انہیں بہت زمانہ سے ذیابیطس کا مرض لاحق تھا‘ شوگر اچانک بہت بڑھ جاتی ہے اور اچانک اتنی کم ہوجاتی ہے کہ جان کے لالے پڑجاتے ہیں‘ بیسوں سال سے ڈاکٹروں اور اطباء کے مشورے اور زیر علاج رہ کر وہ درمیانی درجہ کے طبیب کی طرح اس مرض کی نوک پلک سے واقف ہوگئے ہیں‘ انہوں نے اپنی ایک بیٹی کی شادی پاکستان میں اپنے ایک عزیز کے یہاں کی ہے‘ صاحبزادی سے ملنے کیلئے وہ سفر کرتے رہتے ہیں جو کراچی میں مقیم ہیں اور ان کےشوہر ایک سرکاری منصب پر فائز ہیں۔کچھ روز پہلے اسرار صاحب کا کراچی کا سفر ہوا وہاں انہیں قلب میں کچھ تکلیف محسوس ہوئی گھر سے باہر وہ ذرا پریشان ہوئے تو ان کی صاحبزادی اور داماد نے بتایا کہ یہاں کراچی میں تقریباً سب سے بڑے کارڈیالوجسٹ ایک غیرمسلم ہندو ڈاکٹر ہیں‘ مگر ان کے یہاں بہت رش رہتا ہے اور اپوائنمنٹ بہت مشکل سے مہینوں بعد کا ملتا ہے‘ ان کے داماد نے ان سے کہا کہ میرے جاننے واے ایک افسر ڈاکٹر صاحب کے رابطہ میں ہیں‘ ان کی سفارش سے جلد وقت مل جائے گا‘ بڑی سفارش کے بعد پانچ روز بعد ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا وقت ملا‘ ڈاکٹر صاحب کی کنسلٹنگ فیس دو ہزار روپے تھی‘ ریسیپشن پر دو ہزار روپے جمع کرا کے‘ اپنے نمبر پر جو وہاں جانے کے بعد دو گھنٹہ میں آیا‘ اسرار صاحب اپنے داماد کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے کیبن میں گئے تو دیکھا کہ ڈاکٹرصاحب کی میز پر اس حقیر کی کتاب ’’آپ کی امانت آپ کی سیوا‘‘ اردو کاپی رکھی ہوئی ہے‘ اسرار صاحب چونکہ ہمارے دعوتی رفیق بھی ہیں اور پیشہ سے انجینئر ہیں‘ بڑی سرکاری پوسٹ سے ریٹائرڈ ہیں‘ اپنے ملک اور اپنے کسی تعلق والے کی کتاب اتنے اہم ڈاکٹر کی میز پر دیکھ کر خوش بھی ہوئے اور ان کی نگاہیں کچھ حیرت اور کچھ خوشی میں اس کتاب پر جم گئیں‘ کتاب کو گھورتے ہوئے دیکھ کر ڈاکٹر صاحب نے پوچھا‘ یہ کتاب ہندوستان کے مصنف نے لکھی ہے کیا آپ ان کو جانتے ہیں؟ اسرار صاحب نے بے اختیار کہا: وہ تو ہمارے حضرت ہیں‘ اور ہم لوگ ان سے جڑے ہوئے ہیں‘ اور میرا اصلاحی تعلق ان سے ہی ہے‘ ڈاکٹرصاحب نے یہ بات سنی تو ریسپشن سے وہاں پر بیٹھی ہوئی ریپشنسٹ کو بلایا اور کہا ان کی فیس واپس کردیں‘ اسرار صاحب اور ان کے داماد بہت اصرار کرتے رہے کہ نہیں ڈاکٹرصاحب ہم فیس واپس نہیں لیں گے‘ آپ کا یہ احسان ہی کیا کم ہے کہ آپ نے اتنی جلدی اپوائنمنٹ دے دیا‘ ڈاکٹرصاحب نے کہا بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ایک محب انسانیت عالم سے وابستہ ہیں اور میں آپ کی اتنی بھی خدمت نہ کروں‘ پیسے باصرار واپس کردئیے اور معلوم کیا کہ آپ یہاں کراچی میں کب تک ہیں‘ انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ اور ہوں‘ ڈاکٹرصاحب نے کہا آپ کو جب میری ضرورت ہو‘ مجھے فون کریں‘ میں اپنی گاڑی بھیج کر بلالوں گا اور اپنے سیکرٹری کو کہا کہ اسرار صاحب جب آئیں انہیں روکنا نہیں‘ اور نمبر کا خیال کیے بغیر ان کو اندر میرے پاس لانا ہے‘ بہت اہتمام سے ڈاکٹرصاحب نے چیک اپ کیا دوا لکھی اور انہیں اپنی گاڑی سے اپنے گھر بھجوایا۔اسرار صاحب بار بار اس واقعہ کا مزے لے لے کر ذکر کرتے ہیں‘ وہ اس پس منظر میں اس واقعہ کو دیکھتے ہیں کہ انسانیت کی ہمدردی اور پوری انسانیت کو اپنا خونی رشتہ کا بھائی بہن‘ اپنے نبی ﷺ کا امتی‘ اپنے پیارے رب کا بندہ سمجھ کر محبت اور خیرخواہی اور دعوتی فریضہ کی ادائیگی کے تصور سے لکھی گئی کتاب پر نگاہ جمانے کا ضمنی فائدہ یہ ہے کہ کراچی شہر کے ممتاز ترین سمجھے جانے ایک ڈاکٹر نے نہ فیس واپس کردی بلکہ ہمیں لائن سے بچا کر اپنی گاڑی میں بلانے کی پیش کش بھی کی‘ کریم رب کا کتنا بڑا احسان ہے انہوں نے اپنے آخری رسول نبی رحمۃ للعالمین ﷺ کا امتی بنا کر‘ ان پر ختم نبوت کا اعلان فرما دیا اور آخرت کے آخری درجہ میں الجھے مسائل اور رکاوٹوں‘ مشکلات کے تالوں کو کھولنے کے دعوت کی شاہ کلید کو ہمارا منصبی فریضہ بنا کر ہمیں دنیا و آخرت کے مسائل حل کرنے کا ایسا نسخہ کیمیا عطا فرمایا کہ زندگی کے مشکل ترین روزمرہ کے مسائل راہ دعوت میں ضمناً چٹکیوں میں حل ہوجاتے ہیں‘ کاش ہم اس شاہ کلید کی قدر اور عظمت کو سمجھتے!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں