ کے پاس فورا ً ہی حاضر ہو گیا اسی طرح ایک مرتبہ اڑتی ہوئی چڑیا کو آپ نے آواز دی تو وہ آپ کی آواز سن کرزمین پر اتر پڑی (تذکرہ محمود) ۔فرشتہ سے گفتگو:سلمہ بن عطیہ اسدی کا بیان ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ ایک مسلمان کے پاس اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور وہ جاں کنی کے عالم میں تھا تو آپ نے فرمایا کہ اے فرشتہ ! تو اس کے ساتھ نرمی کر ! راوی کہتے ہیں کہ اس مسلمان نے کہا کہ اے سلمان فارسی (رضی اللہ تعالٰی عنہ) یہ فرشتہ آپ کے جواب میں کہتا ہے کہ میں تو ہر مومن کے ساتھ نرمی ہی اختیار کرتا ہوں (حلیۃ اولاولیا ء ج 1 ص 204) ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں