ایک اہم اور نازک نکتہ یاد رکھیئے ۔ آپ پیسے سے خوشی نہیں خرید سکتے ۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جن لوگوں کے پاس اپنی روزانہ کی ضروریات پوری کرنے کو بھی رقم نہیں ہوتی وہ زیادہ پستی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے مقابلے میں جو لوگ اتنا کما لیتے ہیں کہ بہ کفایت اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں
دنیا میں ایسا کون سا شخص ہے جو خوش رہنا نہیں چاہتا ۔ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے ‘ مگر ہر شخص خوشی کو مختلف چیزوں میں تلاش کرتا ہے ۔ کسی کو ڈھیر ساری دولت جمع کر کے خوشی حاصل کرنے کی توقع ہوتی ہے تو کوئی شہرت خصوصاً عالمی شہرت حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا ہے تا کہ خوشی حاصل کر سکے ۔ کسی کو بڑے گھر اور کسی کو دیہی علاقے کی رہائش میں خوشی دکھائی دیتی ہے ۔لیکن کبھی آپ نے اس سوال پر غور کیا کہ خوشی کیا چیز ہے ؟الینوائے یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈائز ایک اچھوتے موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں اور وہ ہے خوشی !ڈاکٹر ڈائز کا کہنا ہے کہ خوشی سے بڑے واضح فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ خوش باش لوگوں میں تخلیقیت ‘ کام کی صلاحیت ‘ صحت حتٰی کہ ایثار کا جذبہ بھی دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے ۔خوش باش افراد ‘ پژ مُردہ لوگوں سے زیادہ پُر اعتماد ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر آپ ایک کمرے میں ایسے کچھ افراد کو جمع کر لیں جو پستی کا شکار ہوں اور کچھ لوگ خوش باش ۔ آپ ان سب سے سوال کیجئے کہ کیا آپ اس کمرے میں موجود تمام لوگوں سے زیادہ پُر کشش شخصیت رکھتے ہیں ؟ اضمحلال میں مبتلا لوگوں کا جواب نفی میں ہو گا ا ور خوش باش لوگوں کا جواب اثبات میں ۔ تا ہم مضمحل افراد زیادہ درست کام کرتے ہیں ‘ مگر تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ کوئی پیچیدہ یا تخلیقی کام ہو تو خوش باش لوگ اس کے نئے نئے حل تلاش کر لیتے ہیں اور زیادہ مستعدی سے کام کرتے ہیں جب کہ ایسی صورت حال میں مضمحل افراد غلطیاں کرتے ہیں ۔
ڈائز ایک محقق ہے اور جیسا کہ تحقیق کاروں کا مزاج ہوتا ہے ‘ وہ اعداد و شمار اور حقائق کی زبان میں بات کرنے کو پسند کرتے ہے ۔ دنیابھر کےبزرگ افراد پر کئے جانے والے ایک طویل مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ نا خوش افراد کے مقابلے میں خوش باش بزرگ چھے سے دس سال زیادہ زندہ رہتے ہیں ۔اسی طرح تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ خوش رہنے والے افراد دکھ درد بانٹنے والے ہوتے ہیں اور سماجی طور پر ان کی زندگی بہتر ہوتی ہے ۔ خوش باش لوگ اپنی خواہشات پر بھی زیادہ اچھی طرح قابو پاتے ہیں ‘ لیکن اگر ان پر کوئی مشکل پڑ جائے تو زیادہ اعتماد اور قوت کے ساتھ صورت حال کا مقابلہ کرتے ہیں ۔خوشی کا انسان کی معاشی زندگی پر اثر پڑتا ہے چنانچہ خوش باش لوگ زیادہ اچھے کار کن ثابت ہوتے ہیں ‘ ان کی تنخواہیں بھی اچھی ہوتی ہیں اور ایسے لوگ انٹر ویو میں بھی زیادہ کامیاب ہوتے ہیں ۔ایک اہم اور نازک نکتہ یاد رکھیئے ۔ آپ پیسے سے خوشی نہیں خرید سکتے ۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جن لوگوں کے پاس اپنی روزانہ کی ضروریات پوری کرنے کو بھی رقم نہیں ہوتی وہ زیادہ پستی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے مقابلے میں جو لوگ اتنا کما لیتے ہیں کہ بہ کفایت اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں ‘ وہ اتنے مضمحل نہیں ہوتے ‘ لیکن بنیادی ضروریات پوری کر لینے کے حوالے سے مزید پیسے کا بہت کم اثر ہوتا ہے۔ایک سروے سے معلوم ہوا کہ امریکا کے امیر ترین افراد اوسط درجے کے امریکیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ خوش نہیں ہیں ‘ لیکن کمانے اور خرچ کرنے میں توازن رکھنا ان کے لئے بہت مشکل تھا ۔
خوشی اور جنس:کیا جنس کا بھی خوشی سے کوئی تعلق ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ عورتیں خوش تو مردوں کے برابر ہی ہوتی ہیں ‘ لیکن پستی (ڈپریشن) کا شکار مردوں سے دُگنا ہوتی ہیں ۔ اسی طرح لاطینی امریکا کے باشندے ایشیائی باشندوں سے زیادہ خوش کیوں ہوتے ہیں اور امریکیوں کے مقابلے میں ایشیائی خستہ حال کیوں ہوتے ہیں ؟ اس کا سبب کیا ہے کہ اسکینڈے نیویا کے باشندوں میں خوشی کی شرح بہت زیادہ ہے اور اسی لحاظ سے ان میں خود کشی کی شرح بھی بلند ہے ۔ڈائز کی تحقیقات خاصی دل چسپ ہیں ۔ اس نے اب تک کی اپنی تحقیقات سے یہ معلوم کیا ہے کہ خوشی کا کوئی لگا بندھا فارمولا نہیں ہے ۔ ہاں البتہ اس نے یہ دیکھا کہ بہت زیادہ خوش لوگوں کے سماجی تعلقات بہت عمدہ ہوتے ہیں ‘ لیکن کیا بہت عمدہ سماجی تعلقات رکھنے والے لوگ بہت زیادہ خوش رہ سکتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب دینا ڈائز کے لئے بھی مشکل ہے ۔
کسی معاشرے کو خوش رکھنے کا کوئی خاص نکتہ یا گُر نہیں ہے ۔ دراصل خوشی سراسر انفرادی معاملہ ہے ‘ اس لئے ضروری نہیں کہ کسی کو اگر ایک شے سے خوشی حاصل ہوتی ہے تو دوسرے کو بھی اس سے خوشی حاصل ہو ۔ اس کی مثال ڈائز کیک کی تیاری سے دیتا ہے ۔ یعنی آپ کیک کے لئے درکار تمام اجزا کو درکار مقدار میں ڈالتے ہیں ‘ اسے مطلوبہ دورانیئے تک اوون میں بھی رکھتے ہیں ‘ مگر پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیک واقعی صحیح تیار ہو گا۔ تاہم اس کے نزدیک خوشی کے اجزا میں سب سے اہم سماجی تعلقات ہیں ۔ اس کے بعد آپ کا مزاج اور من پسند مقصد زندگی جو آپ کو کام پر آمادہ رکھے ۔ یعنی اگر آپ لڑائی جھگڑے کو سخت نا پسند کرتے ہیں تو وکیل کا پیشہ اختیار کر کے شاید ہی کبھی خوش رہ سکیں ۔آپ کتنے خوش ہیں ؟:ڈائز نے ایک سوال نامہ ترتیب دیا ہے جس کی مدد سے آپ کسی حد تک اپنی خوشی کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ ذیل میں پانچ مختلف صورت ہائے احوال دی گئی ہیں اور ان کے آگے ایک سے سات تک اعداد ۔ صورت حال کو دیکھ کر اندازہ لگایئے کہ آپ کس عدد سے متفق ہیں ۔ سات نمبر بہت زیادہ متفق کو ظاہر کرتا ہے ‘ چھے نمبر صرف متفق کو ‘ پانچ نمبر کا مطلب ہے کہ آپ اس سے کسی حد تک متفق ہیں ‘ چار نمبر کا مطلب ہے کہ آپ نہ متفق ہیں نہ غیر متفق ‘ تین نمبر کا مطلب ہے آپ تھوڑا سا غیر متفق ہیں ‘ دو نمبر کا مطلب ہے کہ بالکل غیر متفق ہیں اور ایک نمبر کا مطلب ہے کہ آپ بہت زیادہ غیر متفق ہیں ۔پانچوں صورت ہائے احوال کے حاصل کردہ نمبروں کو جمع کریں اور آخر میں دیئے گئے پیمانے کے ذریعے سے اندازہ لگائیں کہ آپ کتنے خوش اور مطمئن یا کتنے غیر مطمئن اور نا خوش ہیں ۔(الف) زیادہ تر چیزوں میں میری زندگی میرے آئیڈیل کے قریب ہے ۔ 1 ‘ 2 ‘ 3 ‘ 4 ‘ 5 ‘ 6 ‘ 7 ‘ ۔(ب) میری زندگی کی حالت بہترین ہے ۔ 1 ‘ 2 ‘ 3 ‘ 4 ‘ 5 ‘ 6 ‘ 7 ‘ ۔ (ج) میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں ۔ 1 ‘ 2 ‘ 3 ‘ 4 ‘ 5 ‘ 6 ‘ 7 ‘ ۔د) بہ ہر کیف وہ تمام اہم اشیا میرے پاس موجود ہیں جو میں زندگی میں حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ 1 ‘ 2 ‘ 3 ‘ 4 ‘ 5 ‘ 6 ‘ 7‘ ۔ہ) اگر میری زندگی ختم ہونے والی ہو تو تب بھی میں اپنی زندگی کی تقریبا ً تمام چیزیں نہیں بدلوں گا ۔ 1 ‘ 2 ‘ 3 ‘ 4 ‘ 5 ‘ 6 ‘ 7 ‘ ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں